کیا آئندہ الیکشن میں عمران خان وزیراعظم بن سکیں گے؟ انحصار خود ان پر ہے۔ مشکل وہی ہے‘ خوشامدیوں کے جلو میں لیڈر کی ذہنی اور فکری تنہائی۔ لاہور کا شاعر پھر یاد آیا ؎
بینر پہ لکھے حرفِ خوشامد پہ جو خوش ہے
دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر بھی دیکھے
سیالکوٹ میں تحریکِ انصاف کا جلسہ کیسا رہا؟ رانا ثناء اللہ تو یہی بتائیں گے کہ ہمیشہ کی طرح مکمل طور پر ناکام ہو گیا۔ زمانہ بدل گیا مگر سیاستدان ماضی میں زندہ ہیں۔ وہی چال بے ڈھنگی سی جو پہلے تھی‘ سو اب بھی ہے۔
پنجاب کی رائے عامہ نے کپتان کا نقطۂ نظر تسلیم کر لیا ہے۔ الیکشن 2013ء دھاندلی کا شکار ہوئے۔ چودھری نثار علی خان ان دنوں پارٹی کی اندرونی کشمکش کا شکار ہیں۔ سب سے بڑا سبب مبینہ طور پر یہ ہے کہ تحریک انصاف کو اسلام آباد میں ریلی کی اجازت دی۔ سیاسی موسم بدلنے لگا؛ پارٹی کے اندر وہ تنقید کا ہدف بنے۔ ان کے پرانے دوست خواجہ آصف اب ان کے خلاف صف آرا ہیں۔ زندگی میں بدترین دشمن آپ کو دوستوں میں سے ملا کرتے ہیں۔ شاعر فردوسی کا قول یہ ہے: دوست اگر مخمل ہے تو تمہارا بُنا ہوا‘ کانٹا ہے تو تمہارا بویا ہوا۔ الیکشن کے فوراً بعد کپتان نے قومی اسمبلی میں جب یہ مطالبہ کیا کہ چار انتخابی حلقوں میں انگوٹھوں کے نشان جانچ لیے جائیں تو چودھری صاحب نے اتفاق کیا بلکہ کہا کہ چار نہیں‘ حکومت چالیس انتخابی حلقوں کا جائزہ لینے پر آمادہ ہے۔ ایوان میں کیے گئے اس وعدے کا کیا ہوا؟ نادرا کے چیئرمین طارق ملک نے آگے بڑھ کر فرض ادا کرنے کی پیشکش کی تو ان کی شامت آ گئی۔ نصف شب کو انہیں برطرف کردیا گیا۔
عدالت نے بحال کردیا۔ ایک تنہا آدمی مگر کب تک حکومت سے لڑتا اور وہ بھی شریف خاندان کی حکومت‘ جو خواجہ آصف‘ پرویز رشید اور رانا ثناء اللہ خاں ایسے مردانِ کار پہ مشتمل ہے۔ مستعفی ہو کر ایک دن وہ گھر چلے گئے اور اب ایک ایسے شخص کی تلاش جاری ہے‘ جو پیمرا کے پرویز راٹھور کی طرح‘ پہلے سے لکھے گئے فیصلوں پر دستخط فرما سکے۔
دھاندلی کے مبینہ ذمہ دار‘ نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی کی سرپرستی کا سلسلہ جاری رہا۔ کرکٹ بورڈ کی سربراہی انہیں سونپ دی گئی۔ اس پر حیرت کا اظہار کیا گیا کہ جو شخص کرکٹ کے بارے میں کچھ جانتا ہی نہیں‘ اربوں روپے بجٹ رکھنے والے ادارے کا سربراہ کیسے ہو گیا؟ سوال اس وقت اٹھانا چاہیے تھا‘ جب بارہ کروڑ آبادی کا صوبہ آنجناب کے سپرد ہوا۔ کارِ سرکار کا کوئی تجربہ عالی جناب کو نہیں تھا اور یہ سبھی کو معلوم تھا کہ شریف خاندان سے ان کے ذاتی مراسم ہیں۔ اتنے کہ ان کی اہلیہ محترمہ مریم نواز کی اتالیق ہیں۔ اس کالم میں یہ اطلاع بھی دی گئی تھی کہ موصوف واشنگٹن میں دس کروڑ روپے کی جائیداد کے مالک ہیں۔ ایف بی آر کی طرف سے اس وقت انہیں اس پر ایک کروڑ روپے ٹیکس جمع کرانے کا حکم دیاگیا تھا، جب ساز باز سے الیکشن کمیشن تشکیل دینے والی حکمران پارٹیوں نے موصوف کو وزیراعلیٰ بنانے پر اتفاق کیا تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ انہیں قانون کے حوالے کیا جاتا مگر وہ نوازے گئے۔ یہ الگ
بات کہ فیصلہ کن گھڑی میں تحریک انصاف نے بھی ہرگز کوئی مزاحمت نہ کی۔ اس کی آنکھ تب کھلی جب چڑیاں کھیت چگ گئی تھیں۔ عجیب پارٹی ہے ،ہمیشہ خسارے کا سودا کرتی ہے۔ ہمیشہ بعداز مرگ واویلا کرتی ہے۔
دوسرا مسئلہ ایک چینل پر کپتان کا موقف ہے۔ اس پرزیادہ بحث کی شاید ضرورت نہیں۔ قوم کے اجتماعی ضمیر نے اس ادارے کو مسترد کردیا ہے۔ پیمرا کا فیصلہ اس کا اپنا ہے۔ بات اگر عدالت میں پہنچی تو قانون اپنا راستہ بنانے کی کوشش کرے گا۔ قوم مگر فیصلہ کرہی چکی اور اسے بدلا نہیں جا سکتا۔ اس ملک میں اب وہ دن کبھی نہ آئے گا جب اس مشکوک میڈیا گروپ کو اجارہ داری حاصل ہو۔ ایک عشرے تک خفیہ سمجھوتے کرنے یا خوف زدہ ہونے والی سیاسی پارٹیوں کے مقابل '' کوس لمن الملک‘‘ اس نے بجایا ہے مگر اب اس کا عہد تمام ہوا۔ وہ لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، جن کا خیال یہ ہے کہ گزرا ہوا وقت لوٹ کر آسکتا ہے۔ ایسا فقط شاعری میں ہوتا ہے۔
مہرباں ہو کے بلالو مجھے چاہو جس دم
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
ایک ماہ سے زیادہ ہوتا ہے۔ ایک ممتاز برطانوی سفارت کار نے ایک اعلیٰ عسکری شخصیت سے ملاقات کی۔ مشکوک میڈیا گروپ کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ رنج اور دکھ کے ساتھ فوجی افسر نے کہا : آپ کو اندازہ ہے کہ تعلیمی مہم کے لیے آپ کی طرف سے فراہم کیے گئے سرمائے نے اس قوم کے ساتھ کیا کیا؟ پاکستان کا مطلب کیا ...لاالہ الا اللہ ،جس نعرے پر ملک تخلیق ہوا تھا، اس کا مذاق اڑایا گیا۔ آپ نے نگرانی فرمائی ہوتی۔ سفارت کار سر پکڑ کربیٹھ گیا اور اس نے کہا "How stupid we are" (ہم کیسے احمق ہیں)۔
گزرے ہوئے دن فقط خواب و خیال میں لوٹ کر آیا کرتے ہیں ؎
کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں
جا میکدے سے میری جوانی اٹھا کے لا
وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا۔ خلیل خان جب فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ وہ شاعر زیادہ صاحب ادراک تھا، جس نے یہ کہا تھا ؎
کہتے ہیں تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
اچھا میرا خواب جوانی تھوڑا سا دہرائے تو
یہ قصہ تمام ہوا اور اس کا تتمہ لکھ دیاجائے گا۔ شریف خاندان اس گروپ کی حمایت پہ مصر رہا تو قیمت چکائے گا۔ اللہ کی کائنات میں ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے اور ہر چیز علت و معلول کے رشتے میں بندھی ہے۔ سوال دوسرا ہے کہ کیا نون لیگ کے بعد تحریک انصاف اس ملک کا مستقبل ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مقبول تو عمران خان مئی 2013ء میں بھی بہت تھے۔ ناکام وہ اس لیے ہوئے کہ بدترین امیدواروں کو ٹکٹ دیے اور وہ بھی غیر معمولی تاخیر سے۔ تقریباً ایک پورا برس پارٹی الیکشن میں ضائع کردیا۔ جماعت پر بعض بدترین عہدیدار مسلط ہیں۔ انہی کا کارنامہ تھا کہ ٹکٹ بیچے گئے اور 80 پولنگ سٹیشنوں پر پولنگ ایجنٹ ہی مقرر نہ ہوئے۔ سمندر پار پاکستانی تحریک انصاف کو ووٹ دینے کے لیے بے تاب تھے۔ عدالتِ عظمیٰ سے فیصلہ صادر ہونے کے باوجود پارٹی انہیں یہ حق نہ دلا سکی۔ عمران خان کو معلوم تھا کہ بعض عرب ممالک اور انکل سام نون لیگ کی حمایت کا فیصلہ کر چکے۔ وہ تدارک نہ کر سکے۔ کرتے تو کیونکر؟ نالائق لوگ ان کے اردگرد جمع تھے اور اب بھی ہیں۔
ایک بڑی پیشرفت ہو چکی۔ پنجاب اور پختون خوا میں پیپلز پارٹی کا صفایا ہو چکا۔ شہری سندھ اور بلوچستان میں بھی۔ تحریک انصاف کو درپیش اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ جرائم پیشہ لوگوں سے نجات پا کر خود کو منظم کرے۔ وہی اب نون لیگ کی مدّمقابل ہے اور نون لیگ بہت تیزی سے نامقبول ہو رہی ہے۔ اس کی بربادی کے لیے خود اس کے قائدین کافی ہیں۔ کیا آئندہ الیکشن میں عمران خان وزیراعظم بن سکیں گے؟ انحصار خود ان پر ہے۔ مشکل وہی ہے‘ خوشامدیوں کے جلو میں لیڈر کی ذہنی اور فکری تنہائی۔ لاہور کا شاعر پھر یاد آیا ؎
بینر پہ لکھے حرفِ خوشامد پہ جو خوش ہے
دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر بھی دیکھے