شیر اور میمنا
ایک شیر ندی پر پانی پی رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ تھوڑے فاصلے پر ایک موٹا تازہ میمنا بھی پانی پی رہا ہے۔ جسے دیکھ کر شیر کے منہ میں پانی بھر آیا حالانکہ وہ پہلے ہی پانی پانی ہو رہا تھا۔ شیر نے ناشتہ بھی نہیں کر رکھا تھا اس لیے میمنے کو دیکھ کر بھوک سے اس کے پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے۔ اس نے چوہوں کی طرف کوئی توجہ نہ دی کیونکہ بھوک سے اس کا بُرا حال ہو رہا تھا۔وہ میمنے کو کھانے کے لیے مختلف ترکیبیں اور بہانے سوچنے لگا۔چونکہ بھوک کے عالم میں دماغ زیادہ کام کرتا ہے اس لیے اسے فوراً ایک ترکیب سوجھی اور وہ میمنے کی طرف منہ کر کے بولا:
''تم پانی گدلا کر رہے ہو‘ دیکھتے نہیں کہ میں بھی پانی پی رہا ہوں؟‘‘
''جناب‘ پانی تو آپ کی طرف سے آ رہا ہے‘ میں اسے کیسے گدلا کر سکتا ہوں‘‘ میمنے نے جواب دیا۔
''اچھا‘ پھر پچھلے سال تم نے مجھے گالی کیوں دی تھی؟‘‘ شیر کچھ دیر سوچ کر بولا۔
''جناب پچھلے سال تو میں ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا‘‘ میمنا بولا۔
''اچھا تو پھر تمہاری ماں نے دی ہوگی‘‘ شیر اطمینان سے بولا کہ اسے کھانے کا یہ ایک اچھا بہانہ ہوگا۔
''البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ کیونکہ وہ جتنی موٹی ہے‘ اتنی ہی بدزبان بھی ہے۔ اول تو وہ بھی پانی پینے کے لیے ادھر آتی ہی ہوگی‘ ورنہ میں اُسے جا کر بلا لاتا ہوں‘‘ میمنے نے جواب دیا۔ موٹی کا لفظ سن کر شیر کے منہ میں مزید پانی بھر آیا جسے وہ غڑاپ سے پی گیا اور میمنے سے بولا کہ جائو بھاگ کر اپنی ماں کو لے آئو۔ سو‘ میمنا چلا گیا اور شیر ابھی تک موٹی بھیڑ کے انتظار میں ندی پر کھڑا ہے۔
پیارے بچو! اس کہانی سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ کئی شیر پرلے درجے کے بیوقوف بھی ہوتے ہیں۔
بھوکی لومڑی اور کوّا
ایک لومڑی کو بھوک نے صبح صبح جو ستایا تو وہ جنگل میں کسی چیز کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی کہ اپنی بھوک مٹا سکے۔ آخر کافی دیر ماری ماری پھرنے کے بعد آخر اسے ٹُنڈ مُنڈ درخت پر ایک کوّا بیٹھا نظر آیا جس کی چونچ میں پنیر کا ایک بڑا سا ٹکڑا تھا جسے دیکھ کر شیر کی طرح اس کے منہ میں بھی بہت سا پانی بھر آیا۔ اس کا پیٹ چونکہ شیر کے پیٹ سے کافی چھوٹا تھا اس لیے اس میں چوہے تو نہیںدوڑے‘ البتہ اب تک وہ بھوک سے نڈھال ہو چکی تھی اور پنیر کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے اس کا چھوٹا سا دماغ ترکیبیں سوچنے میں مصروف تھا۔ آخر ایک ترکیب اس کے دماغ میں بجلی کے کوندے کی طرح آلپکی اور وہ کوّے سے بولی:
''پیارے کوّے! سنا ہے تم گانا بہت اچھا گاتے ہو۔ سارے جنگل میں تمہاری سریلی آواز کی دھوم ہے‘ کیا اپنی بہن کو گانا نہیں سنائو گے؟‘‘ یہ سن کر کوّے نے پنیر کا ٹکڑا چونچ سے نکال کر پنجے میں دبایا اور بولا:
''باجی! کون سا گانا سنو گی۔ پکا راگ یا کوئی فلمی گانا‘‘ جس پر لومڑی سر پیٹ کر رہ گئی۔
پیارے بچو! اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ساری لومڑیاں چالاک نہیں ہوتیں نہ سارے کوّے بیوقوف۔
لومڑی اور سارس
ایک لومڑی اور سارس میں دوستی ہو گئی۔ ایک دن باتوں باتوں میں وہ سارس سے بولی:
''میں سوپ بہت اچھا بناتی ہوں۔ کسی دن میرے گھر آئو تو تمہاری کچھ خاطر و مدارات کروں‘‘ جس پر سارس بہت خوش ہوا اور دوسرے دن اس کے گھر آنے کا وعدہ کر لیا؛ جب وہ وقت مقررہ پر لومڑی کے گھر پہنچا تو لومڑی اندر سے ایک پرات نما برتن میں سوپ ڈال کر لے آئی اور لنچ کا آغاز ہو گیا۔ سارس کی چونچ آخر اس میں سے کتنا سوپ نکال سکتی تھی جبکہ لومڑی نے لبڑ لبڑ کر کے تھوڑی ہی دیر میں سارا سوپ صاف کر دیا اور سارس بیچارہ دل مسوس کر رہ گیا۔ چنانچہ اس نے بھی لومڑی کو اپنے گھر آ کر سوپ کا لطف اٹھانے کی دعوت دے ماری۔ دوسرے دن جب لومڑی اس کے گھر پہنچی تو سارس ایک تنگ منہ والے برتن میں سوپ ڈال کر لے آیا۔ لومڑی بھی یہ چالاکی فوراً سمجھ گئی اور سارس سے بولی:
میں نمک ذرا تیز کھاتی ہوں‘ اگر گھر سے کچھ نمک لا سکو تو لے آئو۔ سارس نے کہا کہ گھر میں تو نمک ختم ہو چکا ہے‘ میں کسی ہمسائے سے مانگ کر لے آتا ہوں؛ تم اتنی دیر میں شروع تو کرو چنانچہ جب وہ اٹھ کر گیا تو لومڑی جلدی سے اٹھی‘ قریب میں ایک کولڈ کارنر شاپ تھی‘ اس میں سے ایک سٹرا لے آئی اور سارس کے آنے تک سارا سوپ پی گئی۔
پیارے بچو! اس کہانی سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر کہانی سے کوئی سبق ہی حاصل ہو۔
خرگوش اور کچھوا
یہ جانور چونکہ جنگل میں رہتے ہیں جس کے قریب ایک جھیل بھی ہوتی ہے لہٰذا ایک خرگوش اور کچھوا باتیں کرتے کرتے آپس میں الجھ پڑے۔ آخر کچھوے نے خرگوش سے کہا کہ تم مجھ سے ریس لگا کر دیکھ لو جس پر خرگوش ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گیا۔ اس پر کچھوا بولا کہ خواہ مخواہ دانت نکالنے کی کیا ضرورت ہے‘ اگر میرا چیلنج قبول ہے تو آ جائو؛ چنانچہ دونوں میں طے ہوا کہ دو میل کے فاصلے پر جو نہر کا پل ہے‘ وہاں جو سب سے پہلے پہنچ جائے گا‘ وہی کامیاب ٹھہرے گا۔ چنانچہ دونوں نے اپنی اپنی رفتار سے بھاگنا شروع کردیا اور خرگوش نے کچھوے کو اتنا پیچھے چھوڑ دیا کہ وہ نظر آنا ہی بند ہو گیا۔ راستے میں ایک پیڑ کی چھائوں میں وہ ذرا سستانے کے لیے لیٹا تو اس کی آنکھ لگ گئی۔ اتنے میں ایک رکشہ جو وہاں سے گزرا تو کچھوے نے اسے ہاتھ دے کر روک لیا اور کہا کہ نہر کے پُل تک اُسے بھی لے چلے۔ چنانچہ خرگوش جب بیدار ہو کر نہر کے پل پر پہنچا تو کچھوا وہاں پہلے ہی موجود تھا۔ خرگوش اس پر اتنا شرمندہ ہوا کہ جنگل میں اس نے گھر سے نکلنا ہی چھوڑ دیا۔
پیارے بچو! اس کہانی سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ کوئی سبق خود بھی حاصل کرنے کی کوشش کر لیا کرو!
فٹا فٹ چلڈرن ٹریننگ سنٹر
بچوں کے جملہ فنون میں مہارت حاصل کرنے کے لیے ہماری خدمات حاصل کریں جہاں ہر طرح کے ہُنر قلیل مدت میں بچوں کو سکھائے جاتے ہیں مثلاً ڈیڈی کی جیب سے پیسے نکالنے اور پکڑے نہ جانے کے طریقے۔ ساتھ پڑھنے والے بچوں کے بستوں سے پنسلیں‘ ربڑ اور دیگر اشیا کیسے صاف کی جا سکتی ہیں۔ نیز دوسرے بچوں کے ساتھ لائے ہوئے کھانے سے کیسے مستفید ہوا جا سکتا ہے یا کسی چھوٹے بچے کی دھلائی کرنے کے بعد مُکر جانے کے لاتعداد طریقے۔ خدمت کا موقعہ دیں۔
آج کا مطلع
کہیں پہ موجود اور کہیں سے ہٹے ہوئے ہیں
زمین پر ہیں مگر زمیں سے ہٹے ہوئے ہیں