جمہوری دنیا میں حکومتوں کی تبدیلیBulletکی بجائے Ballotیعنی گولی کی طاقت کے بجائے ووٹ کی طاقت سے ہوتی ہے، اس وقت ملوکیت یا آمریت ہمارا موضوع نہیں ہے ۔ ایک مقررہ وقفے (Tenure)کے بعد حکومت کی تبدیلی کا اختیار پھر عوام کے ہاتھ میں آجاتا ہے اور ''طالبانِ اقتدار ‘‘کواپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں سمیت عوام کی عدالت میں پیش ہونا پڑتاہے، کیونکہ عوام کی طرف سے کسی جماعت یا فرد کو تفویضِ اقتدار ایک مخصوص مدت کے لئے ہوتاہے، خواہ اس کا دورانیہ چار سال کے لئے ہو (جیسے امریکہ) ، پانچ سال کے لئے ہو(جیسے پاکستان ، ہندوستان اور برطانیہ) یا سات سال کے لئے ہو، جیسے فرانس۔
الغرض جمہوریت میں اقتدار عطا کرنے اور سلب کرنے کا فیصلہ ایک مخصوص دورانیے کے بعد عوام کرتے ہیں۔ عوام کی اجتماعی دانش (Collective wisdom)نے خطا کی ہو یا کسی فرد یا گروہ نے عوام سے دغا کیا ہو، جھوٹ بولا ہو، فریب دیا ہو، ہر صورت میں عوام کے پاس ایک طے شدہ طریقۂ کار کے مطابق اپنے غلط فیصلے کی تصحیح یا ازالے (Rectification)کا اختیار رہتاہے۔
لیکن اس سارے نظام کی ساکھ اور اعتبار کا کلی انحصار نظام انتخاب کے آزادانہ، منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور شفّاف انعقاد پر ہے۔ جن ممالک میں جمہوری نظام کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے، وہاں انتخابات کی شفافیت پر انگلی نہیں اٹھائی جاتی،انتخاب میں شکست کھانے والا خواستہ وناخواستہ اپنی شکست تسلیم کرلیتا ہے اور جمہوری روایت کا احترام کرتے ہوئے فریق مخالف کو مبارک باد بھی دیتاہے۔ اس کے برعکس ہمارے قومی انتخابات ہمیشہ مشکوک، مشتبہ اور جعلی قرار دئیے جاتے رہے ہیں۔ جھرلو چل گیا، انتخابات چرالئے گئے ، عوام سے دھوکا کیا گیا، سب کچھ فراڈ تھا،وغیرہ، اس نوعیت کے سیاسی فتوے انتخابات میں شکست کھانے والوں کی طرف سے صادر ہوتے ہیں ۔ ہر بارانتخابات میں ہارنے والے غیر مطمئن رہتے ہیں اور صرف جیتنے والے مطمئن ہوتے ہیں ، کیفیت کچھ یوں ہوتی ہے ؎
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اورکچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
میرے علم میں ایک بھی ایسی مثال نہیں ہے کہ ہمارے وطنِ عزیز میں انتخاب ہارنے والے فرد یا جماعت نے خوش دلی سے اپنی شکست کو تسلیم کیا ہو، صرف 2013ء کے انتخابات میں غلام احمد بلور صاحب نے ذاتی طورپر اپنی شکست کو تسلیم کیا اور اپنے مقابلے میں جیتنے والے امیدوار عمران خان صاحب کو مبارک باد دی۔
ہمارے روایتی حریف اور ہمسایہ ملک ہندوستان کا یہ افتخار ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ وہاں شروع ہی سے دستور بنا اور اس کے بعد انتخابات باقاعدگی سے ہورہے ہیں ، وسط مدتی انتخابات بھی ہوئے ،ایسی بھی مثالیں ہیں کہ صدرِ جمہوریہ نے دستور میں حاصل اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اپنا پنج سالہ دورانیہ مکمل کرنے سے پہلے پارلیمنٹ تحلیل کردی۔جمہوریت کے قیام سے بھارت میں پارلیمنٹ (لوک سبھا یا ایوانِ زیریں) کی نشستوں کی مجموعی تعداد 543ہے اور ان میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ ایک امیدوار کو کم وبیش ایک ملین ووٹرز کے پاس جانا پڑتا ہے، اسی لئے وہاںبرادری ازم یا دولت کے بل پر انتخا ب میں کامیابی حاصل کرنا متصور نہیں ہے، اسی لئے سیاسی جماعتوں کا انتخابات میں ایک مؤثر کردار ہوتاہے۔ ہندوستان میں تضادات ہم سے زیادہ ہیں ، علاقائی پارٹیاں بھی ہیں ، علیحدگی کی تحریکیں بھی چل رہی ہوتی ہیں ،مذہبی انتہاپسندی بھی موجود ہے۔یہ کثیرالنسل ، کثیر اللّسان اور کثیرالمذاہب ملک ہے، یعنی ہندوستانی سماج میں کئی جہات سے تکثُّر(Pluralism)ہے۔یہ ایک Pluralisticسماج ہے۔ اکثرایسا ہوتاہے کہ مرکز میں کسی ایک جماعت کی حکومت ہے اور مختلف صوبوں میں علاقائی جماعتوں کی حکومتیں ہوتی ہیں ۔ بعض اوقات صوبوں یا ریاستوں میں وسطی مدتی انتخابات بھی ہوتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتاہے کہ کسی صوبے میں صوبائی حکومت کے اقتدار دوارانیہ جاری ہوتاہے اور قومی انتخابات منعقد ہوتے ہیں، لیکن انتخابات میں مرکزی یا صوبائی حکومتوں کی مداخلت کی شکایات کم ہوتی ہیں ۔ جبکہ ہمارے ہاں وفاق میں جس جماعت کی حکومت ہوتی ہے، آزاد کشمیر
اور اب گلگت بلتستان میں بھی وہی جماعت انتخابات جیت جاتی ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات میں،جن کو فاٹا بھی کہا جاتاہے، چونکہ صوبائی انتخابات نہیں ہوتے اور گورنر صوبۂ خیبر پختونخوا کے توسط سے براہِ راست صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان وہاں کے نظمِ اجتماعی کے نگران ہوتے ہیں ، اس لئے ان کے لئے مصارف جاریہ اور ترقیاتی فنڈز کا اجرا وفاق سے ہوتاہے، اس لئے وہ وفاق کی حمایت پر مجبور ہوتے ہیں ،لہٰذا یہ بارہ اراکین اسمبلی توازن کو بدل سکتے ہیں ۔ اب 10، مئی کی سہ پہر معلوم ہوا کہ وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو باقاعدہ سرکاری طور پر مراسلہ بھیجا ہے کہ نظام انتخابات کی اصلاح کے لئے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے ، یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ مناسب ہوگا کہ اس کمیٹی میں سیاسی جماعتوں کے سربراہان یا اُن کے انتہائی قابلِ اعتماد نمائندے شریک ہوں اور اس کمیٹی کی کارروائی (Proceedings)کھلے اجلاس میں ہو اور اس میں اتفاق رائے سے فنی ماہرین (Technocrats)کو بھی شامل کیا جائے یا مجوزّہ کمیٹی خود ان کومشاورت کے لئے بلائے۔
جناب عمران خان بائیو میٹرک سسٹم‘ یعنی ووٹر کی مشینی شناخت پر ایک عرصے سے بہت زور دے رہے ہیں اوراُن کا یہ مطالبہ معقول بھی معلوم ہوتاہے، کیونکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی یہ نظام کامیابی کے ساتھ رائج ہے۔ مگر عام قومی انتخابات سے پہلے لازم ہے کہ اسی شماریاتی مشینی نظام کو ممکنہ اور متوقع مقامی انتخابات میں آزمایا جائے تاکہ انتخابی عملہ، امیدوار اور ووٹرز اِس سے متعارف اور مانوس ہوں اوران کی کارکردگی بھی سامنے آئے، کیونکہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے کمیشن کے چکر میں بعض اوقات مشینیں بھی ناقص خریدلی جاتی ہیں۔ اگر داخلی سلامتی جیسے انتہائی اہم اور حساس مسئلہ سے عہدہ برآ ہونے کے لئے گزشتہ دورِ حکومت میں صوبۂ خیبرپختونخوا میں ناقص بندوقیں خریدی جاسکتی ہیں ، تو ہمارے ہاں اور کیا کچھ نہیں ہوسکتا۔
مقامی انتخابات میں اس مشینی شناختی نظام کے ناقص پہلو بھی سامنے آسکتے ہیں اور قومی انتخابات سے پہلے اُن کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔ لیکن سب کچھ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ تمام بڑی قومی جماعتیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں ،اسے محض پروپیگنڈے کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔
اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ 1973ء کے اصل متفق علیہ دستور کی طرف مراجعت کی جائے اور صرف براہِ راست انتخاب کے طریقۂ کار کو باقی رکھا جائے اور خواتین اور اقلیتوں کے بالواسطہ انتخاب کے طریقۂ کار کو ختم کیاجائے۔اقلیتوں کے لئے جب جنرل ضیاء الحق نے جداگانہ انتخابات کا طریقہ رائج کیا تھا، تو انہوں نے احتجاج کیا تھا کہ ہمیں دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے اور ہم براہِ راست انتخابات میں پوری قوم کے ساتھ شامل رہناچاہتے ہیں ۔ اسی طرح سینٹ میں ٹیکنو کریٹس کی نشستوں پر مختلف شعبہ جات کے حقیقی ماہرین کوبہت کم منتخب کیا گیا ہے، ہماری سیاست میں اصل چیز پارٹی اور قیادت سے وفاداری ہے۔واضح رہے کہ اگر آج 1973ء کا دستور اپنی اصل شکل میں نافذ ہوتا تو ہماری قومی اسمبلی 217ارکان پر مشتمل ہوتی اور سب کے سب براہ راست عوام کے اکثریتی ووٹوں سے منتخب ہوکر آئے ہوتے۔عمران خان صاحب اگر واقعتاً نظام انتخاب کی اصلاح اور شفافیت کے لئے مخلص ہیں ، تو انہیں اس موقع کو پوری سنجیدگی دلجمعی اور مہارت کے استعمال کرنا چاہئے۔ اس طرح حکومت کی نیک نیتی بھی واضح ہوجائے گی اور اگر حکومت نے اسے محض ٹال مٹول اور معاملے کو بے مقصد طول دینے کے حربے کے طور پر استعمال کرناچاہا تو اتمامِ حجت ہوجائے گا اور پھر اسے پوری قوت کے ساتھ عوام کے سامنے لانے کا منطقی طور پر جواز بھی موجود ہوگا۔ لیکن اگرصرف ہلا گلا اور نظام کی بساط لپیٹناہی ترجیحی مقصد ہے، تو پھر ع ''جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘‘۔
میری گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں احتجاجی سیاست کے بجائے انتخابی سیاست کی اصلاح پر زیادہ توجہ دینی چاہئے تاکہ دنیا پر ایک ذمے دار قوم کا تاثر نمایاں ہو اور ہر مسئلے کی نشاندہی یا حل کے لئے سڑکوں پر آنے کی بجائے اداروں کو طاقتور بنایا جائے۔ وہ وقت آخر کب آئے گا کہ ہم جمہوری اعتبار سے پختہ کار اور ایک بالغ نظر قوم کے طور پر دنیا کے سامنے اپنا بہتر امیج پیدا کریں ۔