'' میری دانست میں ‘‘ ہمارے معشوق ، انتظار حسین کی تازہ ترین تصنیف ہے جو بڑی تقطیع کے 240صفحات پر محیط ہے۔ جسے سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا ہے اور اس کی قیمت 795روپے رکھی ہے۔ غالباً ہمارے اسی بوڑھے فرشتے کی بارے میں غالب نے کہا تھا کہ ؎
بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات
عبارت کیا، بشارت کیا، ادا کیا
(بوڑھا تو میں بھی ہوں لیکن فرشتہ نہیں)۔ اس کی عبارت اور اشارت سے تو ہر کوئی واقف ہے بلکہ والہ وشیدا بھی ہے، البتہ اس کی ادا کا بیان ذرا تفصیل طلب ہے جو موصوف نے مجھے دکھا رکھی ہے۔ ہوا یوں کہ کوئی ڈیڑھ سال سے میرے کلیات کی چوتھی جلد اب تک موصوف کے پاس اسی طرح بے نیل مرام پڑی ہے اور اسے غالباً ہاتھ تک نہیں لگایا گیا، ورنہ اس سے پہلے وہ میری ہر کتاب پر، وہ تبصرہ ہویا تیا پانچہ ،باقاعدگی سے کرچکے ہیں۔ اس کی کتاب کے ذکر سے پہلے میں نے تو یہی سوچا تھا کہ ع
جے توں میرے جنازے تے نہیں آیا تے میں وی تیرے جنازے تے نہیں ائونا
جیکہ یہ مرحلہ بھی کچھ ایسا دور دکھائی نہیں دیتا۔ لطف یہ ہے کہ میں آنجناب کو اس دوران دو ایک بار یاد بھی دلا چکا ہوں کہ دیکھیے، آپ میری کتاب کو ہضم ہی کرگئے ہیں۔
اس بے اعتنائی بلکہ کافرادائی کی ایک ممکنہ وجہ تو میری سمجھ میں یہ آتی ہے کہ اس کے مندرجات کچھ ایسے ہیں جن کے حوالے سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں اور شاید انتظار صاحب بھی ان سے متاثر یا ان میں شامل ہوں ، کہ اردو زبان کی پاکیزگی کو ہر صورت برقرار
رہنا چاہیے اور کسی دوسری زبان یا بولی کا کوئی لفظ اس میں ٹھونسنا ایک بہت بڑی زیادتی سے کم نہیں ہے۔ ہوا یوں کہ اس کی ایک کتاب جس میں حسب معمول 121 غزلیں شامل ہیں،ان میں، میں نے پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو اور ہندکو کے الفاظ بے تکان استعمال کرڈالے ہیں۔ مقصد یہ تھا کہ ہماری زبانوں کو ایک دوسری کے قریب لایا جائے تاکہ یہ دوری اور اجنبیت ختم ہوسکے جو ابھی تک ہمارے ایک قوم بننے کی راہ میں حائل ہے۔ یاد رہے کہ یہ میرا ابتدائی تھیسس ہے جو ''گلافتاب‘‘ کے وقت سے چلا آرہا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ایک اور شرارت بھی ایک کتاب بعنوان '' ترکیب ‘‘ کی شکل میں موجود ہے جس میں گجراتی زبان کے ساتھ بغل گیری کا سامان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ چند سال پیشتر میرے ایک بھارتی شاعر دوست عادل منصوری جو امریکہ میں رہائش پذیر تھے، جن سے وقتاً فوقتاً فون پر گپ شپ رہا کرتی، وہ اصلاً گجراتی تھے اور جن کا بعد میں انتقال ہوگیا ۔میں نے دوران گفتگو ایک دن انہیں کہہ دیا کہ مجھے گجراتی کی ردیفیں بھجوائو ، میں ان پر غزلیں بنائوں گا۔ چنانچہ اس نے یہ کام شروع کردیا اور ہوتے ہوتے 121غزلیں مکمل ہوگئیں جو اس نے گجراتی رسم الخط میں وہاں سے کتابی صورت میں چھپوا بھی دیں اور اس کے بقول بھارت میں ان کی خصوصی پذیرائی بھی ہوئی۔ خاص طور پر وارث علوی اور محمد علوی نے بشمول جناب شمس الرحمن فاروقی اس کی حد سے
بڑھ کر تحسین کی (اس بات کی سمجھ آج تک نہیں آئی کہ سارے علوی گجراتی کیوں ہوتے ہیں)۔ چنانچہ میں نے اردو رسم الخط میں اسے کلیات کی مذکورہ جلد میں شامل کرلیا۔ اس نے مجھے گجراتی میں لکھا ہوا ایک دیباچہ بھی بھجوایا تھا جو اس کتاب میں بھی شامل تھا اور میں نے بھی اسے ہو بہو کتاب میں شامل کرلیا کیونکہ کوشش کے باوجود یہاں سے اس کا اردو میں ترجمہ نہ کروا سکا تھا۔ کلیات میں اسے شامل کرنے کی ایک وجہ تو اس میں ایک اور ذائقے کا اضافہ کرنا تھا، اور دوسرے یہ بھی کہ پاکستان اور اکیلے کراچی میں گجراتی بولنے والے لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں بلکہ وہاں سے متعدد اخبارات گجراتی زبان میں شائع ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہ یہ ہمارے قائداعظم کی مادری زبان تھی۔
ہم زبانی کلامی تو یہ بات بڑے شدومد سے کہتے ہیں کہ علاقائی زبانوں کا آپس میں ایک دوسری سے فاصلہ کم ہونا چاہیے ، بلکہ پچھلے سال لاہور میں منعقدہ ایک عالمی ادبی کانفرنس میں اس موضوع پر باقاعدہ ایک مضمون پڑھا گیا لیکن عملی طور پر اس سلسلے میں کسی طرف سے کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی۔ انتظار حسین نے چاہے جس وجہ سے بھی اس کتاب پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہو، اس نے یہ کام کسی حد تک خود کردیا ہے اور یہ کرتب میں نے اس حصے میں کر دکھایا ہے جو صرف اور صرف انتظار حسین کی کتاب پر تبصرے کے لیے مخصوص تھا ع
ہاتھ لا استاد کیوں کیسی کہی
باقی، جہاں تک زبان کا تعلق ہے تو یہ کوئی جامد چیز نہیں بلکہ ایک طرز حیات ہے۔ہر جینوئن شاعر یا ادیب اپنی زبان ساتھ لاتا ہے اور مروّج زبان کو تہس نہس کرنے کا پورا پورا استحقاق رکھتا ہے۔ لیکن زبان قائم با لذات ہے اور اپنی جگہ پرچٹان کی طرح مضبوطی سے کھڑی رہتی ہے، اس کا کچھ نہیں بگڑتا ، اس میں کچھ طرفیں اور کھڑکیاں ضرور کھل جاتی ہیں۔ خیر یہ ایک لگ بحث ہے۔
اب ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ انتظار حسین کی کتاب پر تبصرہ ہو بھی کیا سکتا ہے یعنی صاف ہی سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے۔ موصوف کا لکھا ہوا پیش لفظ ہی ایسی مزے کی چیز ہے کہ اس میں ہی پورے انتظار حسین کا جلوہ نظر آجاتا ہے۔ اس دیگ سے ایک آدھ چاول دیکھیے اور پھر پوری دیگ آپ کے سامنے ہے '' ارے یہ تو بوند بوند کرکے پھر تالاب بھر گیا، بھلا ہم کہاں کے نقاد اور کون سے عالم فاضل ہیں کہ مقالے لکھنے کی نیت سے قلم اٹھاتے۔ بس یہی ہوتا رہا کہ جب کوئی ادبی بحث گرم ہوئی تو ہم نے اپنی طرف سے بھی ٹکڑا لگادیا۔ دیکھیے جب بحث گرم ہو اور ارد گرد سب اپنی اپنی منطق بھگار رہے ہوں تو آخر بندہ بشر ہے، اس کے اندر بھی کھدبد ہونے لگتی ہے اور کھُد بُد کرتی ہنڈیا کسی وقت تو ابلے گی اور قلم چلے گا ،بات بیشک ادھوری رہ جائے مگر بساط بھر کچھ تو کہا جائے گا۔ ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوا اور ادبی رسالوں کے ایڈیٹروں کی نظروں میں آپ آگئے تو فرمائشیں شروع ہوجاتی ہیں کہ اس مسئلے کے بیچ کچھ فرمائیے، لکھیے۔
اس مرحلہ سے گزرتے گزرتے ہمیں ایک اور مرحلہ درپیش ہوا۔ دوسرے رنگ کی فرمائشیں ، خطبۂ صدارت، یادگاری لیکچر، کلیدی مقالہ ، ارے یہ تو علما و فضلا کا علاقہ ہے۔ ہم کہاں کے دانا ہیں کس ہنر میں یکتا ہیں کہ علمی ثقاہت کے ساتھ قلم اٹھائیں اور مقالہ تحریر کریں۔ بہت معذرتیں کیں کہ من آنم کہ من دانم ، کہانی لکھ لی تو سمجھے ، فلک پہ تیر مارا ، یادگاری لیکچر ، کلیدی خطبہ ،یہ تو علما کے چونچلے ہیں۔ بندہ معافی چاہتا ہے۔ مگر کون سنتا ہے ۔سو اس راہ بھی چلنا پڑا۔ مگر ہر مرتبہ شروع من آنم کہ من دانم قسم کے تمہیدی کلمات، بس جیسے قصیدے میں تشبیب ہوتی ہے پھر گریز ، پھر اپنے رنگ میں کچھ باتیں ۔ یہ وضاحت ضروری تھی کہ اس مجموعہ میں ایسی تحریریں بار بار قاری کا راستہ روکتی یا اپنی طرف متوجہ کرتی نظر آئیں گی، اب چونکہ ہمارے ہاں خیر سے سیمینار اور ادبی کانفرنسیں بھی خوب ہونے لگی ہیں اور وہ اجتماعات جنہیں لٹریری فیسٹیول کا خطاب دیاگیا ہے تو ایسی تحریریں اسی تقریب سے نظر آئیں گی۔ آخر زمانے کے چلن کے ساتھ بھی جینا پڑتا ہے، خیر کھونٹا تو ہمارا افسانہ و ناول ہے، پھر یہ سب کیا ہے؟ بس سمجھ لیجیے کہ سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی۔‘‘
آج کا مقطع
خراب اُفتادِ طبع نے بھی کیا ظفر کو
جہاں سے اچھے لگے وہیں سے ہٹے ہوئے ہیں