تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     05-06-2014

خدا اورفزکس

فزکس (طبیعات ) وہ علم ہے ، جو مادے اور توانائی کا اور ان کے باہمی ربط کا مطالعہ کرتاہے۔ہمیں دکھائی دینے والی یہ کائنات مادے اور توانائی کے سوا کچھ نہیں ۔ دوسرے الفاظ میں طبیعات کائنات کا علم ہے ۔ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ، وہ اس دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے ہر ماجرے کے اصول بیان کرتی ہے ۔ مثلاً ہماری گرفت سے پھسل جانے والا موبائل فون فوراً زمین پہ جا گرتاہے ۔ یہ کرّئہ ارض کی کششِ ثقل کے باعث ہے ۔ اس کشش کو فزکس ہی بیان کرتی ہے ۔ اسی بنیاد پر وہ سیاروں او رستاروں کی حرکات بیان کرتی ہے ۔
گزشتہ ہفتے میں نے اپنی اس کہکشاں ''ملکی وے ‘‘ (Milky Way)کے مرکز میں ایک بہت بڑے بلیک ہول کے بارے میں لکھا تھا۔ وہاں بارہ سورجوں کی ایک نادیدہ جسم کے گرد گردش کے علاوہ بہت سے عجیب مناظر دکھائی دیتے ہیں ۔ سائنسدان جب یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اس معمّے کو حل کرنے کے قریب ہیں تو ان کے الفاظ کچھ یوں ہوتے ہیں "We are closer than ever to being able to image this region (of this black hole) and probe the physics at work there"۔ ''ہم اس بلیک ہول کی تصویر بنانے کے بہت قریب ہیں اور جلد ہی ہم یہ معلوم کر لیں گے کہ وہاں کس قسم کی فزکس بروئے کار ہے ‘‘
قارئین 1905ء میں البرٹ آئن سٹائن کا مشہورِ زمانہ اصول منظرِ عام پر آیا تھا۔ سائنسی زبان میں اسے یوں لکھا جاتا ہے ۔'' e=mc2‘‘ عام الفاظ میں یہ کہ مادہ توانائی اور توانائی مادے کا روپ دھار سکتی ہے ۔ اسی بنیاد پر بعد میں ایٹم بم بنایا گیا۔ ایک جوہری بم جب پھٹتا ہے تو مادے کی معمولی سی مقدار توانائی میں تبدیل ہوتی اور شہروں کو کھنڈر بنا ڈالتی ہے ۔ آغازِ کائنات میں اس کے بالکل برعکس ہو اتھا۔ تب ایک دھماکے سے توانائی کی عظیم الشان مقدار نے جنم لیا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ توانائی پھر مادے میں تبدیل ہوئی ۔ 
آغازِ کائنات کی توانائی روشنی کی رفتار سے ہمیشہ بہتی رہتی‘ اگر خدائی ذرّہ وجود میں نہ آتا۔ اسی نے توانائی کو مادے میں تبدیل کیا اورخود فنا ہو گیا۔ 2013ء میں تجربہ گاہ میں ابتدائے کائنات کا ماحول ایک محدود سے پیمانے پر پیدا کیا گیا اور پہلی بار خدائی ذرے کا وجود ثابت ہوا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس ذرّے کا تصور اس کی دریافت سے نصف صدی پہلے ہی طبیعات دان پیٹر ہگزنے پیش کر دیا تھا اور اس کے عوض انہیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ خدائی ذرے کی دریافت کا سہرا بھی فزکس ہی کے سر ہے ۔ 
بہرحال، کائنات کے بڑے راز طبیعات ہم پہ آشکار کرتی ہے۔ہماری کہکشاں کے مرکز میں موجود عظیم بلیک ہول کی موجودگی بھی اسی نے یہ کہتے ہوئے بتائی کہ 12سورج خوامخواہ ایک مرکز کے گرد گھوم نہیں سکتے ۔ اس کے لیے وہاں کئی ملین سورجوں کے برابر ایک جسم درکار ہے ۔ یہ اور بات کہ ٹیکنالوجی میں بتدریج بہتری سے آپ اس پراسرار ہستی کو دیکھنے کے قابل ہوجائیں ۔ 
اب آجائیے روحانی پہلو پر۔ اپنے استاد پروفیسر احمد رفیق اختر سے میں نے یہ پوچھا کہ قرآن کی اس آیت کا مطلب کیا ہے ''اللہ نور السمٰوٰت والارض ‘‘اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ۔ کہا : آغازِ کائنات میں ہر طرف توانائی تھی ۔ پھر وہ مادے میں بدلی۔سوال یہ ہے کہ یہ توانائی کہاں سے آئی ؟ کہا : رسول اللہﷺسے پوچھا گیا:کیا آپؐ نے اللہ کو دیکھا ہے ؟ فرمایا: ہاں ! وہ نور ہی نور ہے۔پروفیسر صاحب کہنے لگے کہ نور کی بہت سی قسمیں ہیں ۔ مثلاً بجلی لیکن جب آپ یہ سنتے ہیں کہ اللہ کے ایک لاکھ ساٹھ ہزار نور ہیں تو عقل جواب دے جاتی ہے ۔ 
میری سوئی وہیں اٹکی تھی ۔ ''اللہ نور السمٰوٰت والارض‘‘تو کائنات میں جو کچھ ہم دیکھتے ہیں ، کیا بجائے خود وہ خدا ہی کی ذات ہے ؟ کہا : نہیں ، وہ اس کے وجود کا بہت معمولی سا جزو ہے۔ اور یہ کہا کہ جب ہم یہ سنتے ہیں کہ ایک روز خدا کائناتوں کو اس طرح سمیٹ لے گا، جیسے بکھرے ہوئے کاغذوں کو ''یوم نطوی السماء کطی السجل للکتب‘‘تو ایسا لگتاہے کہ سارے مادے کو ایک بار پھر وہ توانائی میں بدل دے گا۔ پھریہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اپنے ایک ہی ہاتھ میں وہ یہ سب سمیٹ لے ۔ دوسرے تصورات اس کے مقابل خام لگتے ہیں ۔ مثلاً یہ کہ حیرت انگیز رفتار سے پھیلتی ہوئی کائنات ایک دن سکڑنے لگے گی ۔ یوں بھی یہ کئی ٹریلین سال بعد کی باتیں ہیں ۔ 
میرے چھوٹے سے دماغ کے لیے یہ ایک بہت بڑا جھٹکا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فزکس وجودِ خدا کے مطالعے کا نام ہے۔ ہزار ہا سائنسدان یہ جانے بغیر ہی دن رات اس میں مگن رہتے ہیں۔ پروفیسر صاحب نے اختتامِ کائنات پہ مزید بتایا‘ قرآ ن میں لکھا ہے : اس دن پہاڑ ایسے اڑیں گے ، جیسے روئی کے گالے‘‘۔ وتکون الجبال کالعہن المنفوش۔یہ کیسے ہوگا؟ زمین 1,80,000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کے گرد گھوم رہی ہے ۔ اسی رفتار سے اس کے اوپر رکھے پہاڑ بھی حرکت میں ہیں ۔ اب اگر ایک حادثہ زمین کو ایک لمحے کے لیے ساکت ہونے پر مجبور کرے تو پہاڑ ٹوٹ کر ہوا میں اڑ جائیں گے ۔ یہ ایسے ہی ہے ، جیسے ایک تیز رفتار گاڑی کو ایک دم رکنا پڑے تو وہ ڈرائیور ، جس نے سیٹ بیلٹ نہ باندھی ہو، اُچھل کے سٹیئرنگ سے جا ٹکراتا ہے ۔ 
اس بات کو کئی دن گزر چکے اور میں اب تک حیران پریشان بیٹھا ہوں ۔ قارئین کیا آپ میں سے کوئی مجھے بتا سکتاہے کہ''اللہ نور السمٰوٰت و الارض ‘‘کا مطلب کیا ہے ؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved