اقوام متحدہ کے پروگرام برائے خوراک کے مطابق بھارت سمیت اس خطے کے تمام ممالک شدید غربت اور بیماری کا شکار ہیں۔ دنیا کی آدھی غربت یہاں پلتی ہے اور پانچ سال سے کم عمر کے پچاس فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ دوسری طرف درمیانے طبقے کا وسیع حصہ موٹاپے سے پریشان ہے۔ پاکستانی سٹیٹ بینک کے سابق گورنر عشرت حسین کے مطابق ''دنیا کی دو تہائی ناخواندگی جنوبی ایشیا میں موجود ہے اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل آدھے طلبہ بیروزگاری کے خطر ے سے دوچار ہیں‘ جس کی وجہ فنی تربیت اور تعلیم کا ناقص معیار ہے‘‘۔ ہر سال کئی ملین نوجوان بیروزگاری کے سمندر کا حصہ بن رہے ہیں۔ یہ اور ان جیسے دوسرے خوفناک اعداد و شمار روز اول سے ان ریاستوں کی سرکاری تاریخ، ترقی کے دعووں اور ''قومی سالمیت‘‘ کا منہ چڑا رہے ہیں۔
سرحد کے دونوں اطراف کے رہنما غربت کے خاتمے کے لیے اقدامات کی باتیں ماضی میں بھی کرتے آئے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں۔ نتائج ہمیشہ کی طرح الٹ ہی برآمد ہوں گے۔ ان کے ہر قدم، ہر معاشی پالیسی نے عوام کی ذلت اور محرومیوں میں اضافہ کیا ہے۔ سرمایہ داری کے زوال اور معاشی و سماجی بحران کے بڑھنے کے ساتھ اس خطے کے حکمران طبقے کا کردار مزید بھیانک ہو گیا۔ ماضی کے سیاسی رہنمائوں کا کم از کم کوئی ثقافتی اور اخلاقی معیار ہوا کرتا تھا۔ آج ہر طرف نودولتیے، ٹھگ اور چور ہی نظر آتے ہیں‘ جن کا پہلا اور آخری مقصد کرپشن اور بدعنوانی ہے۔ سیاست اور ریاست کی نظریاتی بنیادیں بھی سکڑتے سکڑتے بنیاد پرستی تک محدود ہو گئی ہیں‘ جس کا مقصد عوام کے شعور کو پسماندگی اور تعصب کی زنجیروں میں قید رکھنا ہے۔
بی جے پی کا اقتدار میں آنا بھارت کی نام نہاد سیکولر اور لبرل اشرافیہ کے حقیقی کردار کو بے نقاب کرتا ہے۔ اس پارٹی کا آغاز نیو فاشسٹ ہندو بنیاد پرست تنظیم 'راشٹریا سیوک سوائم سنگ‘ کے سیاسی فرنٹ کے طور پر ہوا تھا۔ سماج کی پسماندہ پرتوں اور نچلے درمیانے طبقے میں بنیادیں بنانے کے لیے یہ جماعت ہندو شائونزم کے ساتھ ساتھ ''ترقی‘‘ اور غربت کے خاتمے کے نعرے بلند کرتی رہی ہے۔ ''چمکتے ہوئے بھارت‘‘ کی اصطلاح سب سے پہلے اسی جماعت کے دور حکومت میں استعمال کی گئی تھی۔ عوام پر معاشی حملے کرنے، محنت کش طبقے سے مراعات چھیننے اور لیبر قوانین کے خاتمے میں بی جے پی نے ہمیشہ کارپوریٹ سرمایہ داروں کے ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ اس بار بی جے پی کو برسر اقتدار لانے کا مقصد آزاد منڈی کی معاشی پالیسیوں کے جارحانہ نفاذ کے ساتھ ساتھ خطے میں بھارتی سرمائے کا غلبہ قائم کروانا ہے۔ سرمایہ داری کے عالمی کریش کے بعد سے یورپ اور امریکہ میں منڈی مسلسل سکڑ رہی ہے اور مستقبل قریب میں بحالی کا کوئی امکان نہیں۔ ان حالات میں بھارتی سرمایہ دار برصغیر کی منڈی کے ایک ایک انچ کے حصول کے لیے پر تول رہے ہیں۔ ''سخت گیر‘‘ نریندر مودی کی جانب سے اپنی تقریب حلف برداری میں میاں صاحب کو مدعو کرنے کی یہ ایک اہم وجہ تھی۔
حکمرانوں کی ڈوریاں ہلانے والوں کی نیت بھی کچھ مختلف نہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقے کا 'لبرل‘ دھڑا عرصے سے بھارت کے ساتھ تجارت بڑھانے پر زور دے رہا ہے۔ کئی معاشی ماہرین دو طرفہ تنازعات کے خاتمے اور اقتصادی تعلقات کے فروغ کو معاشی شرح نمو، یعنی سرمایہ داروں کی شرح منافع بڑھانے کا نسخہ قرار دیتے ہیں۔ سابق وزیر خزانہ اور ورلڈ بینک کے معیشت دان شاہد جاوید برکی اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں: ''میرے اندازے کے مطابق مسئلہ کشمیر کی قیمت پاکستان کو ہر سال جی ڈی پی کی شرح نمو میں 2.25 سے 3 فیصد تک کمی کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔ پچھلی چھ دہائیوں میں اس نقصان کے حجم کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ یہ اندازہ خالص معاشی حقائق کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔ بھارت کی طرف رویے کے نتیجے میں ملک میں بنیاد پرستی کے ابھار اور اس کے معاشی نقصانات کو اس تخمینے میں شامل نہیں کیا گیا ہے‘‘۔
برکی صاحب اور ان جیسے دوسرے دانشور یا تو واقعی سادہ لوح ہیں یا پھر ڈوبتی معیشت کے لیے تنکے کا سہارا ڈھونڈنے پر مجبور۔ بنیاد پرستی کا ابھار بذات خود صحتمند سرمایہ دارانہ معیشت کے زوال اور سرکاری معیشت سے دو گنا بڑی کالی معیشت کا نتیجہ ہے۔ ریاست، میڈیا اور سیاست کو قابو کرنے کے لیے اس کالے سرمائے کی اپنی حرکیات اور چالبازیاں ہیں۔ بھارت دشمنی اس مظہر کا بنیادی حصہ ہے۔ قومی شائونزم اور مذہبی منافرت کے بغیر بنیاد پرستی کی سیاست کے ساتھ ساتھ ریاست کے کچھ طاقتور حصوں کی مالی مراعات بھی ختم ہو جائیں گی۔ یہ سارا کھیل واضح کرتا ہے کہ حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کے درمیان معیشت اور خارجہ پالیسی جیسے بنیادی نکات پر ہی اختلافات موجود ہیں۔
ریاست کے نام نہاد لبرل دھڑے کی امن اور بھارت کے ساتھ دوستی کی پالیسیاں خاص طور پر تذبذب اور عدم تسلسل کا شکار رہی ہیں۔ بھارت دشمنی اور پاکستانی قوم پرستی کا سب سے زیادہ سیاسی استعمال میاں صاحب ہی ماضی میں کرتے رہے ہیں۔ ''امن‘‘ کی یہ پالیسیاں ماضی میں بھی بدلتی رہی ہیں اور آج بھی ان کے علمبردار ''بوقت ضرورت‘‘ انہیں کوڑادان میں پھینکنے میں ذرا سی دیر بھی نہیں لگائیں گے۔ ملک کی دوسری 'لبرل‘ اور 'جمہوری‘ قوتوں کا بھی یہی حال ہے۔ دوسری طرف بھارت دشمنی اور امریکہ مخالف نعرے بازی مذہبی جماعتوں کے وجود کی بنیادی شرائط ہیں۔ ان تمام تر حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو منافعوں کے چکر میں بھارت کے ساتھ دیرپا تجارت کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
حکمرانوں کے آپسی تضادات سے قطع نظر، اس نفرت اور جنگی جنون کا استعمال ریڈکلف لائن کے دونوں اطراف کی ریاستوں اور حکمران طبقات نے خطے کے محنت کش عوام کو تقسیم کرنے اور ان کے غصے کا رخ موڑنے کے لیے کیا ہے۔ جب بھی عوام اس جابر اور استحصالی نظام کو اکھاڑنے کے لیے میدان میں اترے، شائونزم اور بیرونی جارحیت کے خوف کے ذریعے تحریک میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بھارت میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔ اس معاملے میں بھارتی حکمران طبقے کا کردار شاید اپنے پاکستانی 'شراکت داروں‘ سے زیادہ بھیانک رہا ہے۔ سشما سوراج کے وزیر خارجہ ہوتے ہوئے کسی قسم کے مذاکرات کا عمل بہت کٹھن ہو
گا۔ ترقی، خوشحالی اور کرپشن کے خاتمے کے وعدے پورے کرنے میں مودی سرکار کی ناکامی جلد ہی عیاں ہو جائے گی جس کے بعد پاکستان دشمنی کی سیاست کا آغاز ہو گا۔ 'ڈبل ڈیجٹ گروتھ‘ کے دن قصہ ماضی ہو چکے ہیں۔ مودی صاحب کو آٹے دال کا بھائو اب تک پتہ چل چکا ہو گا۔ ان حالات میں کوئی امن معاہدہ تو دور کی بات، دوستی کے بالواسطہ اشاروں کے امکانات بھی مخدوش ہیں۔
دونوں ممالک کے حکمران طبقات کا انحصار جس بوسیدہ اور متروک نظام پر ہے وہ عوام کی معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ سکیورٹی اور خارجہ پالیسی سمیت گورننس کے ہر پہلو کے عدم استحکام میں اضافہ کر رہا ہے۔ نتیجتاً آنے والے دنوں میں برصغیر میں سیاسی انتشار اور بڑھے گا۔ خطے کے عوام اگرچہ لمبے عرصے سے جمود اور مایوسی کی کیفیت میں ہیں اور کوئی بڑی تحریک نہیں چلی لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے مختلف شعبوں کے محنت کشوں کی ہڑتالوں کا سلسلہ دونوں ممالک میں نظر آتا ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں گزشتہ تین سال کے دوران دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ عام ہڑتالیں ہوئی ہیں۔ یہ چھوٹی تحریکیں دراصل بڑے پیمانے پر طبقاتی جدوجہد کے ابھار کے ابتدائی آثار ہیں۔ کسی ایک ملک میں محنت کش عوام کی بڑی تحریک کے اثرات پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔ سوشلسٹ، کمیونسٹ، بائیں بازو کی جماعتوں اور محنت کش طبقے کی روایتی قیادتوں کو موقع پرستی، دغابازی اور نظریاتی انحراف کی روش ترک کرنا ہو گی۔ بصورت دیگر عوام انہیں تاریخ کے کوڑا دان میں پھینک کر نئی انقلابی قوتیں تراش لائیں گے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے پاس خطے کے ڈیڑھ ارب عوام کو دینے کے لئے جنگ، خونریزی، استحصال اور بربریت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دو متضاد اور متحارب طبقات کی یہ جنگ اس نظام کے خاتمے پر ہی منتج ہوگی جو انسانی تہذیب کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ (ختم)