تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     09-06-2014

ڈیموکریسی پتل دی نئیں

اعجازالحق پسر جنرل محمد ضیاالحق‘ جنہیں میں اصلی فرزند پاکستان کہا کرتا ہوں‘ گزشتہ دنوں دنیا نیوز کے مقبول پروگرام ''مذاق رات‘‘ میں جلوہ گر ہوئے۔ اس موقع پر انہوں نے ہلکی پھلکی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان دنوں وہ بالی وڈ ہٹ سونگ ''بے بی ڈول‘‘ سن رہے ہیں۔ اعجازالحق کے اس انکشاف پر ڈی جے نے ایک پھیپھڑا پھاڑ لافٹر دیا۔ معاملہ یہیں ختم نہ ہوا۔ پروگرام کے آخر میں ڈی جے نے جب اپنے معزز مہمان سے دریافت کیا کہ وہ کون سا گیت سننا چاہیں گے‘ تو فرزند پاکستان نے بھارتی فلم ''راگنی ایم ایم ایس ٹو‘‘ کے اس گیت کی فرمائش کر دی:
سوہنے سوہنے پٹولے لکھاں
ایہہ تکدیاں رہندیاں اکھاں
میں کیہ دساں اپنی وے
ایہہ چن کردا اے تعریفاں
ہو... میرے حسن دے کونے کونے دی 
ہو... بے بی ڈول میں سونے دی 
ایہہ دُنیا پتل دی 
ہو... بے بی ڈول میں سونے دی 
اس گیت‘ جو گزشتہ کئی دنوں سے ٹاپ ٹین میوزک چارٹ کو لیڈ کر رہا ہے‘ کی ویڈیو اچھی خاصی بولڈ ہے۔ اس کی وجہ سادہ سی ہے کہ ''مُنی بدنام ہوئی‘‘ ''انارکلی ڈسکو چلی‘‘ اور ''جلیبی بائی‘‘ کے بعد ''بے بی ڈول‘‘ کو فلم بینوں کی طرف سے ہیوی مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے نریندر مودی جیسی کامیابی کی ضرورت تھی۔ بالی وڈ سرکٹ کی مناسبت سے ہم نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا تذکرہ کر دیا ورنہ مینڈیٹ کے ساتھ تو میاں نواز شریف صاحب کا حوالہ ہی جچتا ہے۔ مذکورہ فلم کی پروڈیوسر ایکتا کپور نے بے بی ڈول کو سپر ہٹ کرانے کے لیے عام آدمی پارٹی کے بجائے بھارتیہ جنتا پارٹی جیسی جارحانہ پالیسی اپنائی۔ ''ڈرٹی پکچر‘‘ سے مال بنانے والی اس پروڈیوسر نے بے بی ڈول کے لیے مخرب اخلاق فلموں میں کام کرنے والی اداکارہ سنی لیونے کو کاسٹ کیا۔ ظاہر ہے سنی لیونے کے سامنے ملائکہ اروڑا، کترینہ کیف اور ملیکا شیراوت کی وہی حیثیت ہے‘ جو مودی کے سامنے کیجری وال کی ثابت ہوئی ہے۔ بالی وڈ کی بولڈ آئٹم گرلز نے سنی لیونے کے سامنے ایسے ہی سرنڈر کیا جیسے گلیڈی ایٹرز کے سامنے روم کے سرکاری ببر شیر ڈھیر ہو جایا کرتے تھے۔
ہمارے ہاں ایسے محب وطنوں کی بھرمار ہے جو بھارتی آلو کھانے کو بھی غداری کے کھاتے میں درج کرتے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک آلو، ٹماٹر، لہسن، پیاز اور کریلے ہندو اور مسلمان ہو سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب لوک سبھا کی نو منتخب رکن ہیما مالنی، ان کے شوہر دھرمیندر، اداکارہ شبانہ اعظمی اور شتروگھن سنہا نے دہلی میں نواز شریف سے ملاقات کی تو بعض محب وطن اینکر پرسنز نے اپنے اپنے ٹاک شوز میں وزیر اعظم کو ''شوکاز نوٹس‘‘ جاری کر دیے۔ اعتراض کیا گیاکہ کشمیری وزیر اعظم نے نئی دہلی میںکشمیر پر بات کی‘ نہ ہی خشک دریائوں میں پانی چھوڑنے کا مسئلہ اٹھایا‘ بس ہیما مالنی اور شبانہ اعظمی کے ساتھ مشترکہ فلمسازی پر گپ شپ فرمائی اور اسلام آباد لوٹ آئے۔ نائب محرر طبیعت کے ایک اینکر پرسن نے وزیر اعظم کے ایک نامی تنقید نگار، تجزیہ نگار اور سابق حلقہ بگوش کی طرف اس انداز سے گیند پھینکا کہ وہ لازماً نواز شریف پر برسیں گے مگر موصوف چونکہ ایک تعلیم یافتہ شخص ہیں اس لیے انہوں نے کہا کہ بھارتی اداکارائوں سے گپ شپ اعتراض کی بات نہیں‘ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کی جمالیاتی حس اچھی ہے۔ 
بھارتی اداکارائوں کے دشمن اور اپنے محب وطن اینکرز کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارے محب جملہ سبھی جرنیل حکمران فن وثقافت کے دلدادہ تھے اور اس بابت وہ پاکستانی اور بھارتی ثقافت میں تمیز نہیں کیا کرتے تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان ایسے فوجی حکمران تھے‘ جنہوں نے پاکستانی فنکاروں کی صدق دل سے عزت کی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان، استاد سلامت علی خاں استاد‘ نزاکت علی خاں سمیت دیگر کلاسیکی فنکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے دور کے عظیم اساتذہ مبارک علی خان‘ فتح علی خان قوال کو پہلے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی (پرائڈ آف پرفارمنس) سے نوازا تھا۔ یہ استاد نصرت فتح علی خاں کے والد اور تایا جبکہ استاد راحت کے دادا تھے۔ جنرل محمد آغا یحییٰ خان نے اپنے پورے دور میں ''ثقافت‘‘ کی بھرپور سرپرستی فرمائی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے گھر بھارتی اداکار اور سیاستدان شتروگھن سنہا کا آنا جانا تھا۔ وہ آج بھی اپنی منہ بولی بہن زین ضیاالحق کی سالگرہ کے موقع پر پاکستان آتے ہیں۔ جنرل مشرف بھی اپنے آٹھ سالہ دور میں ملکی اورغیرملکی فنکاروں کو داد دیتے رہے۔ ان کے دور میں یہ افواہیں 
بھی پھیلتی رہیں کہ ایک سپیشل طیارہ ان کے فیورٹ ''کلاکار‘‘ کو پاکستان لایا ہے۔ ان خبر وں کا ہمارے پاس چونکہ کوئی ثبوت نہیں‘ اس لیے ہم اس کی صحت پر اصرار کر کے اپنے پانچ مرلہ کالم قطعہ اراضی کا ''لائسنس‘‘ منسوخ نہیں کرانا چاہتے؛ تاہم صرف یہ یاد دلائیں گے کہ جنرل مشرف جب دہلی گئے تھے تو انہوں نے ببانگ دہل اور بالمشافہ بھارتی اداکارہ رانی مکرجی کو بتایا تھا کہ وہ ان کے مداح ہیں۔ جنرل صاحب نے رانی کو پاکستان آنے کی دعوت بھی تھی۔ یہ الگ بات کہ بھارتی رانی بدذوق ثابت ہوئی اور پاکستان نہ آئی لیکن کیا فرق پڑتا ہے ہمارے پاس اپنی رانیاں، اپنی ملکائیں اور اپنے آغے موجود ہیں لہٰذا ہماری 'ہزار داستانیں‘ غیرملکی کرداروں کی محتاج نہیں۔ شکیب جلالی نے کہا تھا: 
ملتی جلتی داستان وجہ غلط فہمی ہوئی
آپ شرمندہ نہ ہوں یہ میرا ہی افسانہ تھا
داستانوں سے نکل کر حال کی بات کریں تو عمران خان اور ان کے ساتھی نئے پاکستان کی نوید سنا رہے ہیں۔ ہمارے یہ محب معمار پہلے دوسرے تعمیراتی منصوبوںکا حصہ ہوا کرتے تھے۔ شعلہ بیاں اور سیاسی پھبتی کے کنگ خان شیخ رشید کبھی نواز شریف کے لائو لشکر کے سپہ سالار ہوا کرتے تھے۔ باغی فیم لیڈر جاوید ہاشمی بھی میاں برادران کے معتمدِ خاص ہوا کرتے تھے۔ جناب شاہ محمود قریشی نے بھی پی ٹی آئی کی ''امیگریشن‘‘ پیپلز پارٹی چھوڑ کر حاصل کی۔ خورشید محمود قصوری جیسے امیر ترین اور جہانگیر ترین کے علاوہ بہت سے دیگر کبھی جنرل پرویز مشرف کے انقلاب کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ ظاہر 
ہے سیاسی پارٹیاں بنانے، چلانے اور پھر انقلاب لانے کے لیے بندے پلوٹو یا مشتری جیسے سیاروں سے تو نہیں آئیں گے۔ سیاست اور اقتدار کے کھیل میں ''یہی چراغ جلیںگے تو روشنی ہو گی‘‘ کا فارمولا رائج ہے، لہٰذا عوام کو اسی تنخواہ پر کام کرنے کے موافق ''چھ ایک‘‘ کے انقلاب سے گزارا کرنا ہوگا۔ ہمارے ہاں عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر اکثر چھ ایک کا مسالہ (وہ تعمیراتی مسالہ جو 6 توڑا ریت اور ایک توڑا سیمنٹ سے تیار کیا جائے) لگایا جاتا ہے اس لیے مدت میعاد کے لحاظ سے اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔ 
عوام بیچارے کیا کریں وہ ہر قسم کی لوڈشیڈنگ کے بعد اپنی خون پسینے کی کمائی سے بل بھی دیتے ہیں اور اس نظام کی تبدیلی کے لیے ووٹ بھی کاسٹ کرتے ہیں لیکن ان کے حالات نہیں بدلتے۔ ہم جتنا وقت ریلیاں، دھرنے اور جلسے جلوس برپا کرنے میں ضائع کرتے ہیں اتنا دل کام میں لگائیں تو ہمارے دن بدل سکتے ہیں۔ اب پھر کہا جا رہا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں ہمارے دو سو ارب ڈالر پڑے ہیں وہ کون لائے گا؟ عمران خان سے پہلے جنرل مشرف اور ان کے دور کی آزاد عدلیہ نے ہماری کھوئی ہوئی مذکورہ ''معاشیانہ قوت‘‘ کو بحال کرنے کے لئے پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کو 5 سال تک رگڑا لگایا جس کا نتیجہ صفر نکلا تھا۔ عوام کا وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ حکمرانوں سے عوام کے حقوق حاصل کرنے کا نیک فریضہ ادا کیا جائے اور ثابت کیا جائے کہ جمہوریت جو دنیا کے بیشتر ممالک میں انسانوں کی زندگیوں کے لیے ایک بہتر نظام ہے وہ ہمارے لیے بھی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہاں اصلی فرزندان پاکستان کو تو سونے کی ''بے بی ڈول‘‘ پسند ہے لیکن وہ دن بھی آئے گا جب ہمارے حکمران اصلی ڈیموکریسی کی راہ پر چلتے ہوئے ثابت کر دیں گے کہ ''ڈیموکریسی پتل دی نئیں‘‘۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved