لیوس شہر کے مشہور پاکستانی ہارٹ سپیشلسٹ ڈاکٹر احتشام قریشی کا فون پر ٹیکسٹ میسج تھا ۔ شاہ جی سلیزبیری شہر جارہا ہوں ۔ چلنا ہے تو تیار ہوجائیں۔ میں ٹھہرا پرسکون جنوبی پنجاب کا ایک روایتی سست سرائیکی ۔ بادل چھائے ہوئے تھے۔ بستر سے اٹھنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا ۔ میں نے جواباً ٹیکسٹ بھیجا‘ پھر کبھی سہی۔ جواب آیا ۔ شاہ جی آپ بھول رہے ہیں۔ وہاں امریکہ کی کتابوں کی مشہور دکان Barnes&Noble ہے اور آج ہی ہلیری کلنٹن کی کتاب فروخت کے لیے پیش ہورہی ہے۔ میں نے لکھ بھیجا‘ یہ تو رشوت کے ساتھ ساتھ آپ مجھے بلیک میل بھی کر رہے ہیں! ایک گھنٹے بعد کتابوں کی چین پر رکے۔ ایسی شاندار کتابیں کہ منہ کی بجائے آنکھوں میں پانی بھر آیا۔ لینے گئے تھے ہلیری کلنٹن کی کتاب اور لے کر لوٹے سات کتابیں... واپسی پر ڈاکٹر احتشام کچھ بولنے لگے تو میں نے ہنستے ہوئے کہا‘ بھائی جان‘ اب آپ گاڑی چلائیں‘ مجھے ذرا ہلیری کلنٹن کا وہ باب پڑھنے دیں جب وائٹ ہائوس کے آپریشن روم میں بیٹھ کر ایبٹ آباد میں اسامہ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
سی آئی اے کو دسمبر 2010ء میں ہی پتہ چل گیا تھا کہ اسامہ ایبٹ آباد میں چھپا ہوا ہے؛ تاہم ہلیری کلنٹن کو تین ماہ بعد سی آئی اے کے چیف لیون پینٹا نے ایک دوپہر کھانے پر بلایا تو انکشاف کیا کہ اسامہ پاکستان کے اندر مل گیا ہے۔ وائٹ ہائوس میں سوچ بچار ہونے لگی کہ کیا ہونا چاہیے۔ یکم مئی کو حملے سے پہلے 28 اپریل کو صدر اوباما نے تھوڑے سے لوگوں کا اجلاس بلالیا جن میںاوباما، نائب صدر جوزف بائیڈن، سی آئی اے چیف لیون پنیٹا، ہلیری کلنٹن، وزیردفاع باب گیٹس، نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور سی آئی اے کے دو ایجنٹ شامل تھے جو دس برس سے اسامہ کو تلاش کرنے پر مامور تھے۔ بحث شروع ہوگئی کہ کیا جائے۔ سب سے پہلے مشورہ دیا گیا کہ کیوں نہ پاکستان کو بتا کر آپریشن کیا جائے۔ اس آپشن کو مسترد کر دیا گیا ۔ یاد دلایا گیا کہ ماضی میں مختلف موقعوں پر پاکستان کے ساتھ ایسی اطلاعات شیئر کی گئی تھیں اور پاکستانیوں نے آپریشن
سے پہلے ہی ٹارگٹ کو وہاں سے فرار کرا دیا تھا ۔ دوسرا آپشن تھا کہ ڈرون کے ذریعے حویلی کو اڑایا جائے۔ خطرہ تھا کہ لوگ مارے بھی گئے تو بھی کوئی یقین کیسے کرے گا کہ ان میں اسامہ شامل تھا اور اس کی لاش کیسے ملے گی۔ پھر عورتیں اور بچے بھی موجود تھے۔ تیسرا آپشن تھا کہ ایک بھاری بم وہاں گرا دیا جائے۔ مگر اس سے پورے ایبٹ آباد میں تباہی مچ سکتی تھی۔ اب آخری آپشن بچ گیا تھا‘ جس کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے سب ڈر رہے تھے۔ یعنی زمینی آپریشن کیا جائے اور پاکستان کو بھی نہ بتایا جائے۔ تاہم اس میں خطرات بہت زیادہ تھے اور سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ پاکستان کا وقار بری طرح مجروح ہوسکتا تھا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ امریکی فوجیوں کو پکڑ لیا جاتا یا پھر ان کے ساتھ پاکستانی فوجیوں کا ٹکرائو ہو جاتا۔ 1980ء میں ایران میں یرغمالیوں کو چھڑانے کے لیے آپریشن کی یادیں تازہ ہونے لگیں جب صحرا میں ہیلی کاپٹر گرنے سے آٹھ امریکی فوجی مارے گئے تھے اور پورے امریکہ میں بھونچال آگیا تھا۔
اب کی دفعہ ایسا ہوگیا تو کیا ہوگا؟
وزیردفاع باب گیٹس کا خیال تھا کہ امریکہ کو پاکستان کے اندر براہ راست آپریشن نہیں کرنا چاہیے۔ نائب صدر جوزف بھی پوری طرح قائل نہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ زمینی کی بجائے فضائی حملہ کرنا بہتر رہے گا۔ جب اوباما نے ہلیری کلنٹن سے پوچھا کہ اپنی آخری رائے دو تو ہلیری کا کہنا تھا کہ زمینی حملہ کرنے سے یقینا پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب ہوسکتے ہیں اور بات بہت آگے بڑھ سکتی ہے؛ تاہم اس کے خیال میں اسامہ کو مارنا اتنا بڑا کام تھا کہ اس کے لیے یہ خطرہ مول لیا جا سکتا تھا۔ ہلیری کے بقول پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی بنیاد ''اعتماد‘‘ پر نہیں تھی بلکہ دونوں کے اپنے اپنے ''مفادات‘‘ تھے‘ اور امریکہ کا مفاد اس میں تھا کہ وہ اسامہ کو مارنے کے لیے کوئی بھی طریقہ اختیار کرے ۔ اگر پاکستان کا اعتماد متاثر ہوتا ہے تو ہونے دو کیونکہ دونوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ تھا ہی نہیں تو پھر خراب ہونے کا کیاڈر۔ ہلیری کا خیال تھا کہ جب دو ملکوں کے درمیان تعلقات اعتماد کی بجائے باہمی مفادات پر چل رہے ہوں تو ایسے تعلقات خراب نہیں ہوتے۔ تاہم اگر اعتماد کی بنیاد پر ہوں تو پھر یقینا بگڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اگلی پارٹی سمجھتی ہے کہ اس پر اعتماد نہ کر کے دشمنوں کا سا سلوک روا رکھا گیا ہے۔ ہلیری کا خیال تھا کہ یہ تعلقات خراب نہیں ہوں گے‘ لہٰذا اسامہ کو پاکستان کے اندر جاکر ہی مارنا چاہیے۔
یہ ایک طویل کہانی ہے کہ پورا پلان کیسے بنا۔ دو ہیلی کاپٹر افغانستان سے اڑے جو ریڈار پر نظر نہیں آرہے تھیِ۔ ان پر کیمرے لگے ہوئے تھے اور سب کچھ وائٹ ہائوس میں براہ راست دیکھا جارہا تھا۔ وہ کمانڈوز ایبٹ آباد جا کر اترے اور ا نہوں نے اسامہ کو مارا ۔ تاہم ان پندرہ منٹس کی ویڈیو امریکی صدر اور اس کے ساتھی نہیں دیکھ سکے تھے جب اسامہ کو گولیاں ماری گئیں؛ تاہم اوباما اور ان کی ٹیم نے براہ راست امریکی ہیلی کاپٹر کو گھر کی چھت سے ٹکرا کر گرتے دیکھا۔ اگلے روز ہلیری کی مشہور تصویر اخبارات میں چھپی جس میں وہ بے ساختہ خوفزدہ ہوکر اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر ٹی وی سکرین کو دیکھ رہی ہے۔سب کو لگا ایران قیدیوں والی تاریخ دہرائی جارہی تھی اور پھر دس بارہ امریکی فوجی مرنے والے تھے۔ اس دوران افغانستان سے ایک اور ہیلی کاپٹر پہنچ گیا تھا اور وہ اس تباہ ہونے والے ہیلی کاپٹر کے امریکیوں کو لے گیا ۔ تاہم اڑنے سے قبل انہوںنے تباہ شدہ ہیلی کاپٹر کو بم لگا کر اڑا دیا تاکہ اس جدید ہیلی کاپٹر کی کاپی تیار نہ ہو سکے۔ اس سے پہلے اسامہ کے بیوی بچوں اور دیگر کو حویلی کی دوسری طرف لے جایا گیا تاکہ جب ہیلی کاپٹر کو تباہ کیا جائے تو ان میں سے کوئی زخمی نہ ہو۔
اچانک ڈاکٹر احتشام نے پوچھا شاہ جی کہاں تک پہنچے۔میں نے فلسفیانہ انداز میں کہا‘ ڈاکٹر صاحب ذرا تصور کریں دنیا کے بڑے ملک اور ان کے لیڈرز کیسے فیصلے کرتے ہیں اور کیا سوچ کر کرتے ہیں ۔ ہلیری کلنٹن لکھتی ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان باہمی مفادات کا تعلق ہے نہ کہ اعتماد کا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکہ کو پاکستان سے کام ہو تو ہم اس کی ادائیگی کرتے ہیں۔ یہ ذاتی دوستی نہیں کہ ایک دوسرے پر اعتماد ہو اور مفت میں کوئی کام کیا جائے۔ اگر پاکستان کو امریکہ سے کام ہوتا ہے تو امریکی بھی اس کی قیمت وصول کرتے ہیں ۔ امریکیوں نے جب بھی پاکستان سے کوئی کام لیا‘ اس کی قیمت ادا کی اور جنرل ضیا کا مشہور قول سب کو یاد ہے کہ افغان جنگ لڑنے کے لیے تین سو ملین ڈالرز سے کیا بنتا ہے۔ کچھ زیادہ نوٹ دکھائو تاکہ ہمارا موڈ بنے۔ امریکہ نے موڈ بنادیا اور جنرل ضیا نے جنگ لڑی ۔
جنرل مشرف کے دور میں بھی بیس ارب ڈالرز سے زیادہ کی امداد دی گئی۔ موجودہ حکمران اب تک ایک ارب ڈالرز جنگ کے نام پر لے چکے ہیں‘ تو پھر امریکیوں سے ہم گلہ کیوں کرتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں تباہ کر دیا ہے۔ اگر وہ اپنے مفادات کے کام کرواتے ہیں تو اس کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ پھر اگر وہ ڈالرز اونچے لیول پر چند طاقتور ادارے اور افراد بانٹ لیتے ہیں اور اس کے اثرات عام آدمی تک نہیں پہنچتے تو امریکی کیا کریں؟ ہلیری کلنٹن کی بات کا مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ جب انہوں نے مال کھلا کر کوئی کام کرانا ہے اور پاکستانی کوئی کام مفت نہیں کرتے تو اسامہ آپریشن پر بات بگڑ بھی گئی تو وہ کچھ مزید ڈالر دے دیں گے۔ امریکہ کیوں پاکستان کے وقار کا خیال رکھے‘ جب ہم نے خود نہیں رکھا اور اسامہ ہمارے اندر سے برآمد ہوگیا ۔
دوسری طرف ہماری حالت دیکھیں۔ ہم ایک سال تک فیصلہ نہ کر سکے کہ شمالی وزیرستان میں کیا کرنا ہے اور اس دوران تین سو سے زائد لوگ اور فوجی دہشت گردوں نے شہید کر دیے۔ جبکہ ہمارے سیاستدان دہشت گردوں کے وکیل بنے رہے اور ہمارے فوجی جانیں قربان کرتے رہے۔ حالانکہ وہ ہمارا اپنا علاقہ ہے۔ امریکن کسی اور ملک کے اندر حملہ کرنے جارہے تھے اور انہوںنے کانگریس کا اجلاس بلا کر سب کی رائے نہیں لی۔ بہادر لیڈر خود ہی اپنے ملک کے مفادات دیکھ فیصلے کرتے ہیں نہ کہ اتفاق رائے کے نام پر ڈرامے کیے جاتے ہیں۔
گیارہ ستمبر کو امریکہ پر حملہ ہوا تو اس نے دنیا کے دو سو ملکوں سے مدد مانگی ۔ باون ملکوں نے مل کر افغانستان پر حملہ کیا ۔ لندن بموں کے بعد برطانیہ نے بھی مدد مانگی ۔ بھارت نے ممبئی حملوں کے بعد امریکہ، اسرائیل اور پاکستان تک سے مدد مانگی تھی۔ اب طالبان بھی کہتے ہیں کہ انہوں نے ازبکوں سے مدد مانگی کہ کراچی ایئرپورٹ پر تباہی پھیلانی ہے۔ تو پھر پاکستان ان ملکوں سے کیوں مدد نہیں مانگ سکتا جو اس دہشت گردی کو ختم کرنے میں ہماری مدد کرسکتے ہیں ؟ہم نے اپنے پچاس ہزار شہری شہید کروا دیے لیکن دنیا سے دہشت گردی کے خلاف جدید انداز میں لڑنے کے آلات اور تربیت نہیں لی ۔ ویسے دنیا بھر سے اربوں ڈالرز کی بھیک مانگتے ہوئے اور قومی خزانے کی لوٹ مار کرتے ہوئے ہمارا قد چھوٹا نہیں ہوتا اور نہ ہی غیرت متاثر ہوتی ہے لیکن عام پاکستانی گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہوں، اور مدد لینے کی بات کی جائے تو ہمارا قد چھوٹا ہونے لگتا ہے... آخر کیوں؟