میاں نواز شریف کے دورہ بھارت نے بہت سے افراد، خاص طور پر مذہبی حلقوں اور دفاعی اداروں سے قربت رکھنے والوں کو ناراض کر دیا۔ اگرچہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس دورے کے لیے آرمی چیف اور وزیر اعظم کے درمیان اتفاق رائے موجود ہے لیکن کچھ تجزیہ کار قدرے مشتعل دکھائی دیے۔ ایک صاحب نے وزیر اعظم نواز شریف کو دیے گئے کم پروٹوکول پر اعتراض کیا‘ حالانکہ ایسی کوئی بات نہ تھی۔ دراصل پاکستانی وزیر اعظم کا گرم جوشی سے استقبال کیا گیا اور انہیں دیگر غیرملکی مہمانوں کی نسبت زیادہ توجہ ملی۔
کچھ لوگ ایسا تاثر دے رہے ہیں‘ جیسے وزیر اعظم نواز شریف نے بھارت جا کر پاکستان کی عزت و وقار کو سخت نقصان پہنچایا ہو۔ جماعت اسلامی کے فرید پراچہ کی بات دلچسپی سے خالی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اُنہیں یقین تھا‘ اس دورے کا مقصد بھارت کو زیادہ رعایتیں دینا ہے اور یہ کہ ہم بہت جلد اپنی عزت و وقار اور کشمیر پر اپنے اصولی موقف کا سودا کر لیںگے کیونکہ ہماری حکومت کی نظر صرف اور صرف منافع کمانے پر ہے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں شرکا اس بات پر سخت صدمے میں تھے کہ موجودہ دور میں دونوں ممالک کے درمیان معاشی پہلو فوجی اور دفاعی امور سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔
ایسے سوالات سن کر ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ کیا معیشت کشمیر یا دیگر معاملات سے زیادہ سٹریٹجک اہمیت کی حامل ہے؟ اس حقیقت سے قطع نظر کہ اس مسئلے پر پاکستان کئی برسوں تک براہ راست یا بالواسطہ پراکسی جنگیں لڑ چکا ہے‘ جن ممالک کے
درمیان فوجی رقابت ہوتی ہے کیا اُنہیں معاشی وسائل درکار نہیں ہوتے؟ یا پھر پراچہ صاحب بھی انہی ریٹائرڈ کرنل صاحب کی طرح سوچتے ہیں جن سے میری حال ہی میں یہ بات چیت ہوئی کہ چین ہماری تمام تر دفاعی اور سٹریٹجک ضروریات کا خیال رکھنے کی ذمہ داری اٹھا چکا ہے، اس لیے ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی ''ذلت‘‘ اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ ہو سکتا ہے جماعت اسلامی کے رہنما یہ سوچ رہے ہوں کہ اسلام آباد کے پاس معاشی وسائل کی کمی نہیں اور اگر کبھی رقم کی کمی کا مسئلہ پیش آیا تو طالبان سے ادھار لی جا سکتی ہے۔ دراصل ان کی طرف سے ماضی میں ایک مرتبہ یہ پیش کش سامنے آ چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چین نے متعدد مواقع پر ہمیں وارننگ دی ہے کہ ہم محاذ آرائی کے بجائے نئی دہلی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں۔
ملک بھر میں جاری بحث سے اندازا ہوتا ہے کہ کچھ حلقے منافع کمانے کو گناہ سمجھتے ہیں۔ جب آپ اُنہیں بتائیں کہ پاکستان کے زیادہ تر تاجر بھارت کے ساتھ تجارتی روابط چاہتے ہیں تو ان کا رد عمل منفی ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مودی سرکار سے ہمارے تجارتی حلقوں کو بہت سی توقعات پیدا ہو گئی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ من موہن سنگھ کی کمزور حکومت کے برعکس موجودہ طاقتور حکومت جاندار فیصلے کرتے ہوئے تجارتی تعلقات بڑھانے کی طرف جا سکتی ہے؛ تاہم قدامت پسند حلقوں کی طرف سے پھیلائی گئی سوچ کی وجہ سے عوام کی کچھ تعداد تاجروں کی اس ذہنیت کو ملکی مفاد کے خلاف سمجھتی ہے۔ ہماری ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر حلقے بھی اسی سوچ کے حامل ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنے کتاب کے لیے مواد اکٹھا کرنے کے لیے عام تاجروں اور چند فوجی افسران سے ڈیفنس انڈسٹری کے بارے میں کچھ سوالات پوچھے تھے۔ جب میں نے پوچھا کہ فوجی جنرل نجی شعبے کو ڈیفنس انڈسٹری میں قدم کیوں نہیں رکھنے دیتے تاکہ ان کا کچھ دبائو کم ہو جائے تو ان کی طرف سے ہمیشہ یہ جواب ملتا کہ نجی شعبے میں کام کرنے والے صنعت کاروں کا بنیادی مقصد صرف رقم کمانا ہوتا ہے۔ میں حیران ہوئی کہ کیا یہ فوجی افسران نہیں جانتے کہ فوجی فائونڈیشنز کے تحت چلنے والی چینی اور سیمنٹ کی صنعتیںکس طرح پیسہ کماتی ہیں اور کیا اس نے 1990ء کی دہائی میں، جب نواز شریف کی پہلی حکومت تھی، بھارت کو چینی فروخت کرتے ہوئے رقم نہیں کمائی تھی؟ یا وہ سیمنٹ بیچ کر کیا کماتے ہیں؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کچھ حلقے رقم کمانے کو ملکی مفاد کے خلاف کیوں سمجھتے ہیں؟ کاروبار اور صنعت کا بنیادی مقصد رقم کمانا ہی ہوتا ہے۔ تمام دنیا میں ان کا واحد مقصد یہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر دنیا بھر کی ڈیفنس انڈسٹری صرف اپنے وطن کی محبت میں ہی ہتھیار نہیں بناتی بلکہ وہ اس کے ذریعے رقم کما کر اپنی مشین کو رواں دواں رکھتی ہے، اپنی فورس کو تنخواہ دیتی ہے اور کچھ رقم اپنی جیب میں بھی ڈال لیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عوام کی فہم کے مطابق قومی مفاد کا سودا کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ڈیفنس انڈسٹری کو ہونے والی جنگوں سے فائدہ ہوتا ہے، اس لیے وہ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہی ہوتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو مختلف حلقوں میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ اگر ایک مرتبہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت شروع ہو گئی تو ان کے تعلقات معمول پر آ جائیں گے تو پھر فوج کی اہمیت کم ہو جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ امن کی صورت میں پاکستان کو توقع سے زیادہ فائدہ ہو گا۔
اہم سوال یہ ہے کہ ان افراد اور تاجروں کو غدار کیوں سمجھا جا رہا ہے جو بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں؟ ہم بہت دیر سے مسئلہ کشمیر کو اپنے سر پر سوار کیے بیٹھے ہیں اور اس پر مہم جوئی کا شوق بھی پورا کر کے دیکھ چکے ہیں کہ یہ برداشت سے باہر ہے۔ ایک سادہ سی حقیقت ذہن میں بٹھانے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ تجارتی تعلقات کے ذریعے ہم اپنے روابط معمول کی سطح پر لا سکتے ہیں۔ اس سے طرفین کو ایک دوسرے کا موقف سمجھنے میں مدد ملے گی اور غلط فہمیاں دور ہوں گی۔ اس ماحول میں جنگ کے بغیر بھی بہت سے دیرینہ حل طلب مسائل پر افہام و تفہیم کی کوئی راہ نکل سکتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بھی ایک جوا ہے، لیکن یقینا اس میں جنگ جیسا خطرہ نہیں۔ ہم اپنے لوگوں پر اعتماد کیوں نہیں کرتے؟ کیا یہ لوگ جو بھارت کے ساتھ تجارت کرنا چاہتے ہیں، ملکی مفاد کے خلاف کام کریں گے؟
بہرحال اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اپنی سوچ تبدیل کرنا ہو گی۔ ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کا کہنا ہے کہ تجارت اچھی چیز ہے لیکن حکومت کا خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ لوگ شک کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تجارتی روابط کو دوسروں کی نظر سے دیکھا جائے۔ ایک سوچ یہ بھی ہے کہ بھارت سے تجارت بڑھانے سے یہ نقصان ہو گا کہ بھارت کو افغانستان میں زیادہ مواقع میسر آ جائیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب کشمیر سے بھی زیادہ افغانستان کا مسئلہ ہمارے سر پر سوار رہے گا۔ جس دوران ہم اصرار کر رہے ہیں کہ مودی حکومت کو مثبت طرز عمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے، پاکستان کو اپنے بارے ہمدردی بھرے جذبات پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے التباسات سے جان چھڑا کر ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی ترجیحات اور تصورات کو مثبت خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔