جنیدِ بغداد ؒ نے کہاتھا: یہ کاروبارِ دنیا ہے ۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ ہاں ! مگر تاریخ کے چوراہے پر سوئے پڑے بیس کروڑ انسان؟ ع
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز
حادثات پر حادثات ہیں ۔ مایوسی اور خود ترحمی بڑھتی جا رہی ہے ۔ زرداری حکومت سے نجات ملی تو امید بندھی کہ ابتلا کم ہونے لگے گی ۔ فروغ کا موسم شروع ہوگا۔ سب خواب مگر ریزہ ریزہ ہیں۔ دہشت گردی جوں کی توں ہے۔ فیصلہ نہ ہوا تو اور بڑھے گی۔ گرما کی شدت میں بجلی کا بحران کچھ اور بھی خوفناک لگتا ہے ۔ پولیس وہی ہے ، پٹوار وہی۔ گرانی میں اضافہ مسلسل ہے ۔
وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار نے وعدہ کیا تھا کہ خزانہ بھرنے کے لیے ایک لاکھ مزید ٹیکس نادہندگان سے وصولی کا آغاز ہو گا۔ گھٹتے گھٹتے یہ تعداد دس ہزار رہ گئی اور اب اس کابھی کوئی ذکر نہیں ۔32 لاکھ ٹیکس نادہندگان کی فہرست ایف بی آر کے پاس پڑی ہے ۔ کیا حکومت ان سے خوفزدہ ہے ؟ خبر آئی کہ دبئی میں زاہد و متقی وزیرِ خزانہ کی صاحبزادی کا نکاح ہو اتو بیس کروڑ روپے خرچ کر ڈالے گئے ۔ دنیاکی سب سے اونچی عمارت برج الخلیفہ کے پنج ستارہ ہوٹلوں میں تقریبات منعقد ہوئیں ۔ اس سے پہلے یہ بتایا گیا تھاکہ اپنے صاحبزادے کو انہوں نے 41کروڑ روپے بطور قرض دیے ہیں ، والدِ گرامی کی طرح جن کا زیادہ تر کاروبار امارات میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لیڈر اپنی مثال سے قوم کی رہنمائی کیاکرتے ہیں ۔ کیا یہی وہ مثال ہے ؟
یہی اندازِ تجارت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
افغانستان کے شمال میں رہنے والے ازبکوں کا محاورہ یہ ہے: وہ برف پر وعدے لکھتے ہیں اور انہیں دھوپ میں رکھ دیتے ہیں ۔پانچ صدی پہلے کے شیبانی خان ازبک اور شاہ اسمٰعیل صفوی یاد آئے ۔ شیبانی وہ تھا، جس نے ظہیر الدین بابر ایسے فاتح کو سمر قند سے مار بھگایا تھا۔ پھر اس کے حوصلے بلند ہوئے اور ایسے بلند کہ ایران میں بنیاد پرستی کے سرخیل اسمٰعیل صفوی کو اس نے للکارا۔ ایرانی فاتح نے اپنے علاقے میں دخل اندازی سے منع کیا تو خط کے جواب میں ایک کشکول اور عصا بھیجا گیا کہ تم فقیر ہو اور تمہارا پیشہ گداگری ہے ۔ آندھی کی طرح چڑھے آتے اسمٰعیل نے شیبانی خان کے لیے ایک چرخا اور سوت روانہ کیا کہ تمہارا کام سپاہ گری نہیں ، پارچہ بافی ہے ۔ ازبک جنگجو آخر کو کھیت رہا۔ شیر شاہ سوری کے سوا وہ واحد آدمی ، تزکِ بابری میں جس کا ذکر حسرت اور رشک کے ساتھ ہے ۔ وقائع نگارلکھتا ہے کہ شیبانی کو اپنی طاقت پہ ناز بہت تھا ۔ کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو ، آخر کو خاک چاٹتا ہے ، اگر اسے اپنی محدودات کا اندازہ نہ ہو ۔ اگر وہ اپنی کمزوریوں کا ادراک نہ کر سکے اور اگر وہ زمینی حقائق کو نظر انداز کر دے ؎
بڑھتے بڑھتے حد سے اپنی بڑھ چلا دستِ ہوس
گھٹتے گھٹتے ایک دن دستِ دعا رہ جائے گا
بار بار تجزیہ نگاروں نے توجہ دلائی ہے کہ حکمت سے بے نیاز شریف خاندان من مانی پر تلا ہے ۔اگر یہی اس کاشعار رہا تو گذشتہ دو ادوار کی طرح نہ صرف ناکامی سے دوچار ہوگابلکہ ممکن ہے کہ حرفِ غلط کی طرح مٹ جائے ۔ خواجہ سعد رفیق، عرفان صدیقی اور احسن اقبال پر مشتمل ایک جمہوریت بچائو کمیٹی شاہی خاندان نے قائم کی ہے ۔ اخبار نویس وہ ہے جو پارٹی کا تابع مہمل ہے۔ ریلوے کے وزیر کی شہرت یہ ہے کہ آئے دن اس کا ایک پرائز بانڈ سونے کے انڈے دیتاہے ۔ احسن اقبال پر الزام یہ ہے کہ اس نے اشتہاری پال رکھے ہیں۔ اوّلین سوال یہ ہے کہ جمہوریت کو خطرہ کس سے ہے ؟ زرداری صاحب سے معاملہ طے پا چکا۔ ان کے دور کی کرپشن کا حساب نہ لیا جائے گا اور وہ ''جمہوریت‘‘ کے لیے میاں صاحب سے بھرپور تعاون کرتے رہیں گے ۔ عمران خان سے، جو انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں؟ کیا خواجہ سعد رفیق ، عرفان صدیقی اور احسن اقبال اس سے بات کریں گے ؟ کیافوج سے خطرہ لاحق ہے ؟ اس کے باوجود کہ وزیرِ اطلاعات سمیت، جو الفاظ کے چنائو کا سلیقہ نہیں رکھتے ، انگریزی اور اردو تو کیا ، پنجابی میں بھی اظہارِ خیال پر قادر نہیں ، فوج کے بارے میں وزرا کے غیر محتاط اظہارِ خیال اورمشکوک میڈیا گروپ کی حمایت کے باوجود فوجی قیادت صبر و تحمل پر قائم ہے اور امید ہے کہ قائم رہے گی۔ اسے ادراک ہے کہ سیاست میں مداخلت سے اتنے مسائل حل نہیں ہوتے ، جتنے کہ جنم لیتے ہیں ۔ خوش قسمتی سے وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کے ذاتی مراسم خوشگوار ہیں؛ چنانچہ امیدہے کہ انشاء اللہ کوئی حادثہ نہ ہوگا۔ جمہوریت کو اگر خطرہ ہے تو خود شاہی خاندان سے ۔
آخریہ کون سا طرزِ حکومت ہے کہ پنجاب میں بیک وقت دو عدد وزرائے اعلیٰ ہیں... ایک میاں محمد شہباز شریف اور ایک ان کے فرزندِ ارجمند۔ جھنگ سے تعلق رکھنے والے ایک رکنِ اسمبلی ایک استدعا کے ساتھ میاں شہباز شریف کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا : میں حمزہ سے کہہ دوں گا۔ انہوں نے ہاتھ جوڑ دیے : میاں صاحب! میرے ساتھ یہ سلوک نہ کیجیے ۔
تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ آئندہ مالی سال کے لیے متعلقہ محکمے پی اینڈ ڈی کا تیار کردہ ترقیاتی منصوبہ کئی دن سے وزیرِ اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کی میز پر پڑا ہے ۔ کئی دن سے وہ یاددہانی کرا رہے ہیں کہ حضور! آپ کو جو کرنا ہے ، کر گزریے ، 13جون کو بجٹ پیش ہونے والا ہے ۔ دستاویزات ہمیں اسمبلی میں پیش کرنی ہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ پنجاب میاں شہباز شریف کے رحم و کرم پر ہے ۔ ترقیاتی منصوبہ وہاں بنے گا، جہاں وہ پسند کریں گے ۔ راولپنڈی کو ضرورت رنگ روڈ کی ہے۔ پاکستان کا واحد شہر جو اس سہولت سے محروم ہے مگر روپیہ میٹرو بس پہ صرف ہوگا۔ اس کے نتیجے میں سو ڈیڑھ سو ارب روپے دوسرے شہروں پر بھی ، خواہ احتیاج ہو یا نہ ہو ۔ خاندان اور خوشامدیوں کے مشورے سے ترجیحات کا تعین وزیرِ اعلیٰ خود کریں گے ۔ ٹوکنے والا بھی کوئی نہیں ۔ برادرِ گرامی وزیراعظم ہیں ۔35 پنکچروں کی بدولت دو تہائی اکثریت اور لاہور کے اخبار نویس مثبت صحافت کا ایک نادر نمونہ ہیں ۔
واپڈا کی ممبر فنانس نیک نا م عارفہ صبوحی کو ان کے منصب سے ہٹا کر سول سروسز اکیڈمی بھیج دیا گیا ہے ۔ جرم ان کا یہ تھاکہ بجلی کے کشمیری نژاد وزیر خواجہ آصف کے بعض فیصلے ان کے نزدیک نا موزوں تھے ۔ ان کے خیال میں اربوں کے ضیاع کا باعث ۔ یادش بخیر نرگس سیٹھی اب اس محکمے کی سیکرٹری ہیں، جو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے لیے نکٹائیوں کا انتخاب کرتی اور انہیں جائز طریقے سے مالی حالت بہتر بنانے کے گر بتایا کرتی تھیں ۔ بجلی کے بحران سے نمٹنے کا ایک نادر طریقہ انہوں نے دریافت کیا ہے... وولٹیج کم کر دیجیے ۔ نتیجے میں ائیر کنڈیشنرکام ہی نہیں کرتے ۔ گیلانی صاحب نے کہاتھا : وہ میری کنڈولیزا رائس ہیں ۔ وہی انکل سام کی کالی وزیرِ خارجہ ، اپنی خود نوشت میں جنہوں نے لکھا کہ شوکت عزیز نے ان پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کی ۔ اسلام آباد کے ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان اس پر برہم ہو گئے ''ابے او گھی کے ڈبّے، یہ ہے تمہارا ذوق؟‘‘
ایک طلسمِ ہوشرباہے ، جو لکھی جا رہی ہے ۔ ایک اور شاہی خاندان ناکامی کے راستے پر بگٹٹ ہے ۔ سید الطائفہ جنیدِ بغداد ؒ نے کہاتھا: یہ کاروبارِ دنیا ہے ۔ ازل سے ایسا ہی ہو تا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ہاں ،ہاں ! مگر تاریخ کے چوراہے پر سوئے پڑے بیس کروڑ انسان؟ ع
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز