تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     05-06-2014

’’ لواحقین ‘‘ کیا سوچتے ہوں گے؟

عجیب بات ہے کہ اکبر بگٹی کے حوالے سے قلم کی کمانیں تو برسائی جا تی ہیں لیکن سچ کی طرف کوئی نہیں آ تا۔ دسمبر2009 ء میں این آر او کے خلاف دائر کردہ مختلف درخواستوں کی سما عت کے دوران ایک سابق جسٹس نے فرمایا تھا '' 26 اگست بروز ہفتہ2006ء جب جنرل مشرف کے حکم پر بوڑھے لیڈر اکبر بگٹی کو غار میں بے دردی سے ہلاک کیا گیا تو اس وقت ان کے لواحقین کیا سوچتے ہوں گے؟‘‘ظاہر ہے جن کا کوئی عزیز مارا جاتا ہے انہیں افسوس ہوتا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ جیسے اکبر بگٹی کی ہلاکت پر سابق جسٹس صاحب نے اپنے اور ان کے لواحقین کے جذبات کا سوچا تو با لکل اسی طرح میں نے بھی اس وقت سوچا تھا جب میری فوج کی سپیشل سروسز گروپ کا ایک کرنل اور دومیجر تین جوانوں سمیت 26 اگست 2006 ء کو اس غار کے سامنے بے دردی سے ہلاک کئے گئے جہاں بوڑھالیڈر قیام پذیر تھا اور اس روز شہید کئے جانے والے دو جوان جج صاحب کے ہی آبائی ضلع کی تحصیل گوجرہ کے رہنے والے تھے تو کیا کسی نے اس وقت سوچا تھا کہ ان کے لواحقین کیا سوچتے ہوں گے؟ جب 26 اگست کو پاک فوج کے ہیلی کاپٹر بھمبور کی پہاڑیوں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے میزائلوں سے تباہ ہوگئے تھے تو یہ ہیلی کاپٹر میرے ملک کے عوام اور ان کی اس فوج کا قیمتی اثاثہ تھے جو دشمن کی دھمکیوں کا جواب دینے کے لئے میرے وطن کی سرحدوں کے حفاظت پر ما مور تھے۔ ان ہیلی کاپٹروں میں سوار پاک فوج کے افسر اور جوان بھی کسی کے بچے اور بھائی تھے۔ کیا یہ سوچنے کی کوشش کی گئی کہ ان کے لواحقین نے اس وقت کیا سوچا ہو گا؟۔۔۔ جب ڈیرہ بگٹی سے ایف سی کے کمانڈنٹ کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ کرکے انہیں زخمی کیا گیا ‘تو کیا اس وقت آپ میں سے کسی نے سوچا تھا کہ میری فوج کے میجر جنرل کو یہ زخم کیوں لگائے گئے ہیں؟ یہ زخم اس وجہ سے لگائے گئے تھے کہ ان دہشت گردوں کی فائرنگ سے زخمی ہونے والا میجر جنرل میرے ملک کی سرحدوں اور مفادات کا محافظ اور میری فوج کا انتہائی قیمتی اثاثہ تھا۔۔۔۔ جب26مارچ2006ء کو ایک ہی دن میں ایف سی اور پاک فوج کے150جوانوں اور افسروں کو دہشت گرد گوریلوں نے ہلاک کیا تھا تو اس وقت بھی میں نے سوچا تھا کہ ان 150 جوانوںکو آخر کس جرم میں ہلاک کیا گیا ہے؟ مارے جانے والے 150 جوانوں کے لواحقین جن میں ان کے بوڑھے ماںباپ‘ بیوائیں اور یتیم بچے شامل ہیں‘ان کے جذبات کی پروا کیوں نہ کئی گئی؟۔۔۔کیا افواج پاکستان اور ایف سی کے150 افسروں اور جوانوں کو شہید کرنے والے کو پھولوں کے ہاروں سے لادا جانا چاہئے تھا؟ کیا ان سب کے لواحقین پتھر کے تھے اور کیا ان کی کوئی سوچ نہیں تھی؟
13 اپریل2006ء کو ایوب نیشنل اسٹیڈیم کو ئٹہ میں کرکٹ کھیلتے ہوئے تین نوجوان پنجابی لڑکوں کو دستی بم مار کر ہلاک کیا گیا تھا ۔۔۔بائیس اپریل کو بلوچستان یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر پروفیسر صفدر کیانی کو ان کے گھر گرین ٹائون کے باہر فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا تھا‘ کیا اس وقت کسی نے پروفیسر کیانی کے لواحقین کے بارے میں سوچا تھا؟ 30مئی کو دو سگے بھائی جہانگیر حسین اور علی سہیل اپنے دوستوں جواد علی، امیرحسین، زاہد رستم اور نعمت اﷲ کے ساتھ کرکٹ میچ کھیل کر واپس اپنے گھروں کو آ رہے تھے تو کوئٹہ سمنگلی روڈ پر ان کو کلاشنکوفوں سے ادھیڑ ا گیا اورجب ان چھ لڑکوں کی لاشیں ان کے گھروں میں پہنچیں تو کسی نے ان کے لواحقین کی آسمان کو دہلاتی ہوئی چیخوں کے بارے میں بھی سوچا تھا؟۔۔۔۔ 13 اگست کو پنجاب سے تعلق رکھنے والے راج مزدور عبدالحمید اور محمد علی کوشاکشا روڈ پر قتل کیا گیا۔سینکڑوں میل دور سے مزدوری کے لیے آنے والوں کی لاشیں جب ان کے گھروں میں پہنچی تھیں تو کسی نے ان کے لواحقین کی حالت زار کے بارے میں سوچا تھا؟۔ 14 اگست کو جب پنجاب سے تعلق رکھنے والے بلوچستان کی ٹریفک پولیس کے 15 اہل کاروں کولائن میں کھڑا کر کے موت کے گھاٹ اتارا گیا تو کیا کسی نے ان پندرہ پولیس اہلکاروں کے لواحقین کے گھروں سے اٹھتی ہوئی چنگھاڑوں کے بارے میں بھی سوچا تھا؟۔1930 ء میں مشرقی پنجاب سے ژوب آنے والے پنجابیوں کو جب ان کے گھروں سمیت آگ میں جلایا گیا تب کس نے ان کے لواحقین کے زخموں پر پھاہا رکھا؟
اس وقت لواحقین کیا سوچتے ہوں گے جب11 مئی2006ء کو کوئٹہ میںاے ٹی ایف پولیس کے سات جوانوں کو بم دھماکوں سے ہلاک اور27کو اس حالت میں زخمی کیا گیا کہ ان میں سے بارہ جوان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپاہج ہو کر زندگی کے دن گزار رہے ہیں ۔۔۔۔۔ اب تک فوج‘
پولیس‘ ایف سی اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے 670 2سے زائد مزدوروں اور اساتذہ جو بوڑھے لیڈر کی زندگی میں قتل کئے گئے‘ ان کے لواحقین بارے کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ان کے یتیم ہونے والے بچے کس حال میں ہیں اور وہ کیا سوچتے ہیں؟۔۔۔۔۔ ہمت کرکے کوئی بتائے گا کہ بالاچ مری کو کس نے قتل کیا ہے؟۔۔ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ بالاچ مری کے پاکستان آنے سے پہلے دسمبر2005 ء میں بالاچ مری بوڑھے لیڈر کی پالیسیوں سے اختلاف کرنے لگا تھا؟۔۔۔۔اور جب بالاچ مری اور جنرل مشرف کے درمیان ہونے والی بات چیت کا پاکستان دشمن طاقتوں کو علم ہوا توبالاچ مری کو قتل کرا دیا گیا؟۔۔۔ یہ سب قتل جنوری2005 ء اور26 اگست2006 ء کے درمیانی عرصے میں ہوئے جب بوڑھالیڈر بی ایل اے کی کمان کر رہا تھا۔۔۔۔ بوڑھے لیڈر کی طاقت چونکہ آج بھی اس لئے زیا دہ ہے کہ اس کے'' مبینہ قتل‘‘سے پہلے پاکستان میں امریکی وائسرائے رابرٹ اوکلے نے سب کے سامنے کہہ دیا تھا کہ ''امریکہ نواب اکبر بگٹی کی صلاحیتوں کا اس قدر معترف ہے کہ ہم اسے امریکہ کی کسی بڑی ریا ست کا گورنر بنا سکتے ہیں‘‘۔ جناب عالی! یہ ریمارکس پاکستان کے خلاف بلوچوں کو بھڑکانے کیلئے امریکی مدد کا ایک واضح پیغام تھا جو امریکی وائسرے نے پاکستان کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو'' ہیرو‘‘ بنانے کیلئے دیا تھا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved