ہر سال کی طرح اس سال بھی جون کا آغاز بجٹ پیش کرنے سے ہوا۔ وزیر خزانہ نے بڑی عرق ریزی سے تیار کیا ہوا بجٹ‘بڑی جانفشانی کے ساتھ‘پڑھا۔ بجٹ تقریر دوگھنٹے مسلسل جاری رہی۔ اربوں کھربوں ‘مالی خسارہ‘ افراط زر‘ جی ڈی پی کی شرح اور اسی طرح کی دوسری اصطلاحات سے مزین بجٹ تقریر سیدھے سادھے عام لوگوں کے سروں کے اوپر سے گزر گئی۔چاچا رمضان بھی انہیں عام لوگوں میں شامل ہے۔وہ نہ تو پڑھا لکھا ہے‘ نہ ہی ایسی باتیں اس کی سمجھ میں آتیں ہیں لیکن سیاسی معاملات کو جاننے کا بہت شوق رکھتا ہے۔خود پھل فروخت کرتا ہے۔سبزی منڈی سے کم تر معیارکے پھل سستے داموں خرید کر اپنی ریڑھی پر لادتا ہے اور شام کو خالی ریڑھی لے کر گھر کی راہ لیتا ہے۔اس کے ساتھ بچے ہیں۔بڑے بیٹے فاروق کو اس نے کہہ سن کر شیخ صاحب کی سپیئر پارٹس کی دکان پر رکھوایا ہے۔لڑکا میٹرک پاس ہے اور دکان پر ہر طرح کا کام کرتا ہے۔صبح جا کر جھاڑ پونچھ کرتا ہے۔ضروری صفائی ستھرائی کا کام کرتا ہے۔سیلز مینی بھی کرتا ہے اور شیخ صاحب کے مہمانوں کے لیے چائے پانی بھی بھاگ بھاگ کر لاتا ہے۔صبح 10بجے سے رات 10بجے تک 12گھنٹے کی ڈیوٹی دیتا ہے۔اور ماہانہ اسے صرف چھ ہزار روپے ملتے ہیں۔وہ بھی ہر مہینے کی 10تاریخ کو پہلے دو ہزار پھر دو ہزار اور چند دنوں کے بعد مزید دو ہزار۔یوں اس نے اپنی تنخواہ کے چھ ہزار کبھی اکٹھے نہیں دیکھے۔پچھلے سال ڈینگی بخار نے آ لیا اور فاروق بیچارہ 15دن بستر پر پڑا رہا۔شیخ صاحب نے 15دن کے پیسے کاٹ لیے۔اس کے ہاتھ صرف تین ہزار آئے ۔فاروق نوجوان ہے۔اس کے بہت سے خواب ہیں۔وہ پرائیویٹ انٹرمیڈیٹ کا امتحان دینا چاہتا ہے‘ لیکن بہت ساری دوسری ناتمام خواہشوں کی طرح یہ خواہش بھی ابھی پوری نہیں ہو سکی۔گھر کے اخراجات ہی اتنے زیادہ ہیں کہ وہ چند سو بھی اپنی کتابوں کے لیے پس انداز نہیں کر سکتا۔ اور پھر اکیڈمی کے اخراجات تو ہزاروں میں ہیں‘اس تنخواہ میں انہیں پورا کرنا ممکن ہی نہیں۔
چاچا رمضان کی بیٹی نورین نے مگر اپنی لگن اور ہمت سے پچھلے برس بی اے پاس کر لیا اور اب گھر کی بگڑتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے وہ محلے ہی کے ایک سکول میں پڑھا رہی ہے۔پورا مہینہ بچوں کے ساتھ سر کھپانے کے بعد اسے صرف تین ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔ جی ہاں صرف تین ہزار۔ اگر کبھی بیمار ہو جانے پر چھٹی کرنی پڑ جائے تو اس کی تنخواہ سے ایک دن کی چھٹی کے 500روپے کاٹ لیے جاتے ہیں۔نورین مگر پھر بھی یہی نوکری کرنے پر مجبور ہے کیونکہ اس کے پاس دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں۔وہ اپنے دل میں اس استحصال پر کڑھتی ضرور ہے مگر جب وہ اپنے جیسی دوسری مجبور ٹیچرز کو دیکھتی ہے تو خاموش ہو جاتی ہے۔سکول کی تمام دوسری استانیاں کم و بیش اتنی ہی تنخواہ پر کام کر رہی ہیںجبکہ سکول کا مالک فیسوں کی مد میں ہر ماہ بچوں کے والدین سے اچھا خاصا روپیہ بٹورتا ہے۔ انتہائی محدود وسائل میں‘اپنی معاشی حالت بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے‘چاچا رمضان کے دونوں بچے فاروق اور نورین‘ایسے لاکھوں لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں‘ پوری پابندی‘اور تندہی کے ساتھ اپنی نوکری کرنے کے باوجود جنہیں ان کے کام کا جائز معاوضہ نہیں دیا جاتا اور ان کو ملازم رکھنے والے آجر‘ان کی مجبوریوں کی وجہ سے ان کا مالی استحصال کرتے ہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جو گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں تیزی سے سفید پوشی سے غربت کی طرف لڑھک رہا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ سے ایک روز پہلے حکومت کے جاری کردہ اکنامک سروے کے تشویش ناک اعداد و شمار پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ملک کی آدھی آبادی غربت کی سطح پر زندگی گزار رہی ہے۔گزشتہ برس تک خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگ 40فیصد تھے اور اب یہ تعداد بڑھ کر 50فیصد ہو چکی ہے۔فاروق اور نورین جیسے لاکھوں لوگ ہر بجٹ
کے آنے پر مزید مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں‘کیونکہ جی ایس ٹی بڑھنے سے مہنگائی ہر بار کچھ زیادہ ہو جاتی ہے۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں چند فیصد ہی سہی‘ اضافہ تو ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ہر حکومت اپنی غریب پروری اور مزدور دوستی ظاہر کرنے کے لیے ہر بجٹ میں مزدور کی کم از کم تنخواہ بھی مقرر کرتی ہے۔اس بار وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ مزدور کی کم از کم تنخواہ 10ہزار سے بڑھا کر 12ہزار کر دی گئی ہے۔ اعلان کی حد تک یہ بات خوش آئند ہے۔ کاغذات اور فائلوں میں بھی حکومتی کارکردگی کو بہتر دکھانے کے لیے ایسے خوش کن اعلانات لکھے جاتے ہیں لیکن حقیقت کیا ہے؟ فاروق اور نورین جیسے بے شمار لوگ اپنی زندگیاں روزگار کے ایسے جہنم میں جلا رہے ہیں جہاں ایسے خوش کن اعلانات کی کوئی نوید نہیں پہنچتی۔ سو ایسے لوگ حکومت کی غریب پروری سے محفوظ رہتے ہیں ۔ہاں ہر بجٹ کے آنے کے بعد مہنگائی کا طوفان ضرور ان کے گھروں کے بجٹ کو اتھل پتھل کرکے ان کی زندگیاں اجیرن کردیتا ہے۔ملک کی چند سو فیکٹریوں میں کام کرنے والے چند لاکھ مزدوروں کی تنخواہ اس اعلان کے مطابق بڑھ سکے گی مگر ان لاکھوں مزدوروں کا پُرسان حال کون ہے‘جو چھوٹے چھوٹے دفتروں ‘دکانوں ‘سٹوروں ‘ ہوٹلوں ‘ورکشاپوں ‘چھوٹے کارخانوں اور دوسرے چھوٹے
موٹے اداروں میں بارہ بارہ 12,12گھنٹے کام کرتے ہیں۔ قدم قدم پر ان کا استحصال ہوتا ہے‘کیا کوئی لیبر لا ان کے لیے بھی ہے؟ بجٹ میں ایسے لوگوں کے لیے کون سی خوشخبری ہے؟کیا یہ لوگ پاکستان کے شہری نہیں؟اگر ریاست ماں کی طرح ہے تو ماں کا سلوک ان کے ساتھ منصفانہ کیوں نہیں؟
سچی بات یہ ہے کہ اس بجٹ میں بھی غریب کے لیے کوئی خوشخبری نہیں۔ یہ بجٹ طبقہ اشرافیہ اور امرا کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے اگر وزیر خزانہ بجٹ سے ایک روز پہلے یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کی آدھی آبادی غربت کا شکار ہے تو اس بجٹ میں اس آدھی آبادی کے لیے کون سی نوید ہے؟وہ لوگ‘ جو پانی پینے کے لیے روز کنواں کھودتے ہیں‘انہیں اس بات سے غرض نہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر 13ارب‘63کروڑ ڈالر ہو گئے ہیں‘ حکومت نے شاندار سڑکوں‘فلائی اوورز‘میٹرو ٹرینوں ‘میٹرو بسوں جیسے دوسرے ترقیاتی منصوبوں کے لیے آٹھ کھرب‘چھ ارب روپے بجٹ میں مختص کیے ہیں اور یہ کہ حکومت کے عزائم کتنے بلند ہیں۔ معاشی اہداف پورا کرنے کے لیے ڈار صاحب اپنی ٹیم کے ساتھ کس تندہی سے کام کر رہے ہیں۔ ایک عام شخص جو چند ہزار کما کر اپنے گھر کاخرچ چلاتا ہے‘ جس کی آمدنی بجٹ میں ہونے والے کسی اعلان سے نہیں بڑھی بلکہ ہر سال اس میں کمی آتی چلی جاتی ہے کیونکہ مہنگائی ہر سال کیا ہر چھ ماہ کے بعد بڑھ جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے حکومت کی معاشی اہداف پورے ہونے کی خوش خبریاں ہوں یا ڈالر سستا ہونے کی نوید‘ سب کچھ بے معنی ہے!