پیارے کرکٹرو!
آپ کو مبارک ہو کہ آپ کے مطالبے سے پہلے ہی ہم نے آپ کے لیے اس صفحے کا اجرا کردیا ہے کیونکہ ہم آپ کے جذبات کو خود ہی اچھی طرح سے سمجھتے ہیں جو آئے دن پی سی بی کے چیئرمینوں کی اتھل پتھل سے کافی برانگیختہ ہو چکے ہیں۔ بچپن اور نوجوانی میں ہم خود بھی کرکٹ کھیلتے رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے کبھی اچھے نتائج نہیں دے سکے کیونکہ ہمیں میاں صاحب کی طرح اپنی مرضی کا امپائر رکھنے کی سہولت کبھی حاصل نہ رہی تھی؛ تاہم ہمیں اسے جاری نہ رکھنے کا بے حد افسوس ہے ورنہ آج ہم بھی دوسرے کرکٹر حضرات کی طرح کروڑوں میں کھیل رہے ہوتے اور آئے دن ٹریفک وارڈنوں کے کھُنے بھی سینک رہے ہوتے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ ساری نعمتیں ہماری قسمت میں نہیں تھیں اس لیے ہم اپنی بھی پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے اس صفحے کا سہارا لے رہے ہیں۔ براہ کرم واپسی ڈاک سے ہمیں مطلع کریں کہ یہ صفحہ آپ کو کیسا لگا اور اسے کیونکر بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
سبق آموز واقعات
٭... ایک لڑکی نے دفتر سے یہ کہہ کر ایک دن کی چھٹی لی کہ اسے اپنے چچا کے جنازے میں شریک ہونا ہے۔ دوپہر کے بعد اس دفتر کا منیجر شہر میں کھیلے جانے والے کرکٹ میچ کو دیکھنے جب گیا تو اس نے دیکھا کہ وہ لڑکی وہاں آرام سے بیٹھی میچ دیکھ رہی ہے۔
''آپ نے تو اپنے چچا کے جنازے میں شرکت کے لیے رخصت لی تھی‘‘ اس نے لڑکی سے پوچھا۔
''جی‘ میں نے غلط نہیں کہا تھا‘ میرے وہی چچا آج کے میچ کے امپائر ہیں اور انہیں یہ تک معلوم نہیں کہ کرکٹ میں رنز بنائے جاتے ہیں یا گول کیے جاتے ہیں لہٰذا کھلاڑی یا تماشائی کسی وقت بھی مشتعل ہو کر ان کا کام تمام کر سکتے ہیں!‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔
٭... شہر میں ایک مشہور و معروف کرکٹ ٹیم آئی ہوئی تھی جو مقامی ٹیم کے ساتھ دوستانہ میچ کھیل رہی تھی۔ مقامی ٹیم کے بائولر نے کچھ اس انداز سے گیند پھینکا کہ بیٹسمین کی کِلی ہی اُڑا دی۔
''نوبال‘‘ امپائر چیخا‘ اور بولا ''بیوقوف‘ یہ سارے لوگ ان کی بیٹنگ دیکھنے کے لیے آئے ہوئے ہیں‘ تمہاری بائولنگ نہیں‘‘۔
٭... ایک میچ کے دوران بیٹسمین نے اتنے زور کا چھکا مارا کہ گیند سٹیڈیم سے باہر جا کر ایک گاڑی میں لگی اور کئی گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں۔ اتنے میں اس نے دیکھا کہ ایک تھانیدار بھاگا بھاگا اس کی طرف آ رہا ہے۔ اس نے پریشان ہو کر اس سے پوچھا:
''کیا آپ مجھے گرفتار کرنے آئے ہیں؟‘‘
''جی نہیں‘ میں تو اپنے بیٹے کے لیے آپ سے آٹوگراف لینا چاہتا ہوں‘‘ تھانیدار بولا۔
٭... ایک بیٹسمین بہت جلد آئوٹ ہو جاتا تھا اور یہ بات سب کو معلوم تھی۔ ایک بار جب وہ بیٹنگ کر رہا تھا تو اس کی منگیتر نے فون کر کے پوچھا:
''وہ ابھی آئوٹ تو نہیں ہوئے؟‘‘
''ابھی تو کھیل رہے ہیں‘‘ جواب ملا۔ ''لیکن آپ تھوڑی دیر ہولڈ کریں!‘‘
٭... ملک کے سب سے تیز رفتار سپرنٹر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ایک کرکٹ کھیلتے ہوئے شاٹ کھیل کر رنز بنانے کے لیے دوڑا تو سیدھا گھر پہنچ کر دم لیا!
٭... پتہ چلا ہے کہ شاہد آفریدی کو بائولنگ کرانے کے لیے دو بال دیے جاتے ہیں‘ ایک بائولنگ کرنے کے لیے اور ایک کھانے کے لیے!
٭... سچن ٹنڈولکر نے جس میچ میں بھی سنچری بنائی‘ بھارت وہ میچ ہار گیا۔ اب ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے وصیت کی ہے کہ اگر میچ جیتنا ہو تو سنچری ہرگز نہ بنائی جائے۔
٭... پاکستان میں کرکٹ کی بہبود اور بہتری کے لیے یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ ایک دن کے لیے پی سی بی کا چیئرمین نجم سیٹھی کو لگایا جائے اور ایک دن کے لیے ذکا اشرف کو۔
٭... ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق کرکٹر عمر اکمل کو ہدایت کی گئی ہے کہ جس دن وہ کسی ٹریفک وارڈن کو پھینٹی لگائیں تو دس دن تک آرام کریں تاکہ ان کی فٹنس برقرار رہے۔
پسندیدہ اشعار
زور لگایا تھا کچھ اتنا
ہاتھ سے بلّا چھوٹ گیا
.........
بیوی نے جو گھر سے نکالا
یوں رن آئوٹ ہو گئے ہم
.........
اُس سے پوچھو کہ جو بھی پوچھنا ہے
گیند اب دوسرے کی کورٹ میں ہے
.........
یہ کھیل بھی ٹائی ہو گیا ہے
نہ کوئی جیتا نہ کوئی ہارا
.........
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
ایڈیٹر کی ڈاک
مکرمی! جب سے ملکِ عزیز میں عالمی کرکٹ ٹیموں نے اپنے دورے بند کیے ہیں‘ ہم کرکٹرز کی حالت روز بروز پتلی سے پتلی ہوتی چلی جا رہی ہے اور نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ہے جب کہ ہمارا زیادہ تر دارومدار میچ فکسنگ کی آمدنی پر ہی تھا جو کہ وہ سلسلہ بھی عرصۂ دراز سے بند ہے کیونکہ محمد عامر وغیرہ نے پکڑے جا کر یہ سکوپ ہی ختم کردیا ہے کہ ان کم بختوں کو اگر اتنی مہارت حاصل نہیں تھی تو اس میں حصہ ہی کیوں لیا تھا۔ چنانچہ اس سلسلے میں تجویز پیش ہے کہ حکومت اندر خانے میچ فکسنگ کی اجازت دے دے جبکہ حکومت کے تقریباً سارے کام پہلے ہی اندرخانے ہو رہے ہیں۔ مزید تجویز ہے کہ اس آمدنی میں سے حکومت اپنا حصہ بھی مقرر کر لے تاکہ اس کی گرتی ہوئی معیشت کو بھی کچھ سنبھالا مل سکے۔
(ایک کرکٹر)
آج کا مطلع
کس جنگل میں کھوئے
اوئے اوئے اوئے