تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     13-06-2014

چین کے ساتھ نیا باب

چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے بھارت آکر ہماری خارجہ پالیسی کے ایک خالی کونے کو بھر دیا۔نریندر مودی نے اپنی تقریب حلف برداری میں پڑوسی ملکوں کے سربراہوں کو بلایا لیکن چین کے کسی لیڈر کو نہیں بلایا۔کیا چین ہمارا پڑوسی نہیںہے؟ وہ تو ہمارا سب سے بڑا پڑوسی ہے۔ بہرحال اسے نہ بلانے کے پیچھے کئی ا سباب ہیں۔ میں ان میں ابھی نہیں جانا چاہتا لیکن مجھے یقین ہے کہ اگلی بار جب نریندر مودی حلف لیں گے۔ تو اس وقت چین کے وزیر اعظم بھی ہمارے صدارتی محل میں بطور مہمان موجود ہوں گے۔ 
اس منزل کی جانب ابھی سے قدم بڑھنے شروع ہو گئے ہیں۔ وانگ ژی کا فوراً بھارت آنااور وزیر خارجہ سشما سوراج کے ساتھ سنجیدہ گفتگو کرنا یہی ثابت کرتا ہے کہ چین اس نئی سرکار کے ساتھ اپنے رشتوں کو نئی اونچائیوں پر لے جانا چاہتا ہے۔چینیوں کو پتہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کے طور پر مودی چار بار چین جا چکے ہیں۔ آج تک بھارت کا کوئی بھی بڑا سربراہ چار بار چین نہیں گیا۔ مودی‘ چین سے اور چینی لیڈر مودی سے کافی متاثر ہیں۔دونوں وزرائے خارجہ کے بیچ کیا بات چیت ہوئی؟ اس کا خلاصہ یہ ہے: 
وانگ ژی نے سرحدی تنازع کو لے کر وہ چینی نظریہ پھر دہرایا کہ اس تنازع (تکرار) پر پُر امن بات چیت چلتی رہے گی لیکن اس کے سبب ہماری تجارت ‘سیاسی اور ثقافتی تعلقات میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔ حدودی تکرار (سرحدی تنازع) کو سلجھانے کے لیے طرفین کے حکام جلد ملیں گے۔ دونوں ملکوں کے درمیان 70 بلین ڈالرکی تجارت کو اگلے دو تین سالوں میں100بلین تک پہنچانا ہے ۔لیکن اس میں ایک اڑچن ہے۔بھارت کے مال کی نکاسی (برآمدات) کم ہے اور درآمدات زیادہ ہیں۔ ابھی 70 بلین کی تجارت میں بھارت کا تجارتی نقصان31 بلین ڈالر کا ہے ۔سشما سوراج نے وانگ ژی سے کہاکہ وہ بھارتی مال کے لیے چینی بازاروں کو کشادہ دلی کے ساتھ کھولیں۔ 
بھارت اور چین کے درمیان ٹیکنالوجی کے مزید شعبوں میں تعاون کی تلاش پر بھی بات ہوئی۔ وانگ ژی نے بھارتیوں کو بتایا کہ چین اگر ہارڈویئر میں مضبوط ہے تو بھارت سوفٹ ویئر میں بہت آگے ہے۔اگر دونوں ملک اقتصادی شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون کریں تو 21 ویں صدی ایشیا کی صدی بن سکتی ہے۔ بھارت اور چین میں زمانۂ قدیم سے گہرے تہذیبی تعلقات رہے ہیں۔ ان میں مزید اضافہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ مودی نے وانگ ژی کو یاد دلایاکہ معروف چینی سیاح ہیون سانگ گجرات (کاٹھیاواڑ) بھی گیا تھا۔ اس زمانے میں چینی لوگ بھارت کو 'استاد ملک‘اور'مغربی جنت‘کہتے تھے۔وانگ نے پنچ شیل کے 60 سال منانے کے لیے بھارتی صدر کو چین آنے کی دعوت دی۔ دونوں وزرائے اعظم نے بھی ایک دوسرے کو دعوت دی۔سشما جی نے کیلاش مانسرور (ہندوئوں کا پوتر استھان) کے سفر کو بھارتیوں کے لیے پُرسہولت بنانے پر زور دیا۔ چینی سیاحوں کو بھی بڑے پیمانے پر راغب کرنے کی بات ہوئی ؛ چنانچہ اس لحاظ سے چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کا بھارت کا دورہ مفید اور کامیاب رہا۔ مجموعی طور پر چینی وزیر خارجہ کایہ دورۂ بھارت با مقصد اور اچھا رہا۔ امید ہے کہ اب چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات کا نیا باب کھلے گا۔ 
صدر مملکت پرناب مکھرجی کے منہ سے یہ بات سن کر کتنا اچھا لگ رہا تھا کہ یہ 'میری سرکار ہے‘۔ صدر مملکت کے علاوہ کوئی اور شخص نریندر مودی کی سرکار کو'میری سرکا ر‘ کہہ دیتا تو اتنا عجیب نہ لگتا۔ صدر مکھر جی پچھلے چالیس سال سے نہرو خاندان کے سپاہی 
اور وفاداروں میں سے ہیں۔ ان کے منہ سے مودی سرکار کے لیے 'میری سرکار‘ کے الفاظ ایسے ہیں‘ جیسے پھول جھڑ رہے ہوں۔ یہ الفاظ بھارتی جمہوریت کی بڑائی اور استحکام کے آئینہ دار ہیں۔ کوئی لیڈر کسی بھی پارٹی کا ہو‘ اگر وہ اپنے آئینی عہدے کی بڑائی بنائے رکھے‘ تو یہ بڑی بات ہے۔ اس بار بھارتی صدر نے پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن کو خطاب کرتے ہوئے اتنے زیادہ وعدے کیے‘ دلاسے دیے اور خواب دکھائے ہیں کہ اب سے پہلے شاید ہی کسی سرکار نے کیے ہوں گے۔ یہ وعدے کیا ہیں‘ ان میں بی جے پی کے منشور پر تائید کی مہر لگانا بھی ہے۔ منشور میں اس قسم کے سہانے خواب دکھانا ہر پارٹی کی چال ہوتی ہے ۔انتخابات کے بعد اس منشور کے وعدے نہ تو لیڈروں کو یاد رہتے ہیں نہ عوام کو۔ وہ صرف ''رات گئی بات گئی‘‘ بن کر رہ جاتے ہیں لیکن یہ خوشی کی بات ہے کہ مودی سرکار نے منشور کے تقریباً سبھی وعدوں کو دوبارہ صدر مملکت کے منہ سے کہلوا دیا ہے۔ 
غریبی ہٹانا‘مہنگائی روکنا‘سب کو روزگار دینا‘ دن رات بجلی‘ پانی مہیا کرانا‘ہر گھر کو پکا بنانا‘ہر گھر میں واش روم ہونا‘چھوٹے شہروں میں بھی ہوائی اڈے بنوانا،سینکڑوں ہسپتال اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ادارے کھولنا ‘سارے ملک کے راستوں کو ایک دوسرے سے جوڑنا‘دہشت گردی‘ بد عنوانی‘ خواتین کے عدم تحفظ وغیرہ کو ختم کرنا۔کالا دھن واپس لانا۔خارجہ پالیسی اور وزارت دفاع میں نئی شروعات اور سرکاری کام کاج بھارتی زبانوں میں کرنا‘ یہ سب ایسے وعدے ہیں کہ اگر پورے ہو گئے تو بھارت کو اکیسویں صدی کا عظیم ترین ملک بنا سکتے ہیں‘ 21 ویں صدی کو ایشیا کی صدی بنا سکتے ہیں۔
اگر اگلے ایک سال میں یہ سرکار اس لمبے چوڑے منشور کے ایک چوتھائی حصے کو بھی لاگو کر سکے تو حقیقت میں معجزہ ہو جائے گا۔ سبھی سیاستدان ہوائی قلعے باندھنے اور لوگوں کو سبز باغ دکھانے کے فن میں طاق ہوتے ہیں۔ کئی لیڈر اپنے وعدوں میں مخلص بھی ہوتے ہیں۔ جو کہتے ہیں‘اسے سچ ثابت کرنا بھی چاہتے ہیں لیکن نکمی نوکر شاہی‘نکھٹو کارکن اور سست عوام کے سبب وہ کچھ نہیں کر پاتے ۔بڑے بڑے لیڈر نوکر شاہی کی نوکری کرنے لگتے ہیں۔ خود غرض پارٹی کارکن جیبیں بھرنے لگتے ہیں اور عوام کی سُستی دیکھ کر ٹھپ ہو جاتے ہیں۔ امید ہے کہ مودی اس قسم کی سیاست سے دور رہیں گے۔ وہ نوکر شاہی کے کھلونے نہیں بنیں گے اور عوام کو جگائے رکھنے پر سب سے زیادہ زور دیں گے۔ اگر عوام جاگتے رہے اور انہوں نے اپنی کمر کسے رکھی تو یقین ہے کہ مودی کامیاب ہوں گے۔ آخری سوال‘ کہ بھارتی صدر کو اپنا خطاب‘ ملکی زبان میں دینے کے لیے کیوں نہیں کہا گیا؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved