آج کے حالات میں اپنی قوم اور اس کے دکھوں کا علاج سوچتا ہوں‘ تو سمجھ نہیں آتا کہ کس طرف دیکھوں؟ آپ سارے لیڈروں کو جانتے ہیں۔ سارے مذہبی سیاستدانوں کو جانتے ہیں۔ ساری بیوروکریسی کو جانتے ہیں۔ ساری پولیس کو جانتے ہیں۔ سارے سماجی رہنمائوں کو جانتے ہیں۔ کوئی ہے؟ جو آپ کو خوشیاں دے سکے۔ بہت جستجو کی۔ غوروفکر کیا۔ بڑے بڑے لیڈروں کو دیکھا۔ مذہبی پیشوائوں کو دیکھا۔ سماج بدلنے کے دعویداروں کو دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ میرے سوال کا جواب ہے۔ امان اللہ ۔
یہ امان اللہ کون ہے؟ یہ وہ ہے‘ جس نے پاکستان اور بھارت میں تھیٹر کو نئی زندگی دی۔ امان اللہ کے آنے سے پہلے‘ تھیٹر میں‘ بہت پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ ہوا کرتے تھے۔ الحمرا آرٹ کونسل‘ فیض صاحب کی نگرانی میں تھی۔ اپنے زمانے کے بہترین فنکار ‘الحمرا میں پرفارم کرتے تھے اور کیا آپ یقین کریں گے کہ جس الحمرا میں ‘یہ سب کچھ ہوتا تھا‘ وہاں تماشائیوں کے بیٹھنے کے لئے پچاس ساٹھ نشستیں ہوا کرتی تھیں اور اس چھوٹے تھیٹر نے ‘جو بڑے بڑے فنکار پیدا کئے‘ ان کی فہرست لکھی جائے‘ تو کالم کی جگہ ختم ہو جائے گی۔ کیا آپ یقین کریں گے ؟ اس تھیٹر کی سٹیج پرصفدر میر نے پرفارم کیا تھا؟ انور سجاد نے رقص کیا تھا؟اور سماجی‘ ثقافتی اور سیاسی شہرت رکھنے والے معززین سٹیج پر آئے تھے؟ آج الحمرامیں کئی بڑے تھیٹر بن چکے ہیں۔ لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ساٹھ ستر نشستوں کا الحمرا‘ آج دو تین ہزار نشستیں رکھنے والے الحمرا سے بڑا تھا۔ جب میں یہ باتیں یاد کرتا ہوں‘ تو سوچتا ہوں کہ بڑا پن کس چیز میں ہے؟ تعداد میں؟ یا کسی اور چیز میں؟
مجھے بہت کچھ یاد آ رہا ہے۔ بدلی ہوئی دنیا کے سارے مناظر دیکھ رہا ہوں اور میرے سامنے ایک سولہ سترہ سال کا لڑکا آ جاتاہے‘ اس نے نمودار ہوتے ہی‘ پاکستان اور بھارت میں ناٹک کی دنیا بدل کے رکھ دی۔ مجھے فخر ہے کہ میں اسے جانتا ہوں۔
میرا ایک دوست‘ یعقوب ناسک مرحوم تھا۔ پاکستان ٹی وی میں پروڈیوسر ہوا کرتا تھا۔ وہ گوجرانوالہ سے لاہور آ یا تھا۔ لیکن لاہور میں رہ کر بھی‘ وہ گوجرانوالہ سے باہر نہیں نکلا۔ گوجرانوالہ کی عجیب خاصیت ہے کہ وہاں کے لوگ اپنے شہر سے نکل جاتے ہیں‘ شہر ان میں سے نہیں نکلتا۔ یہ بات کئی شہروں کے بارے میں لکھی جا سکتی ہے۔ میری اور ناسک کی دوستی کے عجیب رنگ تھے۔ ہماری شامیں ساتھ ساتھ گزرتیں۔ ہماری دوپہریں انگڑائیوں بھری ہوتیں۔ وہ پی ٹی وی کا پروڈیوسر تھا اور میں ایک چھوٹی سی ایڈورٹائزنگ ایجنسی بنا کر گزراوقات کرتا تھا۔ میں نے اس زمانے میں 6ہزار روپے میں‘ایک ووکس ہالز گاڑی خرید لی تھی۔ ایک دن کیا ہوا؟‘میں اپنی گاڑی میں ٹی وی سٹیشن جا رہا تھا۔ راستے میں یعقوب ناسک پیدل چلتا نظر آیا۔ میں نے گاڑی رکوا کے ڈرائیور سے کہا کہ ''یہ صاحب جوفٹ پاتھ پر جا رہے ہیں‘ انہیں گاڑی میں بٹھا لو۔‘‘ڈرائیور واپس آیا اور اس نے کہا ''صاحب سے کہو‘ مجھے جلدی ہے۔‘‘
یعقوب ناسک کے کمرے میں میرا ڈیرا ہوا کرتا تھا۔ صاف ظاہر ہے کہ شام کو میرے ٹھکانوں میں اس کا ڈیرا ہوا کرتا تھا۔ سارے دوستوں کا ذکر ممکن نہیں۔ جب بھی کوئی نام یاد آتا ہے ‘ آنسو بھر آتے ہیں۔ دلدار پرویز بھٹی۔ نصیر ملکی۔ اکمل علیمی اور نہ جانے کتنے دوست‘ اکٹھے مشکلوںکے ساتھ‘ کھیلا کرتے تھے۔ قبل اس کے کہ بات‘ منیرنیازی کی طرف نکل جائے اور میں اس بندے کو بھول جائوں‘ جس کی خاطر یہ کالم لکھنا شروع کیا، اس کی طرف واپس آتے ہیں۔ نام امان اللہ ہے۔ سولہ سترہ سال کا لڑکا‘ یعقوب ناسک کے کمرے میں اپنی صلاحیتیں دکھانے کے لئے آیا کرتا۔ امان اللہ کو یاد ہو گا کہ ہم لوگ اسے کہا کرتے تھے ''کچھ کر کے دکھائو۔‘‘ کیا آپ یقین کریں گے کہ وہ لڑکا کامیڈی کر کے دکھاتا۔ گانے سناتا۔ بڑے بڑے اداکاروں کی نقلیں اتارتا اور یعقوب ناسک کہا کرتا کہ ''یار! ایہہ منڈا میرے شہر دا اے‘ تسیں جاندے او میں دلدار پرویز بھٹی نوں کاسٹ کر بیٹھاآں۔‘‘ دلدار پرویزبھٹی کا شو‘ اُڑتی ہوئی پتنگ کی طرح ‘اوپر ہی اوپر جا رہا تھا اور شام کی محفل میں ‘یعقوب ناسک‘ امان اللہ کا نام لے کر کہا کرتا ''یار! ایہہ منڈا تے بڑا تیز اے۔ جے میں ایہنوں لے لیا‘ تے بھٹی دا کے بنے گا؟‘‘ یعقوب ناسک کو اپنے شو کی فکر تھی اور ہم سمجھتے تھے کہ یعقوب بلاوجہ ڈر رہا ہے۔ یہ لڑکا اتنا بھی خطرناک نہیں کہ بھٹی کو پیچھے چھوڑ دے۔
جو بات ہمیں ناممکن نظر آتی تھی‘ وہ ہو گئی۔ یعقوب ناسک کے کمرے میں‘ ہمارے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ وہ نوعمر لڑکا ‘بھول جاتا کہ یہ دفتر ہے یا تھیٹر؟ ہم بیٹھے بیٹھے تھیٹر دیکھ لیتے۔ اس کے بعد مجھے امان اللہ کو دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ میں اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی وجہ سے ٹی وی سے دور ہوتا چلا گیا اور بھول گیا کہ امان اللہ نامی کوئی چیز تھی بھی یا نہیں؟ وقت گزرتا گیا۔ کئی برس کے بعد‘ ایک محفل میں ذکر آیا کہ امان اللہ نے تو تھیٹر کی دنیا فتح کر لی ہے۔ میں نہ سمجھا کہ مجھ سے کس امان اللہ کی باتیں کی جا رہی ہیں؟ جو ہمیں سولہ سترہ سال کی عمر میں‘ یعقوب ناسک کے کمرے میںکرتب دکھایا کرتا تھا۔اس کے بعد خبریں آنے لگیں کہ امان اللہ نے تو تھیٹر پر قبضہ کر لیا ہے۔ لوگ اس کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں‘ وہ ملاقات کا وقت ہی نہیں دیتا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ امان اللہ کیا بن گیا ہے؟ میرے ایک دوست‘ امجد جاوید ہوا کرتے تھے‘ جو فوت ہو گئے ہیں۔ وہ شوبز میں بڑی دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوںنے مجھے بتایا کہ امان اللہ تو بہت بڑا سٹار بن چکا ہے‘ تو میں نے ان سے پوچھا کہ یہ امان اللہ ہے کون؟ انہوں نے یاد دلایا کہ یعقوب ناسک کے کمرے میں جو لڑکا پرفارم کر کے دکھایا کرتا تھا‘ یہ وہی ہے۔ امان اللہ تھیٹر کا سپرسٹار بن چکا تھا۔ وہ تھیٹر‘ جو دم توڑ چکا تھا۔ جسے دیکھنے والے رخ پھیر کر‘سینمائوں کی طرف چلے گئے تھے۔ تھیٹر کے بڑے بڑے اداکار بیروزگاری کے دکھ جھیل رہے تھے۔ نام یاد کرتا ہوں‘ تو یقین نہیں آتا کہ امان اللہ نے سٹیج پر آ کر‘ تھیٹر کے کتنے بڑے بڑے اداکاروں کے لئے‘ روزگار کے دروازے کھول دیئے۔ میں کسی کو شرمندہ نہیںکرنا چاہتا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جو اداکار‘ امان اللہ کی پیدائش سے پہلے‘ تھیٹر پر چھائے ہوئے تھے‘وقت نے جنہیں باہر کر دیا تھا‘ انہیں اسی تھیٹر میں ‘روزی کمانے کے مواقع دستیاب ہو گئے‘ جسے امان اللہ نے زندہ کیا ۔
ٹی وی کا زمانہ آیا‘ تو امان اللہ ایک کامیڈی شو میں نمودار ہوا۔ یہ آج کی باتیں ہیں۔ امان اللہ ایک شو میں آیا اور اپنی حاضرجوابیوں سے‘ تحقیق اور ریسرچ کے بعد لکھے ہوئے سارے سکرپٹ کو ‘ حاضر جوابی سے اڑا کے رکھ دیا۔ امان اللہ ‘ تھیٹر کی دنیا کا بادشاہ تھا۔ اب وہ ٹی وی میں آیا ہے‘ تو یہاں بھی اس نے تھیٹر کے اداکاروں پر روزگار کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ امان اللہ سے پہلے‘ تھیٹر کے اداکار‘ ٹی وی پر کبھی کبھی نظر آیا کرتے تھے۔ ایک سہیل احمد تھا‘ جس نے ون مین شو کر کے‘ اپنی دھاک جمائی۔ سہیل آج بھی اپنی طرز کا منفرد فن کار ہے۔ اس کی خداداد صلاحیتیں‘ اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ سہیل اپنی مثال آپ ہے۔ کوئی فن کار‘ نہ اس کی نقل کر سکتا ہے۔ نہ اس کی مہذب ظرافت کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔ ان کی نقل کر کے‘ کوئی روزی نہیں کما سکتا۔ لیکن امان اللہ ایک یونیورسٹی ہے۔ جو اس کے ساتھ آتا ہے‘ نگینہ بن جاتا ہے۔ امان اللہ ‘ پاکستانی تھیٹر کا سرمایہ ہے۔ دل چاہتا ہے کہ اس کی تعریف میں مزید لکھوں۔ کالم اجازت نہیں دے رہا۔