تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     12-06-2014

زندگی اور موت

عقل مندوں کا کہنا ہے تجربے کا کوئی نعم البدل نہیںہوتا، لیکن میں اُنہیں غلط ثابت کرنا چاہتی ہوں۔۔۔ یہ پیری نہیں بلکہ جوانی ہے جہاں سے دانائی، سچائی اور حوصلے کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ ولولہ انگیز جذبات سے لبریز نوجوانوں کے دل خوف اور خدشات سے پاک ہوتے ہیں۔ زندگی اورموت سے ماورا ہوکر وہ آمادہِ عمل رہنے میں اپنی شان سمجھتے ہیں۔ میں اپنے دعوے کے ثبوت میںایک نوجوان پاکستانی عورت کی کہانی آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتی ہوں جوخود دنیا میں موجود نہیں۔ زندگی میں امکانات کا حصول کس طرح ممکن ہوتا ہے؟ نو صدیاں پہلے شیخ سعدی نے یہ حقیقت ایک مصرعے میں بیان کر دی تھی: ''بزرگی بہ عقل است، نہ بہ سال‘‘
تین سال پہلے مومنہ چیمہ رات گئے نیویارک سے اپنے گھر لانگ آئی لینڈ جارہی تھی کہ اس کی کارکو مہلک حادثہ پیش آگیا۔ پچیس سالہ مومنہ اپنی والدہ طیبہ چیمہ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اس کے سامنے ایک روشن مستقبل تھا لیکن موت کا ظالم ہاتھ اُسے اپنے والدین اوربھائیوںسے ہمیشہ کے لیے چھین کے لے گیا۔ حادثے کے وقت مومنہ ورجینیا یونیورسٹی کے لا سکول میں زیرِ تعلیم تھی۔ طیبہ نیویارک سے شائع ہونے والے ایک اردو اخبارکی نمائندہ ہے۔ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے طیبہ اوراس کے شوہرڈاکٹر اختر چیمہ نے کہا کہ وہ اپنے ذاتی سانحے کوایک کامیابی میں ڈھال کر اپنی بیٹی کی یادکواس دنیا میں زندہ رکھیںگے۔ اُنہوں نے کہا: مومنہ کی یہ خواہش تھی کہ وہ پاکستان سے جہالت کا اندھیرا مٹاتے ہوئے دنیا کے سامنے اپنے ملک کا سافٹ امیج اجاگرکرے۔ مسٹر اخترکا کہنا تھا: ''مومنہ بہت پیاری بیٹی تھی۔ ہم اس کے بعد زندگی گزارنا مشکل پاتے ہیں، لیکن ہم اس کے بہت سے دوستوں، اساتذہ ، رشتہ داروں اور ان افرادکی طرف بندھائی جانے والی دھاڑس پر بے حد شکرگزار ہیں جو اس سے کبھی ملے بھی نہیں تھے‘‘۔
ڈیوک سے بی اے اور ہارورڈ سے ایم کرنے کے بعد مومنہ ورجینیا یونیورسٹی میں لاء کررہی تھی۔ اس کی ہلاکت کے بعد اس کے والدین نے ہمت نہ ہاری اوراپنے غم کو آنسوئوں میں ڈبونے کی بجائے ایک فائونڈیشن قائم کرکے علم کی شمع روشن کردی۔ انہیں یقین تھا کہ ایک دن اس کی روشنی بہت دور دور تک جائے گی۔ طیبہ نے مجھے بتایا: ''ہم نے ہارورڈ اور یونیورسٹی آف ورجینیا میں اپنی بیٹی کے نام سے سکالر شپ فنڈ قائم کردیا ہے ۔ یہ ان طلبہ کے لیے وقف ہے جو پاکستان اور اسلامی قوانین کی بہترین فہم رکھتے ہیں‘‘۔ ہارورڈ کے ڈیپارٹمنٹ Near Eastern Languages and Civilizations نے پی ایچ ڈی کے ایک طالبِ علم Daniel Majchrowicz کو ٹریول اینڈ ریسرچ فیلوشپ دیا۔ وہ2011ء میں لاہور آیا اوراردو سفرناموں کے ثقافتی، سماجی اورادبی اہمیت کے موضوع پر تحقیق کی۔ اس موضوع کو اس سے پہلے کوئی توجہ نہیں ملی تھی۔ 
ان کی بیٹی کی پہلی برسی پر لاہور میں پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے آڈیٹوریم میں ہونے والی ایک تقریب میں مومنہ کے والدین نے ان طلبہ کا استقبال کیا جنہیں مومنہ چیمہ فائونڈیشن کی طر ف سے قانون کی تعلیم کے لیے وظائف دیے گئے تھے۔ تحریک ِ انصاف کے رہنما عمران خان نے مومنہ کے والدین سے تعزیت کرنے کے لیے خط لکھا اورکہاکہ انہیں مومنہ کی جواں سال موت کا شدید صدمہ ہوا ہے۔ مومنہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیارکرچکی تھی۔ عمران خان نے لکھا: ''مجھے پاکستانی نوجوانوں پر پورا یقین ہے کیونکہ وہ تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ ملک کو جبر واستحصال کے پنجوں سے بچانے کے لیے میرے شانہ بشانہ کھڑے ہوںگے‘‘۔
عمران خان اپنی پارٹی کی کارکن کی موت پراس قدرافسردہ تھے کہ اُنہوںنے اپنے مضمون کے آغاز میں مشہور شاعرہ ایملی ڈکنسن کی نظم ''چونکہ میں موت کے لیے نہ رک سکی، وہ میرے لیے ٹھہرگئی‘‘ سے کیا ۔ پھر وہ لکھتے ہیں: ''دراصل زندگی اور موت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔کچھ لوگ زندہ رہ کر بھی کام نہیں کرسکتے اورکچھ لوگ مرنے کے بعد بھی دوسروں کے کام آ تے رہتے ہیں۔ ہماری مختصر زندگی کے ایام خداکی مرضی سے طے شدہ ہیں۔ ایک نہ ایک دن ہم نے یہاں سے چلے جانا ہے، اس کے بعد ہمیں ہمارے افعال واقوال کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا ؛ تاہم جب بھی کوئی جواںمرگ ہوتی ہے تو دل صدمے سے پارہ پارہ ہوجاتا ہے، خاص طور پر ان نوجوانوںکی موت بہت ہی المناک ہوتی ہے جو باصلاحیت اور ہونہار ہوتے ہیں اور ان میں آگے بڑھنے کی خواہش اورکچھ کرنے کی لگن ہوتی ہے۔ مومنہ چیمہ ایسی ہی ایک نوجوان تھیں۔ وہ ایک لائق طالبہ اور بے مثال مقرر تھیں، لیکن ان کا سب سے قابل ِ قدر جذبہ ان کی حب الوطنی تھی۔ وہ پاکستان اور اس کے لوگوںسے پیارکرتی تھیں اور ان کے لیے کچھ کرناچاہتی تھیں۔ وہ سماجی بہتری کے لیے کوشاں لوگوں میں سے ایک تھیں۔اس کے ساتھ ساتھ اسلام پسندی اور انسان دوستی ان کی فطرت کا حصہ تھی۔ وہ فلسفی شاعر علامہ اقبال کی بھی شیدائی تھیں اور اقبال کو بھی نوجوانوںسے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں‘‘۔
ہارورڈ یونیورسٹی کی طالبات صدف جعفر اور مچل حسون (Michal Hasson)کو 2013ء میں مومنہ چیمہ سکالر شپ ملا۔ صدف ''دانشور مسلم خواتین۔۔۔ عصمت چغتائی اورسماجی انصاف‘‘ پر ریسرچ کریںگی جبکہ مچل سترھویں اور اٹھارویں صدی میں شمالی انڈیا کے صوفی بزرگوں کی منظوم داستانوں پر مقالہ لکھیں گی۔ طیبہ اور ڈاکٹر چیمہ نے اپنی ہونہار بیٹی کی یاد میں فائونڈیشن قائم کی تاکہ اسلامی قوانین، پاکستانی کلچر اور فلسفے کی جانب طلبہ کو راغب کیا جاسکے۔
زندگی کچھ کرنے کا نام ہے، ورنہ چھ سات عشرے اس دنیا میں کھاتے پیتے گزارنا کون سا مشکل ہے۔ جب پاکستانی افراد کی اکثریت پر نظر جاتی ہے تو ایک سوچ دل میں جاگزیں ہوتی ہے کہ ہماری زیادہ تر زندگی کسی مقصدکے بغیر ہی بسر ہوجاتی ہے۔ ہم شارٹ ٹرم مقاصد کی تکمیل میں گزار دیتے ہیں ۔۔۔ جیسے حکومت دہشت گردی کے کسی واقعے کے فوراً بعد جاگتی ہے، اس واقعے کی مذمت کرتی اوردہشت گردوں سے لڑنے کا عہد کرتی ہے اور وہ دن اسی طرح بسر ہوجاتا ہے۔ دفاعی ادارے جواب دینے کے لئے کچھ بمباری کردیتے ہیں، ٹی وی پر پروفیسروں کے بیانات سنائے جاتے ہیں اور پھر امن کے ترانے شروع ہوجاتے ہیں ۔ ہم طویل مدتی منصوبہ بندی کے تحت زندگی گزارنے کی سوچ نہیں رکھتے۔ شاید اس کی وجہ ہمارے اندر اعتمادکا فقدان ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved