تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     10-06-2014

ایک ادیب‘ ایک غدار‘ایک وکیل

مقام افسوس ہے کہ پاکستان کے ذہین اور تعلیم یافتہ لوگوں کی ساری توجہ شمالی امریکہ پر مرکوز رہتی ہے اور وُہ (جنوبی) لاطینی امریکہ میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے ، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم وہاں سے جو کچھ سیکھ سکتے ہیں، نہیں سیکھتے۔ ہماری اس محرومی کی تازہ مثال یہ ہے کہ ماضی قریب میں جب وہاں کے سب سے بڑے ادیب اور ناول نگار گیبرئیل گارشیا مارکیز(Gabriel Garcia Marquez) نے وفات پائی تو سارے یورپ کے ادبی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی۔مگر ہمیں کچھ خبرنہیں۔ یورپ کے ہر اچھے اخبار میں مرحوم کے اعزاز میں بڑے تعریفی اور تعزیتی مضامین شائع ہوئے۔ یہ ادیب ذہنی طور پر بائیں بازو سے تعلق رکھتا تھا اور اس حوالہ سے امریکہ کا سخت مخالف تھا مگر امریکہ کے سب سے معروف اخبار انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبیون (جو ہماری خوش قسمتی سے اب پاکستان سے نکلنے والے ایک انگریزی اخبار کے ضمیمہ کے طور پر لاہور سے بھی شائع ہوتا ہے) نے اپنے صفحہ اوّل پر اس بڑے ادیب کا مرثیہ شائع کیا۔ انہوں نے 87 برس کی عمر میں وفات پائی۔ موصوف کی لکھی ہوئی بہت سی کتابوں میں ایک ناول One Hundred Years of Solitude کو سب سے زیادہ شہرت ملی ۔اُنہیں نوبل انعام دیتے وقت اس ناول کا خصوصی تذکرہ کیا گیا۔ کتنا اچھا ہو کہ پاکستان میں اس ناول کا کوئی نیک بخت ترجمہ کر دے تاکہ اسے اُردو میں ہزاروں لوگ پڑھ لیں۔ لگتا ہے کہ یہ ناول پاکستان کے حالات کے سیاق و سباق میں لکھا گیا ہے۔ فوجی آمریت، جنگیں (داخلی اور خارجی)،مردانہ غیرت کے مسلسل مظاہرے، تشدد اور آمریت کے کئی مظہر ۔اس کے ناولوں کے کردار (اہلِ پاکستان کی طرح) نہ صرف ایک دُوسرے پر ظلم و تشدد کرتے ہیں اور طرح طرح کے مصائب ڈھاتے ہیں بلکہ وُہی لوگ رحمدلی کے بھی بڑے نیک کارنامے سرانجام دیتے ہیں۔ مذکورہ بالا ناول کا پلاٹ ایک گھرانے کی سات پشتوں کے گرد گھومتا ہے۔ اُس گھرانے ،نے ایک قصبہ آباد کیا جس میں رہنے والوں کو یکے بعد دیگرے کئی بڑی بڑی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ساری آبادی کی نیند کا غائب ہو جانا اور اجتماعی بے خوابی، ہلاک کردینے والی چیونٹیوں کی یلغار، خانہ جنگی، غیر ملکی جارحیت، امریکی پھل فروش کمپنی کے بھیس میں سامراجی غلبہ، عوام کی بہادری اور سخت جانی، چکرا دینے والے سیاسی اُتار چڑھائو،گرداب، بحران، نہ ختم ہونے والے عذاب، اجتماعی وحشت کے بیابان میں انفرادی نیکیاں، گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اُمید کا جلتا ہوا چراغ۔ اگر ''بستی‘‘ جیسا اچھا ناول لکھنے والے انتظار حسین ہمت کر کے اس ناول کا ترجمہ کر دیں۔ (اُتنا ہی کمال ترجمہ جو اُنہوں نے عطیہ حسین کے ناول کا 'شکستہ ستون پر دھوپ ‘کے نام سے کیا ہے) تو ہم پر بڑا احسان ہوگا ۔
یہ بڑا ادیب آج زندہ ہوتا تو یہ خبر پڑھ کر بڑی بلند آواز میں ہنستا کہ سی آئی اے نے ایک ایسے ایرانی کو اپنے ملک میں پناہ دے کر اُس پر نوازشات کی بارش کر دی ہے جس نے تیس سال پہلے بیروت میں بہت بڑا بم دھماکہ کر کے سینکڑوں امریکی فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ (ہلاک ہونے والوں میں 241 امریکی اور 56 فرانسیسی تھے۔) یہ حملہ فوجی چھائونی پر کیا گیا تھا۔ اس حملے سے چھ ماہ قبل (اپریل 1981 ء میں) بیروت میں امریکی سفارت خانے پر بارود کے دھماکے سے امریکی سفارت کاروں کی ہلاکت کا ذمہ دار بھی اسی شخص کو سمجھا جاتا تھا۔اس کا نام علی رضا اصغری ہے،جو ایران میں اسلامی انقلابی گارڈ میں جنرل کے عہدہ پر فائزتھا اور ایران کا نائب وزیر دفاع بھی رہ چکا ہے۔ وہ فروری2007 ء میں استنبول گیا اور وہاں سے غائب ہو گیا۔ حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ سات سال پہلے سی آئی اے اپنے بدترین دشمن کو اپنا مہمان بنانے اور اُس کی خاطر مدارت کرنے پر بخوشی تیار ہو گئی چونکہ اُن کا مہمان خصوصی ایران کے ایٹمی راز (جتنے بھی وہ جانتا ہے) اپنے میزبان کو تفصیل سے بتانے پر رضامند اور مادر وطن سے غداری پر تیار ہو چکا تھا۔ یہ انکشاف اس ہفتہ شائع ہونے والے کتاب میں کیا گیا ہے، جس کا نام The Good spy ہے اور مصنف Kai Bird ۔O ہیں۔
مئی میں امریکہ کے ایک نامور وکیل لارنس وارنرنے 102 سال کی عمر میں وفات پائی۔ میں نے اُن پر لکھا جانے والا تعزیتی مضمون اس وجہ سے پڑھنا شروع کیا کہ وہ میرے ہم پیشہ تھے۔ گارڈین جیسے بڑے اخبار میں اگر کسی وکیل کی وفات پر مضمون شائع ہو تو مضمون پڑھے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس کالم نگار کے مقابلہ میں یقینا کئی درجہ بلند پایہ وکیل ہوں گے۔ مضمون پڑھنے لگا تو گویا دبستان کھل گیا۔ جب رونالڈ ریگن (امریکی صدر) پر الزام لگا کہ اُنہوں نے (اپنے جانشین صدر بش جونیئر کی طرح) امریکی اور بین الاقوامی قانون ،دونوں کی بہت بڑی خلاف ورزی کی تو اس الزام کی تفتیش کا کام (امریکی قانون کے مطابق) ایک معزز وکیل کو سونپا گیا۔ (صدر کلنٹن پر جھوٹا بیان دینے کے الزام کی تفتیش بھی ایک وکیل نے کی تھی)۔ لارنس کو اپنا فرض ادا کرنے میں چھ سال لگ گئے۔ ان چھ سالوں میںہر روز بارہ گھنٹے مغز کھپائی اور عرق ریزی۔ تفتیش کے نتیجہ کے طور پر لارنس امریکہ کے گیارہ اعلیٰ حکام کو عدالتوں سے سزا دلوانے میں کامیاب رہا مگر اُس وقت کے امریکی صدر (جارج بش سینئر) نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے سب مجرموں کی سزا معاف کر دی۔ اس جرم نے Iran Contra سیکنڈل کے نام سے شہرت پائی۔ امریکی کانگریس نے ایران کو کسی قسم کی مالی یا فوجی مدد دینے کو خلاف قانون قرار دے دیا تھا مگر امریکی حکومت مجبور تھی کہ ایران کو اسلحہ فروخت کرے۔ امریکی پارلیمنٹ (کانگریس) نے ایک اور قانون بھی منظور کیا تھا جس کے مطابق امریکی حکومت کو جنوبی امریکہ کے ملک نکاراگوا میں بائیں بازو (کیوبا کی طرح اشتراکی) کی 'Sandinista‘حکومت کے خلاف لڑنے والے امریکی پٹھوئوں اور کٹھ پتلیوں ( Contra) کو کسی قسم کی مدد دینے سے بھی روک دیا گیا تھا۔ دُوسرے الفاظ میں امریکی پارلیمنٹ نے ایک مضبوط رسی لے کر حکومت کے دونوں بازو باندھ دیئے تھے۔ 
حزب اللہ نے لبنان میں چند امریکی یرغمال بنا کر اپنی قید میں رکھے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کہ امریکی حکومت انہیں رہا کروانا چاہتی تھی۔ حزب اللہ پر دبائو ڈالنے کا واحد راستہ تہران سے ہو کر گزرتا تھا۔ ایرانی حکومت کو خوش کرنے کے لئے امریکہ نے اسرائیل کے توسط سے ایران کو ہتھیاروں کی فراہمی کرنا تھی۔ اس غیر قانونی (انگریزی محاورہ کے مطابق میز کے نیچے ہاتھ کر کے) سودے سے جو منافع ہوتا تھا وہ امریکہ کسی زیر زمین اور خفیہ ذریعہ سے نکاراگوامیں Contras کو پہنچاتاتھا تاکہ بائیں بازو کی عوام دوست حکومت کا تختہ اُلٹنے کے کارِخیر میں اُن کی مدد کی جا سکے۔ اکتوبر 1986 ء میں نکاراگوا میں ایک امریکی طیار ہ مار گرایا گیا تو یہ راز کھلا۔ مذکورہ بالا آپریشن کی نگرانی وائٹ آفس کے اندر جو افسر کرتا تھا اُس کا نام کرنل نارتھ تھا جو اُن دنوں اتنا ہی مشہور تھا جتنے Assangeاور Snowdon (امریکی اور برطانوی حکومتوں کی کروڑوں خفیہ ای میلز منظر عام پر لانے والے بہادر لوگ)۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved