سہ ماہی ''نیا ادب‘‘ بنگلور کا حوالہ اگلے روز آ چکا ہے۔ اب اس سلسلے میں کچھ مزید گزارشات۔ اس کا وقیع ترین حصہ گوپی چند نارنگ کے غالب فہمی کے بارے میں وہ تین مضامین ہیں جو سو صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ نے حالیؔ کی 'یادگارِ غالبؔ‘ کو بنیاد بنا کر لکھا ہے اور اس میں مزید بیش بہا نکات خود اٹھاتے ہوئے اسے بیدلؔ تک لے گئے ہیں۔ نارنگ کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ پیچیدہ سے پیچیدہ بات کو بھی عام فہم بنا کر پیش کرتے ہیں اور ان کی تنقید یقینا تخلیق کا درجہ رکھتی ہے۔ ان مضامین میں موصوف نے جس ژرف نگاہی اور باریک بینی سے کام لیا ہے‘ ایسا شاید کوئی اور نہ کر سکتا۔ اور ثابت کیا ہے کہ اتنے بڑے شاعر کی شرح لکھنے کے لیے نقاد بھی اتنا ہی بڑا درکار تھا۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شاعری کے عام قاری کو اس سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ عام قاری سے میری مراد ایسا قاری ہے جو شاعری کی شدھ بدھ بھی رکھتا ہے اور اس سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت بھی۔ چنانچہ یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ بڑی شاعری وہ ہے جو عام لوگوں کو بھی اپیل کرے اور خاص لوگوں کو بھی۔ شاعری کے مطالبہ کے لیے تو لوگوں کے پاس پہلے ہی وقت بہت کم رہ گیا ہے؛ چہ جائیکہ اسے پڑھنے کے لیے وہ اس کی ایک آدھ شرح بھی ساتھ رکھے۔ شاعری آدمی لطف اندوز ہونے اور ایک مخصوص حظ اٹھانے کے لیے پڑھتا ہے‘ کوئی پہیلی بوجھنے یا معمہ حل کرنے کے لیے نہیں اور نہ ہی وہ ایک طرح کے دردِ سر میں مبتلا ہونے کے لیے ایسا کرتا ہے۔
غالبؔ کے کلام کا بیشتر حصہ فارسیت زدہ ہے۔ وہ زمانہ اور تھا
جب برصغیر کے کچھ علاقوں میں سرکاری زبان ہی فارسی ہوا کرتی تھی۔ اب تو اس کا چلن ہمارے ہاں سے رفتہ رفتہ ویسے ہی ختم ہوتا جا رہا ہے بلکہ ہو چکا ہے؛ چنانچہ ان حالات میں غالبؔ کا ایسا کلام ایک ایسی رسد کی حیثیت رکھتا ہے جس کی طلب نہ ہونے کے برابر ہو۔ نارنگ نے اپنی معرکتہ الآرا کتاب ''معنی آفرین‘ جدلیاتی وضع‘ شِونیتا اور شعریات‘‘ میں خود لکھا ہے کہ عمر کے آخری حصے میں غالبؔ نے اپنا ایسا کلام منسوخ کر دیا تھا جبکہ کچھ حصے کو اس نے قدرے عام فہم بنانے کی بھی کوشش کی تھی۔
یہ کون نہیں جانتا کہ شاعری کا فیشن تبدیل ہو چکا ہے۔ اب ایسا شعر نہ تو کہا جاتا ہے نہ اس کی تحسین کی جاتی ہے جیسا اساتذہ کے زمانے میں تھا۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ غالبؔ کے عام فہم کلام کا بھی ایک قابلِ ذکر ایسا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ سنجیدہ ہونے کی بجائے مزاحیہ ہو کر رہ گیا ہے‘ مثلاً ؎
مرتا ہوں اس آواز پہ‘ ہر چند سر اُڑ جائے
جلّاد سے لیکن وہ کہے جائیں کہ ہاں اور
آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا
اور‘ اس طرح کی بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ ایمائیت کی اہمیت سے انکار نہیں بلکہ اس کے بغیر تو شاعری ہو ہی نہیں سکتی‘ لیکن یہ بھی تو دیکھا جائے کہ شعر کا امیج کیا بنتا ہے۔ آپ خود ہی بتایئے کہ کیا آج ایسا شعر کہا جا سکتا ہے‘ اور اگر نہیں کہا جا سکتا تو آج اس کی قدر‘ جواز یا ضرورت کیا ہوگی‘ اور ماضی میں کہے گئے ایسے اشعار کا کوئی کیا کرے گا؟
شاعری کے لیے ضروری ہے کہ یہ آج کی شاعری بھی ہو۔ اسے محض احتراماً نہیں پڑھا جا سکتا۔ اور‘ قاری ہمیشہ آج ہی کی شاعری کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ وہی اس کی نوع بہ نوع ضرورتوں کو بھی پورا کرتی ہے۔ حتیٰ کہ ماضی کی شاعری بھی ساری کی ساری ہی ماضی کی شاعری نہیں ہے بلکہ جہاں تہاں اس میں آج کی شاعری بھی موجود ہے۔ اس لیے کہ ہر اصیل شاعر مستقبل میں بھی ہوتا ہے‘ اسی لیے اس کی شاعری آنے والے زمانوں کے لیے بھی پرانی اور ازکار رفتہ نہیں ہوا کرتی۔ خود غالبؔ کی عام فہم شاعری کا ایک بڑا حصہ آج بھی اتنا ہی جدید ہے جتنا کہ آج کی شاعری یہ دعویٰ کر سکتی ہے۔
چنانچہ غالبؔ اگر زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا تو اپنی اس شاعری کے بل بوتے پر جو عام فہم ہے۔ اس شاعری کے زور پر نہیں جسے آج بھی ایک لاینحل معمے کی حیثیت حاصل ہے۔ اگرچہ ساری شاعری پورے طور پر سمجھنے کے لیے ہوتی بھی نہیں اور شعر کا سمجھے بغیر بھی مزہ لیا جا سکتا ہے جیسا کہ غالبؔ نے خود کہہ رکھا ہے کہ ؎
نہیں گر سر و برگِ ادراکِ معنی
تماشائے نیرنگِ صورت سلامت
گر بمعنی نہ رسی جلوۂ صورت چہ کم است
خمِ زلف و شکن طرفِ کُلاہے دریاب
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے اور غالبؔ کا مدعا بھی یہی تھا کہ شعر محض الفاظ کے چنائو اور در و بست سے بھی مزہ دے سکتا ہے جبکہ میری مراد ایسے اشعار سے ہے جو یہ طلسم بھی اپنے اندر نہیں رکھتے۔ اس ضمن میں بیدلؔ نے بھی کہا تھا کہ شعر خوب معنی ندارد۔
لیکن جو شعر آپ کے ساتھ کچھ بھی نہ کرے اور جس کا مطلب بھی سمجھ میں نہ آ رہا ہو‘ بے شک یہ مطلب نکال کر سمجھایا بھی جا سکتا ہو‘ لیکن مزہ پھر بھی نہیں آئے گا کیونکہ اس سے شعر بینی کا اولین مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ آدمی شعر پڑھے اور اس کا مطلب ڈھونڈنے کے لیے کسی مناسب آدمی کی تلاش میں لگ جائے۔ شارحین جو کام کرتے ہیں اور بطور خاص جو گوپی چند نارنگ نے کر دکھایا ہے‘ اسے خدانخواستہ مسترد کرنا مقصود نہیں بلکہ یہ سوال پھر آن کھڑا ہوتا ہے کہ اس سے عام قاری کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے ماسوائے اس کے کہ یہ محققین کے لیے کارآمد ضرور ہے یا وہ مشکل پسند قارئین جن کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہی رہے
گی۔ پھر‘ ایک اور دقت یہ ہے کہ مشکل شعر کے معانی اگر ایک بار کھول کر بیان کر بھی دیئے جائیں تو وہ ہمیشہ یاد نہیں رہتے اور آدمی پھر وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے چلا تھا۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ غالبؔ کی ایسی شاعری میں جتنے بھی نادر نکات اور ارفع و اعلیٰ سطحیں بیان کی گئی ہیں‘ انہیں عام فہم زبان میں بھی نظم کیا جا سکتا تھا اور جس کے ثبوت کے لیے غالبؔ ہی کے کئی ضرب المثل اشعار موجود ہیں۔ لیکن غالبؔ جس شاعر یعنی بیدلؔ کی پیروی کر رہا تھا وہ خود مشکل پسندی کی ایک مثال تھا۔ اگرچہ اسے اس وقت بھی سکۂ رواں کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ کام ایسا کرنا چاہیے جس سے زیادہ سے زیادہ لوگاوں کا بھلا ہو سکے۔ سو‘ ان معمہ اشعار کی گتھیاں کھولنے کی بجائے کیا یہ بہتر نہیں کہ غالبؔ کے عام فہم اشعار پر یہی کام کیا جائے اور قاری پر مکمل طور پر ناقابلِ فہم اشعار کا بوجھ نہ ڈال دیا جائے کیونکہ غالبؔ جیسے شاعر کے عام فہم اشعار میں بھی ابھی اتنی گنجائش موجود ہے کہ ان میں سے نت نئے نکات نکالے جا سکیں۔ غالبؔ بذاتِ خود ایک مستقبل بیں شاعر تھا لیکن بوجوہ وہ اکثر ایسے اشعار کہنے پر آمادہ رہا جن کا بظاہر کوئی سر پیر ہی نہ ہو۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی ساری ہُنرمندی آسان فہم اشعار تک ہی محدود رہ کر بروئے کار لا سکتا تھا کیونکہ اسے معلوم ہونا چاہیے تھا کہ مشکل پسندی زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔
آج کا مقطع
ظفر‘ وہ یک بیک پانی کی رنگت ہی بدل جانی
سفینے اور ہو جانے‘ ستارہ اور ہو جانا