تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     10-06-2014

پانچ ہزار سال پرانا شہر جو اب بڑا ہوا ہے

ایمانداری کی بات ہے کہ اب کالم لکھنے میں تاخیر سے جو شرمندگی اور افسوس ہوتا ہے ، اب تو اس کی وجہ بتاتے ہوئے بھی شرمندگی ہوتی ہے۔ وجہ وہی پرانی یعنی سفر۔ پانچ جون کو وزیراعلیٰ ،معاف کیجیے گا ،خادم اعلیٰ نے ملتان آناتھا۔ وزیراعلیٰ لکھنے کے بعد قائم علی شاہ ،ڈاکٹرعبدالمالک یا پرویز خٹک لکھنا پڑتا ہے، یا پھر سندھ ، بلوچستان یا خیبرپختونخوا کا سابقہ لگانا پڑتا ہے ۔مگر خادم اعلیٰ لکھنے میں آسانی یہ ہے کہ اس کے ساتھ میاں شہبازشریف یا پنجاب وغیرہ نہیں لکھنا پڑتا۔ اس ایک لفظ میں ہی سب کچھ آجاتا ہے ۔
پانچ جون کی صبح جب خادم اعلیٰ ملتان میں ،پانچ ہزار سال سے زیادہ عرصے سے مسلسل آباد شہر ملتان کو '' بگ سٹی‘‘ قرار دے رہے تھے تو یہ عاجز لاہور ائیرپورٹ کے لائونج میں بیٹھا لندن روانگی کا منتظر تھا۔ ملتان بالآخر '' بڑا شہر‘‘ قرارپاگیا۔ تین سو چھبیس قبل مسیح میں سکندر اعظم نے ملتان پر اپنی پچاس ہزار فوج کے ساتھ حملہ کیا ،ملتان تب بھی بڑا شہر تھا۔ سکندراعظم آدھی دنیا کو فتح کرتا ہوا جب ملتان پہنچا تو اس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہ یہ آخری بڑا شہر فتح کرنے کے بعد ، جوانی میں ہی دنیا سے رخصت ہوجائے گا۔ ایک روایت کے مطابق سکندراعظم کو ملتان کی جنگ میں لگنے والا تیرجاں لیوا ثابت ہوا اور سکندراعظم محض بتیس سال کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کرگیا۔ ملتان موریہ بادشاہت ، کشن سلطنت اور گپتا سلطنت کا حصہ رہا۔ بنارس ، بلخ ، ایتھنز، اربل، صور، یروشلم ،صیدا ۔ بابل ، جیریکو اوررے سے بھی قدیم شہر ،جو پچھلے پانچ ہزار سال سے زائد عرصے سے کسی نہ کسی صورت میں آباد ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت آباد شہروں میں صرف دمشق ،ملتان سے زیادہ پرانا شہر ہے ۔ پانچ سو سال قبل مسیح میں ٹوراماز کی قیادت میں سفید رنگت والی ''ہن‘‘ فوج نے برصغیر پر حملہ کیا تو ملتان تاراج ہونے والا بڑا شہر تھا۔ جب مہا بھارت لڑی گئی ملتان اس وقت کٹوچ بادشاہوں کی ترپگارتا ریاست کا دارالحکومت تھا۔ یہ تو بہت پرانی تاریخ ہے ۔ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ شہر ملتان کے نواح میں قصبہ لاہور بھی تھا۔شکر الحمدللہ کہ خادم اعلیٰ نے بالآخر ملتان کو بڑا شہر قرار دے ہی دیا۔ ملتان کے سپوت سید یوسف رضا گیلانی نے وزیراعظم بننے کے بعد اپنے پانچ کنال سے سکڑ کر اڑھائی کنال بن جانے والے گھر کو دوبارہ پانچ کنال کا تو کرلیا مگر ان کو یہ توفیق نہ ہوسکی کہ شہر کو بگ سٹی قرار دلوا دیتے۔ گزشتہ کئی برسوں سے حکمرانوں کے ہر دورے پر یہ افواہ اڑتی تھی اور دم توڑ دیتی تھی۔ ملتان والے پانچ جون 2014ء کے بعد اس قدیم شش و پنج سے رہا ہوگئے ہیں۔ ملتان والوں کو مبارک ہو۔
خادم اعلیٰ نے تیس ارب روپے سے ملتان میں میٹرو بس منصوبے کا بھی اعلان کیا اور 14اگست کو اس کا افتتاح ہوگا ۔ میں یہ افتتاح دیکھنے کے لیے شاید ملتان نہ ہوں گا بلکہ ہالینڈ میں مشاعرہ پڑھنے جا چکا ہوں گا مگر میرا دل یہیں ہوگا کہ وہ ہمیشہ یہیں لگا رہتا ہے۔میٹروبس کا روٹ کیا ہوگا؟ ابھی یہ پوری طرح کنفرم نہیں کیونکہ ملتان سے روانگی سے قبل جس روٹ کا مجھے بتایا گیا تھا پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ بھی کوئی معقول روٹ نہیں تھا اور دوسری بات یہ کہ اس روٹ میں بھی بدترین سیاسی مداخلت کا خوف ہے کہ ملتان شہر کے دونوں ایم این اے جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی کا تعلق تحریک انصاف سے ہے اور خادم اعلیٰ نے جو پانچ رکنی نگران سیاسی کمیٹی بنائی ہے اس میں دو مسلم لیگی ایم این اے اور تین ایم پی اے ہیں۔ ظاہر ہے یہ دونوں ایم این اے ملتان شہر سے باہر کے ہیں اور جس روٹ سے میٹروبس کا واسطہ پڑنا ہے وہ ان کے حلقہ انتخاب سے تعلق ہی نہیں رکھتا لہٰذا ان سے کسی بہتری کی توقع لاحاصل ہے اور شہر سے متصل حلقے سے منتخب ہونے والا ایک ایم این اے جتنی ذہنی استعداد اور سوجھ بوجھ کا مالک ہے کم از کم عاجز کو اس کا بخوبی انداز ہ ہے۔ لے دے کر ایک مثبت توقع صرف یہ رہ گئی ہے کہ ڈی سی او ملتان شاندار آدمی ہے اور وہ شاید چیزیں بہتر انداز میں تکمیل تک لے جائے مگر اس میں بھی دو باتوں کا خوف ہے۔ پہلا یہ کہ سیاسی کھڑپینچ مداخلت سے باز نہیں آئیں گے، معاملات کو خراب بلکہ برباد کرنے کی کوشش کریں گے اور اگر وہ بوجوہ ایسا نہ کرپائے تو ضلعی انتظامیہ یعنی ڈی سی او کو تبدیل کروانے کی کوشش کریں گے، ہر دو صورت میں سارا منصوبہ کچھ کا کچھ بن جائے گا۔
میٹروبس کے روٹ میں بوسن روڈ بھی شامل ہے۔ خادم اعلیٰ نے میٹروبس کا سارا منصوبہ ایک سال میں مکمل کرنے کااعلان کیا ہے۔ براہ کرم خادم اعلیٰ اس منصوبے کے آغاز یعنی 14اگست 2014ء تک ان دو ماہ میں چھ نمبر چونگی چوک ٹھیک کروا کر اپنے اعلان کی تھوڑی سے لاج رکھ لیں۔ یہ چوک گزشتہ تین سال سے موئن جودڑو کے جڑواں شہر کا نقشہ پیش کررہا ہے ۔مزید برآں یہ کہ خادم اعلیٰ کو چاہیے کہ وہ ملتان میں اس منصوبے کی منصوبہ بندی اور تعمیر و تکمیل کے لیے وہ انجینئر بھیجیں جنہوں نے انجینئرنگ پڑھ کر پاس کی ہو اور وہ میرٹ پر نوکری میں آئے ہوں۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ملتان میں آج تک جتنے انجینئر بھی ایسے منصوبوں کی نگرانی اور تکمیل کے لیے بھیجے گئے تھے اور اب بھی موجود ہیں وہ ''چھولے ‘‘دے کر پاس ہوئے اور سفارش پر بھرتی ہوئے تھے کہ ملتان کا کوئی بھی ترقیاتی منصوبہ میری نظر سے نہیں گزرا جو غلطیوں بلکہ حماقتوں کے پہاڑ تلے نہ دبا ہو۔ فلائی اوور چوک، سروس روڈز حتیٰ کہ یوٹرن، ہر چیز غلط اور خراب، میٹریل ناقص اور تعمیرکا معیار ناقص تر۔ یوں لگتا ہے کہ منصوبہ کسی انجینئر نے نہیں اس کے چپڑاسی نے بنایا ہے( انجینئروں کے چپڑاسیوں سے پیشگی معذرت)۔
بوسن روڈ کو ڈیڑھ دو سال پہلے چوڑا کیا گیا ۔کئی کلو میٹر طویل اس سڑک کے دونوں کناروں پر موجود مکانات، دکانات اور دیگر کمرشل پراپرٹی کی مارکیٹ کے نرخوں پر ادائیگی کی گئی تھی۔ جعلسازوں نے ملی بھگت سے خالی زمینوں پر عارضی تعمیرات کرکے کمرشل ریٹ وصول کیے ۔ اس دوران بہت سے لوگوں کا کاروبار متاثر ہوا۔ کئی لوگوں کو اپنا بزنس ختم کرنا پڑا کہ دکان سڑک میں شامل ہوگئی اور پیچھے موجود مالک زمین نے جگہ دینے 
سے انکار کردیا کہ بیٹھے بٹھائے اس کی زمین برلب سڑک آگئی اور اس کی کمرشل ویلیو یکایک کئی گنا بڑھ گئی۔ اب اس سڑک پر درمیان میں پھر جنگلا لگے گا ،سڑک اردگرد سے پھر چوڑ ی ہوگی، کچھ لوگوں کی پھر لاٹری نکلے گی۔ بے شمار لوگوں کا کاروبار پھر برباد ہوگا۔ایک بار پھر کھانچے لگیں گے اور ادائیگیوں میں بہت سے لوگ اپنے ہاتھ رنگیں گے۔ سیاستدان ووٹوں کی سیاست کو سامنے رکھ کر نقشے تبدیل کروائیں گے اور عوامی امنگوں کے نام پر ہمارے ٹیکسوں کی مد میں ادا کیے گئے قومی سرمائے کو اپنے اگلے الیکشن کے لیے اپنی مرضی سے خرچ کروائیں گے بلکہ برباد کریں گے۔ مجھے حیرانی صرف اس بات پر ہے کہ ملتان اور لاہور میں لگنے والے قومی سرمائے کے بارے میں حکمرانوں کا رویہ اتنا مختلف کیوں ہے؟ لاہور میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں چلتی۔ ادھر ملتان میں سیاسی مداخلت کے بغیر پتہ نہیں ہلتا۔ لاہور میں اعلیٰ درجے کے انجینئر منصوبوں کو دیکھتے ہیں، ملتان میں روئے ا رض کے سب سے نالائق انجینئر کہاں سے آجاتے ہیں؟ لاہور میں خادم اعلیٰ اپنے عزیزوں کی تجاوزات گرادیتے ہیں، ملتان میں ان سے دونمبر ارکان اسمبلی قابو میں نہیں آتے۔ خادم اعلیٰ کی ترجیحات میں اتنا فرق کیوں ہے؟
اگر ملتان میں چار چھ کام کے انجینئر بھیج دیے جائیں ۔سیاسی کھڑپینچوں کی نگرانی کے نام پر مداخلت بے جا ختم کردی جائے اور موجودہ ڈی سی او کو سیاسی دبائو سے آزاد رہ کر کام کرنے دیا جائے تو ملتان کی شکل تبدیل ہوسکتی ہے اور ملتان پھر سے بڑا شہر بن سکتا ہے مگر اتنی ساری '' اگر مگر‘‘ کا پورا ہونا بھی کار محال ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved