کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے ۔یہاں پاکستان کے ہر شہر سے گئے ہوئے لوگ آباد ہیں۔ کراچی کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ سمندر کے کنارے آباد یہ ایک خوب صورت شہرہے۔ اسی کراچی میں اتوار اور پھر سوموار کی رات تک جو کچھ ہوا‘ اس کی مذمت کے لیے میرے پاس الفاظ موجود نہیں۔ ایئرپورٹ جیسے حساس علاقے میں دہشت گرد گھس کر ‘ جس طرح کی کارروائی کرتے ہیں اس پر کفِ افسوس ملنے کو جی چاہتاہے۔ کراچی جتنا حساس ترین شہر جو بھتہ خوری اور دہشت گردی کی آماجگاہ ہے‘ وہاں امن و امان قائم کرنے والے اداروں کوعام حالات سے زیادہ چوکس اور مستعد ہونا چاہیے۔
کڑی کمانوں کے تیر بے اعتبار ہاتھوں میں آ گئے ہیں
سزا نئی تھی سو اب یہ خمیازۂ اثر بھی نیا نیا ہے
سچی بات ہے‘ دہشت گردوں کے کراچی ایئرپورٹ پر حملے سے زیادہ افسوس اور ماتم سندھ حکومت کی غفلت پر کرنے کو جی چاہتا ہے۔ دشمن نے تو جو کارروائی کرنا تھی کر گزرا مگر جو کراچی انتظامیہ نے ان لوگوں کے ساتھ کیا‘ جو بدقسمتی سے ایک نجی کمپنی کے کارگو گودام میں موجود تھے،وہ ناقابل قبول تھا۔ دہشت گردی کی کارروائی کے نتیجے میں وہاں آگ بھڑک اٹھی۔ اس آگ کو بجھانے کے لیے فائر بریگیڈ کئی گھنٹے کی تاخیر سے پہنچا۔ آگ میں گھرے ہوئے لوگ اپنے اپنے لواحقین کو فون پر اطلاع دیتے رہے کہ ان کے ساتھ کیا سانحہ گزر رہا ہے۔ ان کے رشتہ دار کارگو سنٹر کے باہر موجود‘ دہائی دیتے رہے کہ اندر لوگ موجود ہیں ،آگ بجھانے کے انتظامات کیے جائیں۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ انتظامیہ ہماری بات نہیں سن رہی تھی ۔
میڈیا پر یہ صورت حال دکھائی گئی تو پورے دن کے بعد رات آٹھ نو بجے چیف سیکرٹری اور کمشنر کراچی وہاں پہنچتے ہیں اور میڈیا کے سامنے نمبر بنانے کی ناکام کوششیں کرتے ہیں۔حقیقتاً سندھ حکومت نے انتہائی بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ اتنے بڑے سانحے سے نمٹنے کے لیے پورے کراچی میں فائر بریگیڈ کی مطلوبہ گاڑیاں موجود نہ تھیں جو موقع پر پہنچتیں اور آگ بجھاتیں۔ یقینا آگ ایک دم تو اتنی نہیں بھڑکی ہوگی۔ آگ لگنے کے کافی دیر تک اندر موجود بدقسمت لوگوں کا اپنے رشتہ داروں سے رابطہ رہا۔ وہ اندر دہائی دیتے رہے کہ ہماری زندگیاں بچانے کی کوشش کرو۔ ادھر ان کے رشتہ دار، حکمرانوں کی بے حسی کا ماتم کرتے رہے‘ اندازہ لگایئے کہ چیف سیکرٹری سندھ‘ سانحے کی جگہ پہنچ کر پہلا بیان یہ دیتے ہیں کہ اندر کوئی زندہ نہیں بچا ہوگا۔ یعنی ریسکیو کی کارروائی کرنے سے پہلے ہی ایسا بیان دے کر‘ تڑپتے ہوئے لوگوں کے زخموں پر اور نمک چھڑکا گیا۔ سندھ کے حکمران سائیں قائم علی شاہ کراچی پر گزرنے والے اس سانحے اور بعدازاں کارگو سنٹر میں زندہ جل کر مرنے والوں کی آہ و بکا کے بعد بھی روایتی اطمینان اور تسلی کی کیفیت میں دکھائی دیئے بلکہ انہوں نے بڑے آرام سے فرما دیا کہ ایئرپورٹ پر حملہ اور سکیورٹی
کی ناکامی پر ان کی حکومت قطعاً ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے۔یہاں تک فرمایا کہ ائیرپورٹ کراچی کی حدود میں ہی نہیں آتا۔ ایئرپورٹس کے معاملات وفاقی حکومت کے اختیار میں ہیں۔ بھلا ہو ان کا کہ انہوں نے یہ اطلاع بھی دی کہ سندھ حکومت کی رٹ پوری طرح قائم ہے۔ ظاہر ہے جب قائم علی شاہ وزیراعلیٰ ہوں گے تو رٹ کو تو قائم ہی رہنا ہے ناں۔ بھلے ان کی بادشاہی میں روزانہ غریب اور بے کس لوگ‘ گولیوں کا نشانہ بنتے رہیں‘ وارداتیں کرنے کو شہر میں دندناتے پھریں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ شہر کے اندر مصروف راستوں سے دہشت گرد بھاری اسلحہ لیے‘ خودکش جیکٹس پہنے‘ راکٹ لانچر اٹھائے‘ بڑے اطمینان سے گھومتے گھماتے کراچی ایئرپورٹ کے اولڈ ٹرمینل
سے اندر داخل ہو کر‘ دہشت گردی کی ایک بڑی کارروائی کامیابی سے کر گزریں‘ کارگو گودام میں کراچی کے شہری جو بدقسمت رعایا ہیں، وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں زندہ جل کر مر جائیں اور مرنے سے پہلے چیخ چیخ کر مدد کی دہائی دیتے رہیں تو حکمران کہیں کہ ہماری انتظامیہ اس لیے حرکت میں نہیں آئی کہ کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والی سکیورٹی کی ناکامی کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے۔ سندھ حکومت کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن جو حکومت کے سرکاری ترجمان ہیں۔ بار بار ٹی وی پر یہی بیان دیتے رہے کہ ہم تمام رات وزیر داخلہ کا انتظار کرتے رہے۔ اپنی ناکامی کا ملبہ وزیر داخلہ پر ڈال کر سندھ حکومت کی پشیمانی اور غفلت کو وفاقی حکومت کے کاندھوں پر ڈال کر وہ بھی پر سکون نظر آئے۔ ایسے حالات میں جب دشمن نے اتنی کاری ضرب لگائی ہو اور حکومت کے زیر اثر اداروں نے اتنی غفلت اور بے حسی کا مظاہرہ کیا ہو تو ذمہ داری کا جو بوجھ اور صورت حال کی سنگینی کا جو احساس ان کے لہجے میں ہونا چاہیے تھا‘ وہ بالکل نہیں تھا۔ بلکہ گھر میں لگی آگ بجھانے اور صورت حال پر اپنی تمام تر استطاعت اور صلاحیت کے ساتھ قابو پانے کی بجائے سندھ حکومت سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور الزام تراشی میں ہی مصروف رہی۔
ایک دفعہ پھر یہی بات کہنے کو جی چاہتا ہے کہ سچی بات ہے دہشت گردی کے بے شمار سانحے ہم آئے دن دیکھتے رہتے ہیں‘ لیکن کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والے سانحے سے جڑے‘ کارگو گودام والے افسوسناک حادثے پر حکمرانوں کی بے حسی اور لاتعلقی کا ایسا مظاہرہ پہلے کبھی نہیں دیکھا! بڑی سے بڑی کارکردگی کی حامل حکومت بھی ایسے حالات میں اپنے تئیں مستعدی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر یہاں تو ایسی کوشش بھی کہیں دکھائی نہیں دی۔
تشویشناک صورت حال یہ ہے کہ اس جنگ میں ہمارا دشمن بہت چالاک‘ منظم‘ جدید ترین اسلحے سے لیس اور اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں پہلے سے زیادہ پرعزم ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ہم حالات کی سنگینی سے غافل ہیں۔ سب سے پہلے تو اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے جنگی بنیادوں پر جو تیاریاں ہونی چاہئیں ویسی ہی کارکردگی درکار ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لے کر انٹیلی جنس اداروں تک‘ ریسکیو سروس سے لے کر ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے محکمے تک ہر شے کو جدید خطوط پر منظم کرنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ایسے افراد کو لانا ہو گا جو ذمہ داری اور مستعدی میں اپنی مثال آپ ہوں اور ایسی ٹیم کے لیڈر یعنی حکمران بھی ایسے ہوں جو اپنی کوتاہی اور ناکامی کا بوجھ اٹھانا جانتے ہوں کیونکہ جب تک کوتاہی کا احساس نہیں ہوگا‘ بہتری کی طرف سفر شروع نہیں ہو سکتا۔ مولانا حالی کی غزل کا ایک شعر حسبِ حال ہے ؎
حملہ اپنے پہ بھی اک بعدِ ہزیمت ہے ضرور
رہ گئی ہے یہی اک فتح و ظفر کی صورت!