شعبان المعظم اسلام کی رو سے ایک مقدّس اور متبرک مہینہ ہے۔ رسول اللہﷺ کی دعا بھی ہے:''اے اللہ! رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہمیں برکت عطا فرما اور ہمیں (سلامتی کے ساتھ ) رمضان تک پہنچا‘‘(شعب الایمان:3815)۔ آپ ﷺ نے فرمایا:''رمضان، اللہ کا مہینہ ہے، شعبان،میرا مہینہ ہے، شعبان پاک کرنے والا ہے اور رمضان گناہوں کو معاف کرنے والا ہے(یعنی اس کا سبب ہے)‘‘(کنزالعمال:6466)۔ یہی سبب ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :'' میں نے (کبھی ) نہیں دیکھا کہ سوائے رمضان کے رسول اللہ ﷺ نے کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں اور سب سے زیادہ نفلی روزے آپ شعبان میں رکھتے تھے ‘‘(سنن ابی داؤد:300)۔
شعبان المعظم کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے احادیث روایت کی گئی ہیں ، جن میں سے چند روایات درج ذیل ہیں:
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے عرض کی:''میں نے مشاہد ہ کیا ہے کہ آپ ؐ(رمضان المبارک کے علاوہ) کسی بھی دوسرے مہینے کے مقابلے میں شعبان میں زیادہ روزے رکھتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا: یہ رجب اور رمضان کے درمیان ایسا(عظیم المرتبت) مہینہ ہے کہ لوگ اس سے غافل ہیں ، یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں (بندوں کے) اَعمال ربُّ العٰلمین کے حضور پیش کئے جاتے ہیں ، تو مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرے اعمالِ(صالحہ) اس حال میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں کہ میں روزے دار ہوں‘‘(سنن نسائی:2356)۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ''جب رجب کا مہینہ شروع ہوتاتو رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرماتے:اے اللہ! ہم پر رجب اور شعبان میں برکت نازل فرما اورہمیں(پوری سعادت حاصل کرنے کے لئے) ماہِ رمضان تک پہنچا‘‘(شعب الایمان :3815)۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبیِ کریم ﷺ پورے ماہِ شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے، میں نے عرض کی : یارسول اللہ! کیا نفلی روزے کے لئے آپ ؐکو شعبان تمام مہینوں سے زیادہ پسند ہے؟، آپ ﷺ نے فرمایا: اﷲتعالیٰ اس سال وفات پانے والے تمام افراد کا نام لکھ دیتاہے، تو میں اس بات کو پسند کرتاہوں کہ میری وفات (اگر مقدر ہے تو) روزے کی حالت میں نصیب ہو‘‘(مسند ابی یعلیٰ:4890)۔
شعبان کی پندرہویں شب:
بعض تفاسیر وروایات میں اسے ''لَیْلَۃُ الْبَرَائَ ۃْ ‘‘، ''لَیْلَۃُ الرَّحْمَۃ‘‘ ،''لَیْلَۃُ الْمُبَارَکَۃ‘‘اور ''‘لَیْلَۃُ الصََّکّ‘‘بھی کہا گیا ہے ۔قرآن ِمجیدمیں بھی ''لَیْلَۃُ الْمُبَارَکَۃ‘‘کاتذکرہ آیاہے: ''حٰمٓ، واضح کتاب کی قسم ، بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں نازل فرمایا ، بے شک ہم عذاب سے ڈرانے والے ہیں ، اس رات میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتاہے ، (یہ) ہمارے پاس سے حکم ہوتاہے ، بے شک ہم ہی (رسولوں) کو بھیجنے والے ہیں ، آپ کے رب کی طرف سے رحمت ، بے شک وہ بہت سننے والا اور خوب جاننے والا ہے‘‘(الدخان:1تا6)۔
جمہور مفسرین کے نزدیک ان آیات میں ''برکت والی رات‘‘ سے مراد ''لیلۃُ القدر‘‘ ہے ، تاہم عکرمہ ؒاور بعض مفسرین نے اس سے ''شبِ برات‘‘ مراد لی ہے، لیکن پہلا قول ہی راجح ہے ۔ جن مفسرین نے دوسرے قول کو اختیار کیا ہے، انہوں نے دونوں اقوال میں تطبیق کی کوشش کی ہے۔ شعبان المعظم کی پندرہویں شب یعنی شب برات کے بارے میں متعدد احادیث آئی ہیں ، جن میں سے چند احادیثِ مبارَکہ درج ذیل ہیں:
ابو موسیٰ اشعری ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بے شک اللہ نصف شعبان کی شب توجہ فرماتاہے اور مشرک اور کینہ پرور کے علاوہ (مغفرت کے طلب گار) اپنے سب بندوں کو بخش دیتاہے‘‘(سنن ابن ماجہ:1390)۔شعب الایمان کی حدیث میں ہے :''اس شب مومن کی مغفرت ہوتی ہے، کافر کو مہلت دی جاتی ہے اور کینہ پرور کو چھوڑ دیا جاتاہے‘‘۔
حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جب شعبان کی درمیانی شب(یعنی پندرہویں شب) آئے، تورات کو نوافل پڑھو اور دن میں روزہ رکھو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ (اس رات کو) غروبِ آفتاب ہی سے آسمانِ دنیا کی طرف نزولِ اِجلال فرماتاہے اور ارشاد فرماتاہے:کیا ہے کوئی مغفرت کا طلب گار کہ میں اسے بخش دوں ، ہے کوئی رزق (کی کشادگی) کا طلب گار کہ میں اسے رزقِ (واسع) عطا کروں، ہے کوئی مبتلائے مصیبت کہ میں اسے عافیت عطا کروں،( مختلف انسانی حاجات کا ذکر کرکے فرماتاہے)ہے کوئی ایسا (جو مجھ سے ان نعمتوں کی عطا یا ان مصائب سے عافیت کا طلب گارہو) ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ندائے رحمت طلوعِ فجر تک جاری رہتی ہے‘‘(سنن ابن ماجہ:1388)۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: '' میں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کو بستر پر موجود نہ پایا تو میں ان کی تلاش میں نکل گئی،پس اچانک میں نے انہیں جنت البقیع میں پایا۔ آپ اپنا سر مبارَک آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے تھے،(حضور ﷺ نے حضرت عائشہ ؓکی آمد کو محسوس کیاتو) فرمایا: اے عائشہؓ! کیاتمہیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر زیادتی کریں گے؟، وہ بیان کرتی ہیں : میں نے عرض کی: ایسا خیال تو میرے دل میں نہیںآیا، لیکن میں نے گمان کیا کہ آپ کسی زوجۂ (مُطَہَّرہ) کے پاس آئے ہوں گے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ شعبان کی نصف شب کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتاہے اور بنی کلب کی بکریوں کی تعداد سے زیادہ( اپنے بندوں کے گناہوں کو) معاف فرماتاہے‘‘(سنن ابن ماجہ: 1389)۔بنی کلب کی بکریوں اور بعض روایات میں اُن کے بالوں کا حوالہ مغفرتِ باری تعالیٰ کی فراوانی کے لئے ہے، کیونکہ یہ قبیلہ کثیر تعداد میں بکریاں رکھتا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :''جب شعبان کی نصف شب ہوتی تو رسول اللہ ﷺ میرے بستر سے نکل جاتے (طویل حدیث میں انہوں نے فرمایا): میں نے آپ ﷺ کو مصروفِ عبادت پایا، میں نے سنا: آپ یہ دعا فرما رہے تھے:اے اللہ ! میرا قلب اور قالب(یعنی جسم وجاں)تیری بارگاہ میں سجدہ ریز ہیں ، میں تیری (سب) نعمتوں کا اقرار واعتراف کرتاہوں، میں تیری سزا سے تیرے عفووکرم کی پناہ میں آتاہوں، میں تیرے غضب سے تیری رحمت کی پناہ میں آتاہوں ، میں تیری ناراضی سے تیری رضا کی پناہ میں آتاہوں ، میں تیری پکڑ سے تیری عافیت کی پناہ میں آتاہوں، (اے اللہ!) میں تیری حمد وثناکا حق ادا نہیں کرسکا، تیری کامل ثنا وہی ہے جو تو نے خود اپنی ذات کی فرمائی ‘‘(فضائل الاوقات:26، الدرالمنثورالسیوطی،جلد:7،ص:350)۔
رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایاکہ اس رات اللہ تعالیٰ اتنا مائل بہ کرم ہوتاہے کہ قبیلۂ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف فرماتاہے۔ اس عُفوِ عام کے حق دار مندرجہ ذیل خصلتوں کے حامل لوگ نہیں ہوں گے:
''مشرک،قتلِ ناحق کرنے والا،ماں باپ کا نافرمان ،سود خور، عادی شرابی، زناکا عادی، رشتے داروں سے قطعِ تعلق کرنے والا، چغل خوراور کینہ پرور‘‘۔(یہ ہم نے متعدد روایات میں بیان کئے گئے کبائر کو یک جا بیان کیا ہے)، یعنی ان کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والے شریعت میں بیان کی ہوئی توبہ کی قبولیت کی شرائط کی تکمیل وتعمیل کے بغیر اﷲتعالیٰ کی مغفرت اور معافی کے حق دار نہیں بن سکتے۔
الغرض شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت کے بارے میں حضرت علی، حضرت عائشہ، حضرت معاذبن جبل، حضرت ابوہریرہ،حضرت عوف بن مالک ، حضرت ابو موسیٰ اشعری ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص، حضرت ابو ثعلبہ اور حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہم سے روایات بیان کی گئی ہیں۔یہ روایات اگر چہ سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں، لیکن اِس پر علماء کا اجماع ہے کہ ''فضائلِ اعمال‘‘ میں ضعیف روایات معتبر ہوتی ہیں ۔
مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:''رہا شب برأت کی فضیلت کا معاملہ، سو ،وہ ایک مستقل معاملہ ہے، جو بعض روایاتِ حدیث میں منقول ہے، مگر وہ اکثر ضعیف ہیں، اسی لئے قاضی ابوبکر بن عربی نے اس رات کی کسی فضیلت سے انکار کیا ہے۔ لیکن شب برا ت کی فضیلت کی روایات اگر چہ بااعتبارسند کے ضعیف ہیں ، لیکن تعدّدِ طُرق اور تعَدُّد ِ روایات سے اُن کو ایک طرح کی قوت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس لئے بہت سے مشائخ نے اِن کو قبول کیا ہے، کیونکہ فضائلِ اعمال میں ضعیف روایات پر عمل کرنے کی بھی گنجائش ہے‘‘(معارف القرآن ، جلد:7،ص:758)۔