تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     06-06-2014

الطاف بھائی کیا کریں؟

ایم کیو ایم کے لئے یہ واقعہ اچانک نہیں ہوا۔ کم و بیش 2 سال سے مختلف الزامات کے تحت الطاف حسین بھائی کے خلاف تفتیش چل رہی تھی۔ اس کی ابتداالطاف بھائی کے پرانے سیاسی رفیق کار ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل سے ہوئی تھی۔ اس سلسلے میں بہت سی افواہیں پھیلیں‘ لیکن لندن پولیس کی طرف سے ابھی تک اس کیس میں الطاف حسین کے خلاف کسی قسم کی کارروائی شروع نہیں کی گئی۔ کہا ضرور جا رہا ہے کہ یہ کیس بھی اختتام کو پہنچنے والا ہے‘ مگر وہ کیس جو عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات پر شروع ہوا تھا‘ ابھی زیرتفتیش ہے اور جو کچھ اتفاقیہ شروع ہوا‘ اس میں الطاف بھائی کی گرفتاری بھی ہو گئی۔ درحقیقت عمران فاروق قتل کیس کی انکوائری کے دوران‘ لندن پولیس کو اچانک بعض سراغ مل گئے‘ جن پر مزید تحقیق کے بعد ‘منی لانڈرنگ کی تفصیل سامنے آتی گئی۔ جب پولیس کو یقین ہو گیا کہ اب عملی کارروائی کی جا سکتی ہے ‘ تو الطاف بھائی کے گھر اور پارٹی ہیڈکوارٹر پر چھاپے مار کے‘ قریباً 4لاکھ پونڈ برآمد کر لئے گئے۔ دونوں میں سے ایک جگہ ایک لاکھ 40ہزار پونڈ برآمد ہوئے اور دوسری جگہ سے قریباً 2لاکھ 40 ہزار پونڈ۔ یہ بڑی رقم نہیں‘ لیکن برطانوی قوانین کے مطابق کوئی بھی رقم جو باقاعدہ اداشدہ ٹیکس ریکارڈ کے تحت جائز قرار نہ دی جا سکتی ہو‘ اسے مشکوک قرار دے کر انکوائری شروع ہو جاتی ہے۔ یہی الطاف بھائی کے ساتھ ہوا۔ برآمدگی کے فوراً بعد منی لانڈرنگ کا کیس بنا کر تفتیش شروع کر دی گئی۔ خبر ہے کہ پولیس اب منی لانڈرنگ کے قوانین کی خلاف ورزی کے متعدد ثبوت حاصل کر کے‘ براہ راست سوال جواب کی تیاری کر چکی ہے۔ اسی کے تحت گزشتہ روز الطاف بھائی کو علی الصباح ان کے گھر سے حراست میں لے کر تفتیشی مرکز لے جایا گیا۔
ظاہر ہے اس پر سنسنی تو پھیلنا تھی۔ دنیا بھر کے اخباروں میں گرفتاری کے حوالے سے نمایاں خبریں شائع ہوئیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے سرگرم کارکن حسب معمول اشتعال میں آ کر متحرک ہو گئے‘ لیکن انہیں فوراً ہی قیادت کی طرف سے ہدایت ملی کہ وہ پرسکون رہیں۔ شہر میں کسی قسم کی بدامنی پیدا نہ کریں۔ پارٹی نے دھرنے دے کر خاموش احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ اس کی پابندی کریں۔ اس ہدایت کے تحت اندھادھند فائرنگ اور آتش زدگی کا سلسلہ فوراً بند کر دیا گیا اور مرکزی دھرنے کے علاوہ مختلف کالونیوں میں بھی دھرنے دیئے گئے۔ شہر کے پرامن باشندے ایک بار پھر ایمرجنسی کی صورتحال سے دوچار ہو گئے۔ جس کو جیسے اطلاع ملی‘ وہ فوراً کام کاج چھوڑ کر‘ گھر پہنچنے کے لئے بھاگ کھڑا ہوا۔ اس بھگدڑ میں تمام بڑی شاہراہوں پر ٹریفک بند ہو گئی اور لوگ کئی کئی گھنٹے کے بعد منزل تک پہنچ پائے۔ خواتین کو خاص طور سے مشکلات پیش آئیں۔ جس کسی کو پک کرنے کے لئے بھائی یا شوہر کوآنا تھا‘ وہ ٹریفک جام میں پھنس گیا اور اکیلی خواتین خوف کے عالم میں انتظار کرتی رہیں۔ انہیں کئی کئی گھنٹے کھڑے رہ کر گھر جانے کا موقع مل سکا۔ ایسا نہیں کہ ایم کیو ایم صورتحال کے لئے تیار نہیں تھی۔ 
الطاف بھائی نے سال کے شروع میں ہی اشارے دینا شروع کر دیئے تھے کہ انہیں مشکل حالات سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔ بعد میں انہوں نے بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو کسی بھی غیرمتوقع حادثے کے لئے تیار رہنے کی ہدایت کر دی تھی۔ پھر بھی گرفتاری کی خبر سب کے لئے اچانک تھی اور ایم کیو ایم کے کارکنوں کے فوری ردعمل کے خوف سے سارا شہر خوف وہراس میں مبتلا ہو گیا۔ تمام مارکیٹیں اور بازار بند ہو گئے۔ صرف پٹھانوں کی آبادیاں ایسی تھیں‘ جہاں کام کاج معمول کے مطابق جاری رہا۔ 
جس باپ نے اپنی اولاد کو سخت ڈسپلن اور کنٹرول میں رکھا ہو‘ وہ جوان بھی ہو جائے‘ تو باپ کے اچانک غیر فعال ہونے پر بدحواسی کا شکار ہو جاتی ہے۔ ہرچند الطاف بھائی نے اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کو ہوشیار رہنے کی ہدایت کر رکھی تھی‘ لیکن سچی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کی مقامی قیادت بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی۔ کافی دیر سکتے کے عالم میں رہنے کے بعد ایم کیو ایم کے لیڈر ایک پریس کانفرنس میں نمودار ہوئے اور انہوں نے کارکنوں سے پرسکون رہنے کی درخواست کی۔ پارٹی کے انٹرنیشنل سیکرٹریٹ میں سینئر ڈپٹی کنونیئر ندیم نصرت نے فوراً رابطے کی ذمہ داریاں سنبھال لیں‘ مگر دفتر کے ماحول کو سوگوار ہونے سے نہ روک پائے۔ صحافی معلومات حاصل کرنے ہیڈکوارٹر میں گئے‘ تو ندیم نصرت نے ان کا خیرمقدم کیا۔ الطاف بھائی کی 12سالہ بیٹی افضاکے بارے میں سوال کرنے پر پتہ چلا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ مل ہل میں ہی رہتی ہیں۔ ان کی پرورش کی ذمہ داری الطاف حسین کے خالہ زاد بھائی کے سپرد ہے۔ صبح کے وقت افضا اپنے والد کو ملنے کے لئے بے چین تھی‘ لیکن سکاٹ لینڈ یارڈ نے اسے ملنے کی اجازت نہیں دی۔ بعد میں وکلا کی کوششوں سے ملاقات کی اجازت مل گئی۔ نصرت ندیم نے صحافیوں کو الطاف بھائی کی بیماریوں کی تفصیل بتانا شروع کی‘ تو اچھی خاصی فہرست بن گئی‘ جس پر صحافیوں نے پوچھا کہ اگر الطاف بھائی کی صحت اتنی خراب ہے‘ تو پارٹی کا کیا بنے گا؟ اس پر واسع جلیل نے جواب دیا ''پارٹی پر برا وقت پہلے بھی آ چکا ہے۔ الطاف بھائی اسی کو بھانپتے ہوئے ہماری تربیت کر گئے ہیں۔‘‘ ندیم نصرت نے کہا کہ ''بھائی گزشتہ ہفتے سے ہی شدید بیمار تھے۔ شوگر کی وجہ سے‘ ان کے پیروں میں زخم پڑ چکے ہیں اور ان کا حال ہی میں آپریشن ہوا ہے۔ وہ ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہیں اور باتیں کرتے کرتے سو جاتے ہیں۔‘‘ ان کی گرفتاری پر دیگر سیاسی جماعتوں نے فوری ردعمل کا اظہار کیا۔ عمران خان سے لے کر وزیراعظم نوازشریف تک سب نے پارٹی کارکنوں 
سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے‘ انہیں صبر کی تلقین کی۔ ہمدردیوں کے یہ اظہار‘ الطاف بھائی کے لئے کم اور کارکنوں کے لئے زیادہ تھے۔ ابھی تک تو کراچی میں امن ہے‘ لیکن یہ اتنا غیریقینی ہے کہ شہری بری طرح سے پریشان ہیں۔ ہر کسی کو ایک ہی دھڑکا لگا ہے کہ اگر خدانخواستہ الطاف بھائی کو قید ہو گئی اور وہ پارٹی کو قیادت فراہم نہ کر سکے‘ تو پھر کیا ہو گا؟ یہ ایسا سوال ہے‘ جس کا جواب پارٹی کی مقامی قیادت کو بھی معلوم نہیں۔ ہر سیاسی پارٹی میں دھڑے بندیاں ہوتی ہیں۔ بعض میں تو مرکزی قیادت کے دعویدار بھی سامنے آ جاتے ہیں۔ ایم کیو ایم کا تنظیمی ڈھانچہ مختلف ہے۔ پارٹی کے لیڈر اور کارکن ہر موضوع پر بات کر سکتے ہیں‘ لیکن الطاف حسین کے بارے میں اشارے سے بھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اختلاف کرنے والوں کے لئے پارٹی کا نعرہ سب کو اچھی طرح یاد ہے‘ جو یہ تھا ''قائد کا جو غدار ہے‘ وہ موت کا حق دار ہے۔‘‘ ایسے حالات میں کس کی جرأت ہے کہ وہ قائد کی جانشینی کے بارے میں تصور بھی کر سکے۔اسی کڑے ڈسپلن کی وجہ سے پارٹی میں کوئی بھی لیڈر ‘ الطاف بھائی کے سامنے ایسی پوزیشن حاصل نہیں کر سکا‘ جس کے بارے میں کہا جا سکے کہ الطاف حسین کے بعد اس کا نمبر آتا ہے۔ ایم کیو ایم اس معاملے میں زیادہ مشہور ہو گئی‘ ورنہ حالت دوسری پارٹیوں میں بھی یہی ہے۔ کوئی بھی لیڈر اپنے نمبر دو کو نمایاں نہیں ہونے دیتا۔ نوازشریف کو جب سعودی عرب جانا پڑا‘ تو انہوں نے اپنی پارٹی کا قائمقام صدر جاوید ہاشمی کو بنا دیا‘ جو اس وقت جیل میں پڑے تھے اور قیادت کے لئے دستیاب نہیں ہو سکتے تھے۔ پیپلزپارٹی میں نسلی قیادت چلتی ہے۔ بھٹو صاحب کا کوئی بیٹا زندہ نہ رہا‘ تو قیادت ان کی صاحبزادی نے سنبھالی‘ جو خوش قسمتی سے بہترین قائدانہ صلاحیتوں کی مالک ثابت ہوئیں‘ لیکن مستقبل کی قیادت کے لئے ان کے بیٹے بلاول بھٹو کو تیار کر دیا گیا ۔ پاکستان کی بیشتر پارٹیوں کا یہی حال ہے۔ جب کسی نہ کسی وجہ سے مرکزی لیڈر موجود نہیں رہتا‘ تو جانشینی متنازعہ ہو جاتی ہے۔ مختلف گروپوں میں لمبی چوڑی رسہ کشی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تھوڑی سی رسہ کشی کے بعد کسی کو لیڈرچن لیا جاتا ہے‘ مگر عموماًہر لیڈراپنے ساتھیوں کا علیحدہ گروپ بنا کرقیادت کا اعلان کر دیتا ہے اور پارٹی الف‘ ب‘ ج‘ د کی تقسیم میں گم ہو کر رہ جاتی ہے۔ دعا کرنا چاہیے کہ ایم کیو ایم ایسے انجام سے محفوظ رہے۔ عام سیاسی پارٹیوں کی ٹوٹ پھوٹ سے کسی کو فرق نہیں پڑتا‘ لیکن ایم کیو ایم میں گروہ بندی ہو گئی‘ تو اس کی قیمت کراچی ہی نہیں پورے پاکستان کے شہریوں کو چکانا پڑے گی۔ الطاف حسین پر واجب ہے کہ وہ اپنی عدم دستیابی کی صورت میں خود ہی ایک تنظیمی ڈھانچہ تیار کر کے‘ کارکنوں کوہدایت کر دیں کہ ان کی عدم دستیابی کی صورت میں فلاں شخص یا فلاں کمیٹی پارٹی کی قیادت سنبھالے گی۔یہ دنیا میں پہلی بار نہیں ہو گا۔ ہر بڑے سیاستدان کو کسی نہ کسی دن قیادت کی ذمہ داریوں سے الگ ہونا پڑتا ہے۔ بہتر یہی ہوتا ہے کہ بڑی پارٹی کے لیڈر اپنی عدم دستیابی کی صورت میں متبادل قیادت کا انتخاب خود کر دیں اور صورتحال بدلنے پر دوبارہ اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved