سوشل میڈیا کی طاقت کا اندازہ ہمیں بھی تھا مگر اِس بات کا اندازہ نہ تھا کہ طاقت کس قدر ہے۔ ہم نے سوچا بھی نہ تھا کہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والا یا پھیلایا جانے والا کوئی لفظ بجلی کی سی تیزی سے متعلقین پر قیامت ڈھا سکتا ہے۔ آج کل سوشل میڈیا پر بیانات، وضاحتیں، تصاویر اور وڈیو کلپس مطلوبہ نتائج کے لیے اپ لوڈ کی جاتی ہیں اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اپنے مقاصد میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔ ہم بھی سوچا کرتے تھے کہ سوشل میڈیا کو اِس طور استعمال کریں کہ لوگ متوجہ ہوں۔ مگر کوئی ڈھنگ کی ترکیب ہمیں سُوجھتی ہی نہ تھی۔ اللہ بھلا کرے شریف امروہوی صاحب کا جن کی ایک معصوم سی غلطی (یا غیر معصوم سی شرارت!) نے ایسا جادو جگایا کہ ہم راتوں رات بہت سوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے۔ آپ سوچیں گے کسی کی آنکھوں میں کھٹکنا کون سے اعزاز کی بات ہے۔ آپ نے کیا سُنا نہیں ہے؟ ع
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟
ہم 1980 ء سے شعر کہتے آئے ہیں۔ شعر گوئی نے توقیر کا اہتمام کیا ہے مگر سچ یہ ہے کہ مُشاعرے پڑھنے یا اخبارات و جرائد میں غزلوں کی اشاعت سے وہ بات نہ بنی جو شریف امروہوی صاحب کے ''خراجِ تحسین‘‘ سے بن گئی۔ اِس ''خراجِ تحسین‘‘ کی تاثیر یہ تھی کہ بہت سے احباب نے جذبات سے مغلوب ہوکر ہمیں ''خراجِ عقیدت‘‘ پیش کرنا شروع کردیا۔
بات یہ ہے کہ موبائل فون پر ایس ایم ایس پیکیج کو ہم نے بھی اپنے اشعار احباب تک پہنچانے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ تین دن قبل چند اشعار کہے۔ سوچا تازہ مال ہے تو چلو، احباب سے بھی شیئر کرلیں۔ یہی سوچ کر اپنی تازہ ترین طبع آزمائی سے چار اشعار چند احباب کے اِن باکس میں داخل کردیئے۔ شریف امروہوی صاحب کے جی میں خدا جانے کیا آئی کہ ہمارے اشعار پڑھتے ہی دُکان کھول بیٹھے۔ ہم فوٹو شاپ کی بات کر رہے ہیں۔ موصوف فوٹو شاپ کی مدد سے بہت کچھ تیار کرلیتے ہیں۔ ہمارے اشعار کو ایک پُرکشش چوکھٹے میں فِٹ کرکے اُنہوں نے فیس بک پر اپ لوڈ کردیا۔ اشعار کیا اپ لوڈ ہوئے، یہ سمجھ لیجیے کہ ''بات ہونٹوں نکلی، کوٹھوں چڑھی‘‘ والا معاملہ ہوگیا۔ تبصروں کا سلسلہ چل نکلا۔ جب بھی کوئی شخص فیس بک کو وزٹ کرکے ہماری کسی بات پر تبصرہ کرتا ہے تو ای میل کے ذریعے ہمیں بھی نوٹیفکیشن ملتا ہے۔ ذرا سی دیر میں ہمارے ای میل اکاؤنٹ کا اِن باکس تبصروں سے بھرگیا۔ داد و تحسین کے ڈونگرے برسنے لگے۔ ہم بہت خوش ہوئے کہ چلو، سوشل میڈیا نے ہمارے لیے بھی کوئی تو ''انقلاب‘‘ برپا کیا۔
مگر پھر کچھ ہی دیر میں لوگوں نے ہمیں لتاڑنا شروع کیا۔ ای میل اکاؤنٹ میں پہنچنے والے نوٹیفکیشنز کی بُنیاد پر ہم نے خطرے کی بُو سُونگھی اور فیس بک پر اپنے پیج کا وزٹ کیا تو معلوم ہوا کہ لوگ اشعار کو سراہنے کے ساتھ ساتھ شریف امروہوی صاحب کی سادگی پر ہمیں ملامت کر رہے ہیں۔ آن کی آن میں ہمیں اندازہ ہوگیا کہ شریف صاحب کی ایک معمولی سی غلطی یا مزاج کی شوخی نے ہم پر طنز کے تیر برسانے کا اہتمام کردیا۔ ہوا یہ کہ شریف صاحب نے ہمارے اشعار کے ساتھ ''نوجوان شاعر محمد ابراہیم خان کی غزل‘‘ کے الفاظ بھی ٹائپ کردیئے!
اِس ایک لفظ ''نوجوان‘‘ نے ہنگامہ برپا کیا۔ لوگ کہتے ہیں کسی ایک لفظ سے کیا ہوتا ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اِس ایک لفظ نے اپنے اور پرائے کا فرق واضح کردیا۔دیکھتے ہی دیکھتے یاروں نے فیس بُک پر ہمیں لتاڑنا شروع کردیا۔ برادرم مظہر ہانی نے لکھا۔ ''نوجوان؟ ہاہاہا!‘‘ امجد چودھری نے لکھا۔ ''لگتا ہے اب 'نوجوان‘ کی تعریف بدلنی پڑے گی!‘‘ محترم انور سعید صدیقی نے ٹائپ کیا۔ ''جب 'نوجوانی‘ کی شاعری ایسی ہے تو بڑھاپے کی کیسی ہوگی!‘‘ ایک صاحب نے ایس ایم ایس کیا۔ ''شریف صاحب شاید آپ کو no jawan لکھنا چاہتے تھے!‘‘
ہماری تذلیل کا سامان ہو اور مرزا تنقید بیگ کے من میں لَڈّو نہ پُھوٹیں، ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ جیسے ہی اُن کے بیٹے نے فیس بک پر ہماری دُرگت کے بارے میں بتایا وہ ہمارے گھر آدھمکے۔ موقع بھی تھا اور جواز بھی اِس لیے وہ آتے ہی ہماری ''نوجوانی‘‘ کی واٹ لگانے لگے! اُن کا خیال تھا کہ بدنامی کے ذریعے شہرت پانے کی کوشش کرنے والوں کا یہی طریقِ واردات ہوا کرتا ہے! مرزا کی بات مکمل طور پر غلط بھی نہیں۔ مگر ہم یہ کیسے یقین دلائیں کہ ہمیں شعر کہنے کا شوق ضرور ہے مگر اُس نوجوانی کا ڈھول پیٹ کر لوگوں کی توجہ حاصل کرنا مقصود نہیں جو بہت پہلے گزر چکی ہے! چند لمحوں کی مسرت بلکہ مسرت کے بھی صرف شائبے سے اگر کوئی غریب دِل کو ذرا بہلالے تو اِس میں ہرج ہی کیا ہے؟
شریف امروہوی صاحب سے ہمارے تعلقات کی نوعیت ایسی نہیں کہ اُن کی سادگی و پُرکاری سے جو مصیبت نازل ہوئی اُس پر ناراضی کا اظہار کریں۔ اب آپ سے کیا پردہ؟ سچ یہ ہے کہ شریف صاحب کی کوتاہی نے خاصا نہال کردیا۔ لوگوں کے طنزیہ جُملوں سے اُن کا متوجہ ہونا تو ثابت ہوتا ہی ہے! ؎
وہ بے رُخی سے دیکھتے ہیں، دیکھتے تو ہیں
میں خوش نصیب ہوں کہ کسی کی نظر میں ہوں!
شریف صاحب سے بس اِتنا سا اِلتماس ہے کہ ہمارے ''درجات‘‘ ذرا سوچ سمجھ کر بُلند کیا کریں کیونکہ ابھی ہمارا معاشرہ ذہنی طور پر اِتنا پُختہ نہیں ہوا کہ کسی کے نمبر بنتے دیکھ کر سَچّے دِل سے خوش ہو!