آپ کوڑا جلا رہے ہیں یا کوڑا آپ کو جلا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب آپ کو تلاش کرنا ہے۔ میں صرف یہ عرض کروں گا کہ کوڑا آپ کے ساتھ کیا کچھ کر رہا ہے؟ جلتا ہوا کوڑا‘ سب سے پہلے آپ کے پھیپھڑوں پر حملہ آور ہوتا ہے۔ جو آلودگی وہ پیدا کرتا ہے‘ سانس کے ساتھ آپ کے اندر جاتی ہے اور آہستہ آہستہ سانس کا نظام دشمنی پر اتر آتا ہے۔ آلودگی یہیں پر نہیں رکتی۔ یہ آپ سے فارغ ہو کر‘ آسمانوں کی طرف رخ کرتی اور اوزون پر مسلسل ضربیں لگاتی ہے۔ اوزون آپ کی دفاعی چادر (Layer) ہے‘ جو آسمان سے اترنے والی بلائوں کو روکنے کا کام کرتی ہے۔ ان بلائوں میں سب سے خطرناک سورج کی روشنی ہے۔ جس وقت یہ سورج سے نکلتی ہے‘ اس میں لامحدود درجہ حرارت کے علاوہ بھی بہت سی زہریلی چیزیں ہوتی ہیں‘ جو اگر براہ راست زمین تک پہنچنے لگیں‘ تو آپ کی جلد ذرا سی دیر میں آپ کا ساتھ چھوڑ سکتی ہے۔ اوزون‘ سورج کی روشنی کے تمام مضر اثرات روک کر‘ آپ کو صاف ستھری دھوپ پہنچاتی ہے۔ اگر کہیں سے اوزون میں چھید پڑ جائے اور وہاں سے سورج کی روشنی اصل حالت میں آپ تک پہنچنے لگے‘ تو زندگی کا پورا تام جھام ہی لپیٹا جائے گا۔ سورج کی روشنی نکلتے وقت تابکاری سے بھری ہوتی ہے۔ خلائوں سے گزرتے ہوئے اس تابکاری کی شدت میں کمی ہونے لگتی ہے اور جب دھوپ زمین سے‘ بیس تیس کلومیٹر کے فاصلے پر آتی ہے‘ تو اوزون اسے صاف شفاف بنا دیتی ہے۔ اوزون کی تہہ زیادہ بڑی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر زمینی آلودگی مسلسل ایک ہی جگہ پر ضرب لگاتی رہے تو اس میں شگاف پڑ جاتا ہے۔ ہم نے ماحولیات سے بے اعتنائی برتنے کا سلسلہ‘ اسی طرح اور اسی رفتار سے جاری رکھا‘ تو وہ دن دور نہیں‘ جب پاکستان میں ہر طرف پیاس اُگے گی۔ وائس آف امریکہ کی ویب سائٹ پر وسیم صدیقی کے مضمون کا عنوان ہے ''مون سون روٹھ گیا‘‘۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہماری فضائوں میں سے کھسکتا ہوا 100 میل دور جا چکا ہے۔
مون سون کا موسم ہماری مشرقی سرحدوں یعنی بھارت کی طرف سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور شمال مغرب کی طرف بڑھتا ہے‘ تو ملک کے بالائی علاقوں پر بارشیں برسنے لگتی ہیں۔ مون سون کے 100 کلومیٹر مغرب میں‘ شفٹ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے بالائی علاقوں میں بارشیں گھٹتی جائیں گی۔ لاہور‘ اسلام آباد‘ اپر سندھ‘ نارتھ ویسٹ بلوچستان اور جعفر آباد وغیرہ کے علاقوں میں بارشیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ بارشوں میں مزید کمی کا فوری نتیجہ یہ ہو گاکہ مون سون جن علاقوں سے کنی کترا کر نکلتا گیا‘ وہاں درجہ حرارت تیزی کے ساتھ بڑھنے لگے گا۔ بدلتے موسم کی پہلی نشانیاں ظاہر ہوتی جا رہی ہیں۔ 4 جون کو سندھ کے شہر لاڑکانہ میں درجہ حرارت غیرمعمولی طور پر زیادہ یعنی 50 سینٹی گریڈ تھا۔ موئنجودڑو میں کل یعنی جمعرات کے دن درجہ حرارت 49 ڈگری تھا۔ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں ان دنوں جھلسا دینے والی گرمی پڑ رہی ہے۔ گزشتہ روز دنیا میں ماحولیات کا دن منایا گیا۔ پاکستان میں مون سون جولائی سے شروع ہو کر ستمبر تک ختم ہو جاتا ہے‘ لیکن گزشتہ سال جولائی اگست کے مہینوں میں‘ مون سون نے ادھر کا رخ نہیں کیا اور یہ دونوں مہینے خشک گزرے۔ گزشتہ سال 2 سے 6 ستمبر تک شکار پور‘ موئنجودڑو‘ جیکب آباد اور بلوچستان میں جعفر آباد‘ جھل مگسی اور نصیر آباد میں تیز بارشیں ہوئیں۔ یہ بھی موسم میں غیرمعمولی تبدیلیوں کی علامت ہیں‘ کیونکہ اس عرصے میں وہاں بارشیں ہوتی ہی نہیں، اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان میں بارشوں کا نظام بگڑ رہا ہے۔ جہاں بارشیں پہلے بہت کم ہوا کرتی تھیں یا بالکل نہیں ہوتی تھیں‘ اب وہاں بار بار ہو رہی ہیں اور جہاں بھرپور بارشیں ہوا کرتی تھیں‘ وہاں خشکی چھائی ہے۔ ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال
سے حکومتی اور عوامی بے خبری‘ موت کی خاموش دستک کے مترادف ہے۔ ماحولیات سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں پاکستان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہاں کی حکومت کا شمار‘ دنیا کی غیرسنجیدہ حکومتوں میں ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے‘ جہاں ماحولیات کی وزارت ہی موجود نہیں۔ گزشتہ بجٹ میں ماحولیات کے لئے محض 54 ملین روپے مخصوص کئے گئے تھے۔ موجودہ بجٹ میں یہ رقم کم کر کے 20 ملین روپے کر دی گئی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اب ہم کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بنا رہے ہیں۔ ان بجلی گھروں سے نکلتا ہوا‘ دھواں‘ پاکستان میں ''دھوئیں کی موجودہ پیداوار‘‘ سے کئی گنا زیادہ ہو گا۔ ہمارے لئے تو آج کی آلودگی میں جینا مشکل ہو رہا ہے، جب کوئلے سے بجلی پیدا ہونے لگے گی‘ تو ہمارا کیا ہو گا؟ یہاں تو پہلے سے موجود آلودگی پر کوئی کنٹرول نہیں۔کنٹرول کہاں سے ہو گا؟ ماحولیات کی وزارت ہی نہیں۔ چند محکمے ضرور موجود ہیں؛ جیسے کلائمیٹ چینج ڈویژن‘ صوبائی انوائرمینٹل ایجنسیز‘ اوشنو گرافی‘ وائلڈ لائف‘ محکمہ جنگلات‘ زوالوجیکل سروے اور سپارکو کا آپس میں کوئی رابطہ ہی نہیں اور نہ ہی ان اداروں کے درمیان کسی قسم کی معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں عوام کو ماحولیاتی نقصان کا ذرہ برابر اندازہ نہیں ہوتا۔ اس عدم آگاہی کے نتیجے میں بے تحاشا کوڑا جلایا جاتا ہے۔ شاید ہی کسی کو علم ہو کہ کوڑے یا کچرے کو آگ لگانا قانوناً جرم ہے۔ لوگ بڑے آرام سے اور دھڑلے سے‘ کوڑے یا کچرے کے ڈھیر میں آگ لگا دیتے ہیں۔ یہ آگ گلیوں‘ سڑکوں‘ کھیتوں‘ میدانوں میں جہاں‘ جس کا دل چاہتا ہے‘ بھڑکا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی ‘صنعتی ملکوں سے بھی
زیادہ ہوتی ہے۔ یاد رہے‘ سب سے زیادہ آلودگی پیدا کرنے کی جگہ کارخانے ہوتے ہیں، لیکن ماحولیات پر توجہ دینے والی قوموں نے صنعتی آلودگیوں پر بڑی حد تک قابو پا لیا ہے۔ ہمارے ملک میں بڑی صنعتیں جو کہ زیادہ آلودگیاں پیدا کرتی ہیں‘ بہت کم تعداد میں ہیں۔ صرف ایک سٹیل مل ہے‘ لیکن ہمارے چھوٹے چھوٹے کارخانے بے تحاشا آلودگی پیدا کرتے ہیں۔ سیمنٹ فیکٹریوں کے گردونواح میں رہنے والوں کی زندگی اجیرن ہوتی جا رہی ہے۔ پتھروں کا غبار اور ایندھن کا دھواں‘ دونوں ماحول کو جس قدر خراب کرتے ہیں‘ اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ جس کوڑے کرکٹ کو ہم جلاتے ہیں‘ اس میں پولی تھین‘ پلاسٹک‘ کاغذ اور بے شمار ایسی چیزیں ہوتی ہیں‘ جن کا زہریلا دھواں جمع ہو کر‘ ماحول کو خراب کرتا ہے۔ عام لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ ان کے گردوپیش کی ہوائوں میں کتنے زہریلے اثرات لہراتے پھر رہے ہیں۔ آپ کی سانسیں‘ آپ کے لئے زہر بنتی جا رہی ہیں۔ آسمانوں کی طرف بڑھتی آلودگی‘ اوزون سے ٹکرا کر ادھر ادھر رخ کرتی رہتی ہے اور جہاں اوزون کی تہہ پتلی ہو‘ وہاں اسے توڑ کر اوپر کو نکلتی ہے۔ اسی کو شگاف کہا جاتا ہے۔ نہ معلوم ہم نے کتنی آلودگی آسمانوں کی طرف پھینک کر‘ زمین کی طرف تپش کی راہیں کھول دی ہیں۔ ہم جہاں بھی دھواں اڑاتے ہیں‘ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ گاڑیوں‘ موٹر سائیکلوں اور رکشوں سے نکلنے والا دھواں نہ صرف جلد اور پھیپھڑوں کی بیماریاں پیدا کرتا ہے بلکہ ہماری دھوپ کی حدت میں اضافہ کر کے‘ ہمیں گرمی میں جھلسانے لگتا ہے۔ جیسے جیسے ہم اپنی فضائوں کو آلودگی سے بھرتے جا رہے ہیں‘ ہماری زندگی کو برقرار رکھنے والے وسائل میں کمی آتی جا رہی ہے۔ سورج کی بڑھتی ہوئی حدت سے گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ سیلابوں اور قدرتی آفات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بارشوں کا نظام بگڑ رہا ہے۔ سمندری‘ فضائی اور زمینی آلودگی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ماحولیات کو بچانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر عوام کو احتیاط کرنے کا شعور نہ دیا گیا‘ تو ہم اپنی ہی سانسوں سے زندگی کو تازگی سے محروم کرتے رہیں گے۔ ہمارے ہسپتال جو صحت یابی کے لئے بنائے جاتے ہیں‘ انہی کے اندر کچرا جلا کر نئی نئی بیماریوں کو جنم دیا جا رہا ہے۔ ہمیں کچھ اندازہ نہیں کہ ہمارے ہسپتالوں میں بچے زیادہ پیدا ہوتے ہیں یا بیماریاں؟ ہم دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لئے زور لگا رہے ہیں۔ اپنے وسائل پھونک رہے ہیں۔ ایسی جنگوں کے لئے تیار ہوتے رہتے ہیں‘ جن سے ہمیں سوائے نقصان کے کبھی کچھ حاصل نہیں ہوا اور ایٹمی طاقت بن جانے کے بعد تو اب جنگ بھی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے اور اس دشمن کی ہمیں کچھ خبر ہی نہیں‘ جو ہمارے موسموں کو اتھل پتھل کر کے‘ ہماری ہریالیاں اور رس نچوڑتا چلا جا رہا ہے۔ اگر ہماری غفلت کا یہی عالم رہا‘ تو ایک دن ہمارے کھیتوں میں بھوک اور دریائوں میں ریت رہ جائے گی۔