کثرت کی آرزو نے تمہیں برباد کر ڈالا
حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں
بے شک جلد تم جان لو گے
پھر بے شک جلد ہی تم جان لوگے
میر شکیل الرحمن اور میاں محمد نوا زشریف کچھ ہی کر گزریں ۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بیس کروڑ انسانوں کی یہ قوم نریندر مودی کے سامنے سربسجود ہو جائے ۔ اندرا گاندھی ، یحییٰ خاں ، شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو ، پچھلوں کا انجام ہمارے سامنے ہے ۔ آئندہ بھی پاکستان سے بے وفائی کا جو ارتکاب کرے گا، اس کا انجام مختلف نہ ہو گا۔ ہمیشہ کے لیے وہ نمونۂ عبرت رہے گا۔ جب تک گردشِ لیل و نہار قائم ہے ، اس کا نام رنج اور ملال سے لیا جائے گا۔ تاریخ کے قبرستان میں جن لوگوں کی قبروں پر حسرت کے کتبے نصب ہوں گے ۔
وزیراعظم پاکستان کا دورۂ بھارت ایک آزاد ملک کے حکمران کی بجائے ایک تاجر کا پھیرا نظر آتا ہے۔ اپنے صاحبزادے کو ساتھ لے گئے اور سیاستدانوں سے زیادہ کاروباریوں سے ملے۔ جندال سجن کے دولت کدے پر وہ تشریف لے گئے ، جسے بھارت میں فولاد کا بادشاہ کہا جا تاہے ۔ اس کے ساتھ مشترکہ منصوبوں کی انہوں نے بات کی ۔ پاکستان یا اتفاق کی طرف سے ؟ اگر یہ ملک کے لیے ہوتا تو فرزند کی بجائے ، کوئی سرکاری شخصیت ان کے ہمراہ ہوتی۔ پھر زی ٹی وی کے دو اہم عہدیداروں سے انہوں نے ملاقات کی ۔ پاکستان کی رائے عامہ کے لیے، جو ٹاک شوز سے بیزار ہو کر پھر سے ڈراموں کی طرف مائل ہے ، انہوں نے ایک چینل جاری کرنے کا بندوبست کیا ہے ۔
چوہدری عبد الرشید پیمرا کے چیئرمین تھے تو یہی لوگ وزیراعظم کی سفارش کے ساتھ ان سے ملے تھے ۔ چوہدری نے یہ کہا: اس طرح کے معاملات دو طرفہ ہو اکرتے ہیں۔ آپ لوگ بھار ت میں پی ٹی وی دکھانے کی اجازت دے دیں ۔ اس کے جواب میں آپ کی درخواست پر ہم غور کریں گے ۔ ان لوگوں نے کہا : وزیراعظم نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی۔ سرکاری افسر کا موقف یہ تھا کہ وہ قومی قوانین کے پابند ہیں ۔ وزیراعظم سے ذاتی دوستی کے دعویدار یہ صاحب بضد ہوئے تو چوہدری نے کہا "Over my dead body" میری لاش سے گزر کر ہی یہ فیصلہ نافذ کیاجاسکتاہے ۔ میر شکیل الرحمن پہلے ہی ان سے ناراض تھے کہ نون لیگ کا حلیف ہونے کے باوجود، پیمرا ان کے احکامات کی تعمیل کیوں نہیں کرتا (جب کہ فواد حسن فواد اشارۂ ابرو کے منتظر رہتے ہیں )۔ میڈیا گروپ نے کردار کشی کی مہم برپا کر رکھی تھی ۔ اس جسارت کے بعد وہ ناقابلِ برداشت ہو گئے اور برطرف کر دیے گئے ۔
کیا پاکستان کو بھارتی فلمی صنعت اور ٹی وی کے بھانڈوں کی چراگاہ بنانے کا فیصلہ کیاجا چکا؟ بھارت کا ایک صوبہ بنانے کا؟ پہلی بات یہ ہے کہ نریندر مودی نے، مسلمانوں کے قاتل وزیراعظم نے میاں صاحب کو براہِ راست فون کیا او رذاتی طور پر دہلی آنے کی دعوت دی ۔ فورا ہی یہ دعوت انہوں نے قبول کر لی مگر یہ کہا کہ اعلان وہ بعد میں کریں گے ۔ دو دن تک مشاورت کا کھیل کھیلا جاتا رہا۔ اپنے وزرا اور سنگی ساتھیوں کے علاوہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سے انہوں نے بات کی۔ معلوم نہیں ، انہوں نے کیا مشورہ دیا ۔ جنرل کو معلوم تھا کہ وہ وعدہ کر چکے ہیں ۔ا س ڈرامے کامطلب کیا تھا ؟ اس تماشے کی ضرورت کیا تھی ؟
اب پلٹ کر دیکھیں تو احساس ہوتاہے کہ وزیراعظم کو دہلی جانے کی ضرورت ہی نہ تھی ۔ پاکستانی قوم کے لیے دہلی سے وہ خفت اور شرمندگی لے کر آئے ۔ جی نہیں ، نفرت کا کاروبار نہیں ، جنگ آزمائی نہیں ، صلح اور مفاہمت ۔ ایک اندھا بھی جانتا ہے کہ دشمنی اور تصادم کا طویل پسِ منظر رکھنے والی دو ریاستوں کے درمیان امن کا قیام خوف کے توازن سے قائم ہوتا ہے۔ ایک بدنہاد پڑوسی کے ساتھ اگر آپ کو گزارا کرنا ہو تو زیادہ سے زیادہ کتنی رعایت آپ دے سکتے ہیں ؟ زیادہ سے زیادہ یہ کہ جواب میں آپ شائستگی اختیار کریں ۔ سپر انداز تو آپ نہیں ہوتے ۔ نگران وزیرا علیٰ نجم سیٹھی ، پنجاب پولیس ، ریٹرننگ افسروں ، عرب ممالک اور انکل سام کی مدد سے میاں صاحب ''منتخب‘‘ ہو چکے تو پاکستانی فوج کا سپہ سالار ان کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ نہایت ادب کے ساتھ اس نے انہیں سمجھایا کہ بھارت کے ساتھ مراسم کی بہتری معمول کے سفارتی انداز میں ہونی چاہیے۔ ثانیاً طالبان کے ساتھ مذاکرات ہی کرنا ہیں تو تین چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ اوّل یہ کہ مذاکرات آئین کے دائرے میں ہونے چاہئیں، ثانیا ً لا محدود مدت کے لیے ہرگز نہیں ، ثالثاً طالبان کے حامی ان مولوی صاحبان کو شریک نہ کیا جائے ، جو اسے ہائی جیک کرنے کی کوشش کریں ۔ فوج سے نفرت کرنے والے لیڈر نے طے کر لیا کہ ہرگز وہ ان مشوروں پر عمل نہ کریں گے ۔ باقی معاملات میں جس طرح وہ من مانی کرتے ہیں ، اس میں بھی کر کے رہیں گے ۔ غالباً اسی لیے سرتاج عزیز اور طارق فاطمی ایسے ماہرین کی موجوگی کے باوجود انہوں نے وزیرخارجہ کے تقرر سے گریز کیا۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔
نہایت ہی قابلِ اعتماد ذرائع کے مطابق، اور ان میں ایوانِ وزیراعظم کی معتبر شخصیات شامل ہیں ، تین باتیں قاتل نریندر مودی سے وزیراعظم نے کہیں ۔ اوّل یہ کہ الٰہ باد کے سانحہ کو وہ بھول چکے اور اب آگے بڑھنا چاہیے، ثانیاً پاک بھارت جامع مذاکرات کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں ، کشمیر سمیت ہر موضوع پر افسر لوگ بات کر سکتے ہیں یا پسِ پردہ سفارت کاری۔ پھر کراچی، بلوچستان اور قبائلی پٹی میں تخریب کاروں کی مدد کرنے والے دہلی کے نئے حاکم سے انہوں نے یہ کہا : افغانستان سے امریکیوں کی واپسی کے بعد اگر کوئی مسئلہ درپیش ہو تو آپ مجھ سے بات کر سکتے ہیں۔ کیا تاریخ نے ایسا کوئی حاتم طائی دیکھا ہے، جو اپنے دشمن کے ساتھ ایسی فراخ دلی کا مظاہرہ کرے ؟ صلاح الدین ایوبی کو میاں صاحب نے مات کر دیا ، میدانِ جنگ میں جس نے رچرڈ کو ایک گھوڑا عطا کیا تھا،جب وہ اس سے محروم ہو گیا۔ اس کے علاج کا بندوبست کیا، جب وہ بیمار ہو گیا۔
اب وہ اور آگے بڑھے ہیں اور مسلمانوں کے دشمن کو اس وقت محبت بھرا پیغام بھیجا ہے ، جب اکثر کاخیال یہ ہے کہ کراچی ائیرپورٹ کے خونیں واقعات میں بھارت ملوّث ہو سکتاہے ۔ انہیں اس کی ضرورت کیوں آپڑی تھی؟ میر شکیل الرحمن یک طرفہ امن کی آشا پہ کیوں مصر ہیں ؟ وہ دونوں ایک دوسرے کے ہم نفس کیوں ہیں ، جب کہ خواجہ آصف کے بقول مشکوک میڈیا گروپ ملک دشمنی کا مرتکب ہوا ؟ اس ادارے کے لیے سرکاری اشتہارات کیوں برقرار ہیں ؟ پوری قوم کی طرف سے مسترد کیے جانے کے باوجود اسے بچالے جانے کی فکر انہیں کیوں لاحق ہے ؟
پوری کی پوری نون لیگ میں کوئی ایک صاحبِ حمیت بھی نہیں کہ جو اٹھ کھڑا ہو اور سوال پوچھے ۔ انتہا یہ ہے کہ خطے میں امریکی پالیسیوں کی اندھی تقلیدکر نے والی پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ بول اٹھے مگر نون لیگ؟ ع
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے
پنجاب کے کاروباریوں کا ایک گروہ ہے ، جو دہلی کے ساتھ لین دین میں اربوں کی یافت کے خواب دیکھتا ہے۔ پیسے کے پوت۔ یہ قابلِ فہم ہے مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آتی ۔ حبّ وطن کی بے داغ تاریخ رکھنے والی جماعتِ اسلامی کیوں خاموش ہے؟ عمران خان کیوں خاموش ہیں ؟ کیا کوئی سنتا ہے یا سب کے سب سو گئے ؟ کیا کوئی جیتاہے یا سب مر گئے ؟ لیڈر وہ لوگ ہوتے ہیں ، جو قوم کی آرزو کو پہچان سکیں ۔ افسوس کہ آج ایک بھی لیڈرنہیں ۔ بغیر سر کا دھڑ! رہے نواز شریف توان کا معاملہ بالکل ہی دگرگوں ہے ۔
کثرت کی آرزو نے تمہیں برباد کر ڈالا
حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں
بے شک جلد تم جان لو گے
پھر بے شک جلد ہی تم جان لوگے