یہ نہیں کہ غالب کو اپنی مشکل پسندی اور پیچیدہ گوئی کا احساس نہیں تھا یا وہ اس بارے لوگوں کے اضطراب سے واقف نہ تھا بلکہ یہ شکایت لوگ خود بھی کرتے تھے جس پر اسے کہنا پڑا ؎
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
سن سن کے اسے سخنورانِ کامل
آسان کہنے کی کرتے ہیں فرمایش
گو ئم مشکل و گر نہ گوئم مشکل
اور اصل بات اس نے آخری مصرعے میں بتا ہی دی کہ اگر مشکل کہوں تو لوگوں کے لیے مشکل ہے اور اگر مشکل نہ کہوں‘آسان کہوں تو میرے اپنے لیے مشکل ہے ،کیونکہ وہ اپنے لیے جو سٹائل اختیار اور استوار کر چکا تھا وہ اسی کو سینے سے لگائے رکھنا چاہتا تھا۔
چنانچہ بیدل نے غالب کو جو سب سے بڑا نقصان پہنچایا وہ یہی تھا کہ اسے اس طرف دھکیل دیا ‘بے شک اس میں غالب کے میلان طبع کو بھی دخل ہو گا لیکن یہ میلان بھی خارجی اثرات سے پاک نہیں ہو سکتا اور اگر بیدل کو غالب کے مصنوعی مرشد کی حیثیت حاصل تھی تو اس دائرے سے نکلنا بھی اس کے لیے کچھ اتنا آسان نہ ہو گا ‘یعنی اگر وہ اس سے نکلنا چاہتا بھی ۔جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے، غالب آسان زبان میں بھی اس تہہ داری اور معنی آفرین کا جادو جگا سکتا تھا جو اس نے اپنے مشکل اشعار میں روبراہ کیا اور جس کی ایک مثال غالب کے ان آسان فہم اشعار میں بھی مل جاتی ہے جہاں اس نے ایسے کمالات دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
لطف یہ ہے کہ اس حوالے سے غالب کو بے معنویت کا طعنہ بھی دیا گیا جس پر اس نے برپشم قلندر کہتے ہوئے پورے طمطراق سے یہ شعر کہا ہے ؎
نہ ستایش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں میرے اشعار میں معنی‘نہ سہی
چنانچہ فارسی کا مٹتا ہوا منظر تو ایک طرف ‘خود اس مشکل پسندی کا بھی کوئی مستقبل نہیں تھا کیونکہ ہم نے دیکھا کہ غالب کے بعد کسی شاعر نے یہ روش اختیار نہ کی اور نہ ہی یہ کوئی ایسا پرکشش لب و لہجہ تھا کہ اس کی تقلید کی جاتی۔اگرچہ بصورت دیگر غالب کا اپنا بھی کوئی خاص رنگ نہیں تھا جو اس کے بعد میں آنے والوں میں سے کسی پر چڑھ سکتا اور یہ ایک مزیدعنصر ہے کہ کوئی مخصوص رنگ نہ رکھتے ہوئے بھی غالب کا کوئی ثانی پیدا نہیں ہو سکا کیونکہ شاعر میں اگر ایک غیر معمولی طاقت اور وفور موجود ہو تو اس کے لیے کوئی خاص لب و لہجہ ضروری بھی نہیں رہتا اور یہ بجائے خود ایک استثنیٰ ہے۔
ذرا اندازہ لگائیں کہ اگر ان پیچیدہ اشعار کی بجائے سبھی اتنے ہی عام فہم اشعار ہوتے تو غالب کا مرتبہ مزید کتنا بلند ہوتا کیونکہ مذکورہ اشعار ایک طرح سے ضائع ہی ہو چکے ہیں جن کے لیے آج شرح و تشریح کی بیساکھیاں مہیا کرنا پڑتی ہیں اور یہ کس قدر ستم ظریفی کی بات ہے کہ اعلیٰ درجے کے اتنے اشعار سے عام قاری مکمل طور پر محروم رہ جائے۔یقینا میری اس رائے سے اختلاف کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات پر اصرار کیا جا سکتا ہے کہ یہ اشعار اپنی جملہ جلوہ سامانیوں کے ساتھ اب بھی ‘تھوڑی سی محنت کے بعد
ہر کسی کے لیے دستیاب ہیں۔ تاہم‘ محنت تھوڑی کرنی پڑے کہ زیادہ زور لگا کر نہ تو شعر کہنا مستحسن ہے نہ پڑھنا۔ یہ بھی نہیں کہ ہم بہت زیادہ تساہل پسند ہو گئے ہیں بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ شعر سے تو توقع ہی یہ کی جاتی ہے کہ ازحل دل خیزدبر دل ریزد۔ اوریہ کلیہ مکمل طور پر قابل قبول نہ بھی سہی‘مشکل یہ ہے کہ آج کے قاری کو اور بھی بہت سے کام ہوتے ہیں اور جو وقت وہ شاعری کے لیے نکالتا ہے اس میں شعر پڑھنے کے بعد سر پکڑ کر بیٹھ جانا شامل نہیں ہوتا اور ان زمینی حقائق کو آپ کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔
بیدل ؔخود بہت بڑا شاعر ہے بلکہ اسے برصغیر کا سب سے بڑا فارسی شاعر تسلیم کیا گیا ہے‘لیکن اس کا رنگ ورو غن بھی تیزی سے اترتا چلا جا رہا ہے۔وجوہ وہی ہیں جو ہم غالب کے بارے میں قرار دے رہے ہیں یعنی ایک تو فارسی اور دوسرے غیر معمولی پیچیدگی۔ اس لیے کہ زبان کے ساتھ ساتھ شاعری بھی آسان فہمی کی منزل پر پہنچ چکی ہے بلکہ عرصہ دراز سے پہنچی ہوئی ہے اور لوگ بھی یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ مشکل شعر کی گتھیاں سلجھانے کی بجائے کوئی اور ضروری کام کیوں نہ کر لیں البتہ جو لوگ فراغت کی نعمت سے سرشار ہیں ان کی بات اور ہے‘ لیکن وہ بھی کتنے لوگ ہوں گے؟
گوپی چند نارنگ جیسا غزل سے محبت کرنے والا نقاد شاید ہی اورکوئی ہو ۔ان سے زیادہ یہ بات کون جانتا ہو گا کہ جدید غزل آسان فہم ہوتے ہوئے بھی کیا سامان رسانی نہیں کر رہی؟ اور کیا اس آسان فہمی میں بھی وہ ،وہ کارنامے سرانجام نہیں دے رہی‘پیچیدہ اشعار جن کی وجہ سے ممتاز قرار دیے جاتے ہیں۔ وقت کی گاڑی کو آپ پیچھے تو دھکیل کر نہیں لے جا سکتے۔عصر کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جنہیں نظر انداز کر کے عمدہ شاعری تخلیق کی ہی نہیں جا سکتی۔چنانچہ عصر حاضر پر آپ دو اڑھائی سو سال پہلے کی شاعری کو کیونکہ ترجیح دے سکتے ہیں کیونکہ شاعری محض شاعری نہیں ہوتی‘ اور بھی بہت کچھ ہوتی ہے۔
یہ بھی نہیں کہ جدید غزل غالب سے لاتعلق رہ کر کوئی معرکہ سرانجام دے سکتی ہے ۔غالب آج بھی نئے شعرا کے لیے روشنی کے ایک مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی طرف سے بھی ہو کر نکلنے کی کوشش کریں۔ آگے غالب ہی کھڑا نظر آئے گا۔غالب ہی کی انگلی پکڑ کر میرے جیسوں نے بھی اس میدان میں قدم قدم چلنا سیکھا۔ اور ‘یہ جو کچھ اوپر عرض کیا گیا ہے اس میں سے غالب کی محبت کو منہا نہیں کیا جا سکتا ۔غالب فی زمانہ بھی ایک ایسا ماڈرن شاعر ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔اس لیے غالب کی اہمیت کو کم کرنے کی کسی جسارت کا تو سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔
غالب کو اگر دوسری زندگی مل جائے تو ہمارا اس سے یہی تقاضا ہو گا کہ کسی طرح اپنے مذکورہ مشکل اشعار کو آسانی کا جامہ پہنا دے‘ہم اس سے اور کچھ نہیں چاہتے‘ حتیٰ کہ تازہ کلام بھی نہیں کیونکہ اخیر تو اس نے پہلے ہی کررکھی ہے ۔یا یہ ہے کہ غالب کے لاتعداد پرستاروں میں سے کوئی یہ کام کر ڈالے۔اور ‘ یہ نا ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ ہماری اس دنیا میں بقول شخصے بڑا بڑا پڑا ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کام کے لیے نارنگ صاحب کی مردم شناس نظر ہی کسی پر پڑ جائے کہ یہ غالب فہمی ہی میں اضافے کا باعث ہو گا‘ اور میرا مقصد یہ بھی نہیں کہ غالب کی اس طرح کی مزید شرحیں نہ لکھی جائیں‘کیونکہ غالب کا زیر بحث رہنا غالب کی بھی مجبوری ہے اور اہل غالب کی بھی‘ اور اس کام کو جاری ہی رہنا ہے۔(ختم)
آج کا مقطع
آنکھوں میں سرخیوں کا سفر رک گیا‘ ظفر
دیکھا تو ہم اسیر تھے نیلے گلاب کے