تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     12-06-2014

لڑکا ہے تو بہت اچھا۔۔۔۔لیکن ؟

آپ نے یہ لطیفہ ضرور سنا ہو گا کہ لڑکی والوں نے، بیٹی کا رشتہ کرنے کیلئے لڑکے کے چال چلن بارے، اس کے ہمسائے سے پوچھا تو وہ کہنے لگا ''لڑکا ہے تو بہت اچھا لیکن کبھی کبھی پان اور سگریٹ وغیرہ کاا ستعمال کر لیتا ہے۔ لڑکی والوں نے کہا یہ تو کوئی بات نہیں ۔ اس پر وہ کہنے لگا کہ یہ لڑکا ہے تو بہت ہی اچھا لیکن رات اکثر دیر گئے گھر آتا ہے اور سنا ہے کہ تھوڑا نشہ بھی کرتا ہے۔ یہ سن کر لڑکی والے خاموش رہے تو وہ بولا کہ جوا تو روزانہ ہی کھیلتا ہے ویسے لڑکا ہے بہت اچھا‘‘۔ میں جب بھی کہیں عسکری اداروں کے بارے میں ایک آدھ اچھی بات کے بعد، گھنٹوں اسی فوج کے خلاف، جھوٹ کی بھر مار دیکھتا ہوں، مجھے مذکورہ لطیفہ یاد آ جاتا ہے۔ ان خبروں اور نام نہاد تجزیوں کا مقصد پاکستانی اداروں کے وقار کو عوام کی نظروں میں بے وقعت کرنا ہوتا ہے۔
یاد ہو گا جب لوگ روٹی کپڑا اور مکان کے نعروں میں بہہ کرایوب۔۔۔۔۔ہائے ہائے کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ پھر جب نظام مصطفیٰ کے نعروں کی گونج میں ہر طرف آگ لگانے والے ایک دوسرے کو دشمن گردان کر کار ثواب سمجھتے ہوئے سیاسی مخالفین کو قتل کر نا شروع ہوئے تو اس وقت نہ تو کسی کو یہ خیال آیا کہ جس طرح روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ جھوٹ اوردھوکہ تھا، اسی طرح ان کا نظام مصطفیٰ کا نعرہ بھی فریب کے سوا اور کچھ نہیں۔ لوگوں نے یہ نہ دیکھا کہ روٹی کپڑے اور مکان کا نعرہ لگانے والے اپنے مزارعوں اور گھریلو نوکروں کو تو روٹی کپڑا اور مکان دے نہیں رہے، ہمیں کہاں سے دیں گے؟ یہ نہ سوچا کہ نظام مصطفیٰ کے نعرے لگانے والوں کے تو اپنے گھروں ، کارخانوں ، جاگیروں اور مدرسوں میں نظام مصطفیٰ کی ذرا سی جھلک بھی نہیں ہے یہ ملک میں کس طر ح نظام مصطفیٰ نافذ کریں گے؟یہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ سب توامریکی ڈالروں کی سرکس ہے۔ امریکہ، سرمائے کے زور پر پاکستان میں ، مطلب اور ڈھب کی حکومت لانا چاہتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور اس کے لیڈروں کو خرید کر ایمان افروز نعروں سے بیوقوف بناکر استعمال کر رہا ہے۔ تب کسی کو بھی ہوش نہ آیا اور پھر سب نے دیکھ لیا کہ '' نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘‘۔ 
ایک دن اسلام آباد میں سورج طلوع ہوا تو لوگوں نے ایک نیا منظر دیکھا کہ '' روٹی کپڑا اور مکان‘‘ اور نظام مصطفیٰ‘‘ کے نعروں کی طرح کا ایک نیا نعرہ '' عدلیہ کی آزادی‘‘ اچانک گونجنے لگا۔ لوگ جان نہ سکے کہ عدلیہ بحال کرو کا نعرہ بھی سوائے جھوٹ کے، کچھ نہیں تھا کیونکہ یہ بھی امریکہ کا نیا کھیل تھا ۔۔۔۔اس بار اس کھیل میں بعض گروپ امریکی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ،ہراول دستے کا کردار ادا کررہے تھے۔۔۔امریکہ کا ایجنڈہ یہ تھا کہ '' پاک فوج کو اس قدر بدنام کرو کہ عوام کے دلوں میں اس کی رتی برابر قدر نہ رہے۔ پھر جنرلوںکو کمزور کرکے مرضی کی عدلیہ اور اپنے ڈھب کی حکومت لائو۔ امریکہ نے یہ کام جنرل مشرف کو نشانہ بنا کر کیا۔ بد قسمتی سے کچھ پردہ نشین بھی سازش میں با قاعدہ شریک تھے۔ کیونکہ جنرل مشرف جنرل طارق مجید کو اپنی جگہ آرمی چیف مقرر کرنا چاہتے تھے، جو امریکہ کو قبول نہیں تھا ۔ جنرل مشرف کی آرمی چیف کی وردی والی تصویریں پورے ملک میں تقسیم کرائی گئیں ۔
ان پس پردہ ہاتھوں کا اصل نشانہ مشرف نہیں، بلکہ فوج اور فوج کے آرمی چیف کی وردی تھی؛ نظام مصطفیٰ کی تحریک کیلئے صرف ایک مارک ٹیلی تھا لیکن اب عدلیہ کی آزادی کے نئے نعرے کے نام پرامریکہ نے کئی مارک ٹیلی مہیا کر دیئے تھے۔
کیا یہ حیران کن نہیں کہ ''عدلیہ کی آزادی‘‘ کی تحریک سات مارچ 2007ء سے ایک سال سے بھی زیا دہ عرصہ تک مسلسل چلتی رہی ۔۔۔ اس طرح کی تحریکوں کیلئے پہاڑ جتنا سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ یہ سب سرمایہ کس نے مہیاکیا؟ پانچ پانچ سو کلو میٹر لمبی طویل کئی کئی دنوں
پر محیط ریلیاں کس طرح نکلتی رہیں؟اور پھر جب اسی تحریک کے دوران 6 ستمبر2007ء کا دن آیا تو بھارت جو کارگل کا بدلہ لینے کے لیے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے فوجی وردی پہنے جنرل مشرف کی تصویر کی تذلیل کرارہا تھا، خم ٹھونک کر میدان میں آ گیا ۔ افتخار چوہدری کی جانب سے ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ یوم دفاع پاکستان6 ستمبر کو'' یوم سیا ہ‘‘ کے طور پر منانے کا اعلان کر دیا گیا ۔ سب نے دیکھا کہ ہمارے وکلاء بھائی بھی روٹی کپڑا اور مکان اور نظام مصطفیٰ کے نعروں کی طرح عدلیہ کی آزادی کے نام پر ہوش و حواس کھو بیٹھے ۔ اس دن انہوں نے بار کونسلوں، اور اپنے دفاتر میں با زئوں پر سیا ہ پٹیاں باندھیں۔دلفریب نعروں اور لیڈروں کے جھوٹ نے ان کی عقل پر پٹی باندھ دی، انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ چھ ستمبر وہ دن تھا، جس دن جنرل چوہدری نے جم خانہ کلب لاہور میں داد عیش دینے کا اعلان کیا تھا ۔جب اس کی فوج نے واہگہ بارڈر اور مقبوضہ کشمیر سے پاکستان کی ہزاروں مائوں بہنوں اوربیٹیوں کو اٹھا لیا تھا اور پھر ان کی عصمتوں کو پا مال کیا تھا۔۔۔ وکلاء بھائیوںنے گمراہ کن بھارتی پراپیگنڈہ کے دلفریب نعروں کے زیر اثر یہ نہ سوچا کہ یوم سیا ہ پانچ ستمبریا سات ستمبر کو بھی منایا جا سکتا تھا ۔یہ چھ ستمبر ہی کو کیوں یوم سیاہ
منایا جا رہا ہے؟ لیکن اس وقت ان کی آنکھوں پر امریکہ اور بھارت کے زہریلے پروپیگنڈا کی پٹی بندھی تھی۔ایک گروپ امریکہ کی اس سازش کو کامیاب بنانے میں ایک دوسرے کابا قاعدہ ساتھ دے رہا تھا ؛لیکن یہ ٹولہ سر ونسٹن چرچل کے ان الفاظ کو یکسر بھول گیا تھا:
''The armed forces are not like a limited liability company, to be reconstructed from time to time as the money fluctuates. They are not inanimate things, like a house to be pulled down or enlarged or structurally altered at the caprices of the tenant or owner. They are living things, if they are bullied, they sulk, if they are happy, they pine, if they are harried, sufficiently they get feverish, if they are sufficiently disturbed, they will wither and dwindle and almost die, and when it comes to this last serious condition, it is only revived with lots of time and lots of money.''

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved