تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     14-06-2014

امریکہ: چند مثبت مشاہدات

میں پچھلے چند روز سے امریکہ میں ہوں۔ وطن عزیز میں امریکہ کے خلاف نعرے خوب لگتے ہیں اورگالیاں بھی پڑتی ہیں لیکن کوئی دو ماہ قبل ویزہ کی غرض سے اسلام آباد میں امریکن ایمبیسی جانا ہوا تو ہال ہم وطنوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ انگریزی کے علاوہ اردو اورعلاقائی زبانوں میں بھی انٹرویو ہورہے تھے ۔ پی آئی اے کے علاوہ متعدد عرب اور ترک ائیرلائنز روزانہ ہزاروں پاکستانیوں کو امریکہ لے جاتی ہیں۔ سفر کی تفاصیل بتائے بغیر میں قارئین کے ساتھ امریکہ کی مثبت خصوصیات شیئر کرنا چاہوں گا جو میرے ذاتی مشاہدے میں آئیں۔ 1980ء سے لے کر اب تک میں متعدد بار امریکہ یاترا کرچکا ہوں۔
امریکہ میں لینڈ کرنے کے بعد سب سے پہلا متاثر کن مشاہدہ صفائی ستھرائی کا ہوتا ہے۔ آشبرن(Ashburn)‘ ورجینیا میں جہاں میرا قیام اپنے بیٹے کے گھر ہے‘ بذات خود ایک شہر ہے جو واشنگٹن سے زیادہ دور نہیں۔ میں آشبرن میں کار میں بھی گھوما ہوں اور پیدل بھی خوب پھرا ہوں۔ موسم آج کل شاندار ہے گو کہ موسم گرما ہے اور گھروں میں سنٹرل ایئرکنڈیشننگ چل رہی ہے لیکن درجہ حرارت پاکستان کے مقابلہ میں خاصا کم ہے۔ چاروں طرف ہر یاول ہے۔ آشبرن نسبتاً نیا علاقہ ہے۔ یہ علاقہ زرعی زمین ہوتا تھا یا جنگلات۔ فارسٹ کا کچھ حصہ ویسے کا ویسے چھوڑ دیا گیا ہے تاکہ قدرتی حسن برقرار رہے۔ میں صبح شام سیر کرتا ہوں اور ایسے ماحول میں دل کرتا ہے کہ سیر ختم ہی نہ ہو۔ میں نے آشبرن کا انچ انچ دیکھا ہے اور یہ علاقہ میلوں پر محیط ہے۔ پورے ایریا میں مجھے کچرے کا ایک ڈھیر نظر نہیں آیا۔ صفائی نصف ایمان مسلمانوں کا تھا لیکن ہمارا یہ خاصہ اہل مغرب لے اڑے ہیں۔ کیا ہم اس مسروقہ متاع کو واپس نہیں لے سکتے ؟
میں اہالیان آشبرن کو نہیں جانتا اور ان کے لیے میں اجنبی ہوں لیکن سیر کے دوران جو بھی پاس سے گزرتا ہے یا گزرتی ہے ہیلو ہائے گڈ مارننگ یا گڈ آفٹر نون ضرور کہتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں پاکستان میں والدین سیروسفر کی حالت میں اجنبیوں کو بھی سلام کرتے تھے اور بچے بھی یہ اچھی عادت سیکھ لیتے تھے جو اب عنقا ہوتی جارہی ہے۔متمول لوگوں کے گھر یہاں بھی ہوم میڈز (Home Maids) صفائی کے لیے آتی ہیں۔ لان میں گھاس کاٹنے والے بھی آتے ہیں لیکن اہل خانہ ان سے بھی عزت و احترام سے بات کرتے ہیں۔ نہ کوئی چودھری نہ کوئی کمّی‘ ہر پیشے کا یہاں احترام ہے۔ صفائی کرنے والا بھی سر اٹھا کے چلتا ہے۔ مساوات کا جو درس اسلام نے ہمیں دیا تھا مغرب والے وہ بھی اپنا چکے اور ہم نے اسے خیرباد کہہ دیا۔
نظم و ضبط اور باہمی حسن اخلاق اس قوم کا شیوہ ہے۔ باہر جاکر دوسری قوموں سے امریکی برتائو ہوسکتا ہے کہ ہمیشہ ایک جیسا نہ ہو لیکن اپنے ملک کے اندر یہ لوگ بنیادی اصولوں کی پاس داری کرتے ہیں۔ جہاں ایک ہی کام کی غرض سے کئی لوگ ہوں وہاں صف بندی یعنی لائن ضرور لگتی ہے۔ ہر جگہ یہاں لائن دیکھتا ہوں تو مجھے اسرائیل کے سابق وزیر موشے دایان کا مقولہ یاد آجاتا ہے کہ جس دن عرب لائن بنانا سیکھ جائیں گے اس روز وہ ناقابل تسخیر ہوجائیں گے۔ سڑک پر ٹریفک کا ایک اصول ہے جسے رائٹ آف وے (Right of way) کہتے ہیں یعنی جو ڈرائیور مین روڈ پر سیدھا آرہا ہے‘ راستے پر اس کا حق سائیڈ والی سڑک سے آنے والے سے زیادہ ہے۔ اسی طرح جو کار گول چوک کے اندر ہے‘ باہر نکلنے کا اس کا حق مقدم ہے۔ امریکی لوگ نہایت مہذب طریقے سے ڈرائیونگ کرتے ہیں۔ کوئی شخص پیدل سڑک کراس کررہا ہو تو کار روک لیتے ہیں۔ اگر ایک ڈرائیور از راہ اخلاق اپنا پہلے جانے کا حق دوسرے کو دیتا ہے تو وہ ہاتھ ہلاکر شکریہ ضرور ادا کرے گا۔
امریکہ ایک عرصے سے مواقع کی سرزمین (Land of opportunity) کے طور پر معروف ہے لیکن کامیابی یہاں بھی ہر کسی کو نہیں ملتی۔ مگر ایک بات ضرور ہے کہ میدان سب کے لیے ہموار ہے یعنی چھینا جھپٹی کی بجائے وسائل کی تقسیم خاصی عادلانہ ہے۔ محنت اگر کالا کرے گا تو گورے سے آگے نکل سکتا ہے۔ امریکی سسٹم کسی سے شجرۂ نسب نہیں پوچھتا۔ قانون سب کو یکساں تحفظ دیتا ہے‘ بلکہ کمزور طبقات کی پاسداری کرتا ہے۔ اگر بچہ فون کردے کہ میرے والدین مجھے مار پیٹ رہے ہیں تو پولیس فوراً آجائے گی۔
یہاں سکولوں میں موسم گرما کی تعطیلات عام طور پر جون کے دوسرے ہفتے میں ہوتی ہیں۔ میری بہو فیئر فیکس کائونٹی کے سرکاری سکول میں انگریزی اور ہسٹری پڑھاتی ہے۔ میں نے اسی حساب سے جون کے دوسرے ہفتے کا ٹکٹ کافی عرصہ پہلے لے لیا تھا کہ جتنا عرصہ پہلے ٹکٹ خریدا جائے اتنا ہی سستا پڑتا ہے۔ پھر پتہ چلا کہ امسال فیئر فیکس کائونٹی سکول 25جون کو بند ہوگا‘ لیکن ٹکٹ کی تاریخیں بدلنے کے مزید پیسے دینے پڑتے ہیں۔ سکولوں کی موسم گرما کی چھٹیاں کم ہونے کی وجہ دریافت کی تو پتہ چلا کہ اس سال موسم سرما میں زیادہ برف پڑی‘ سکول تیرہ ورکنگ ڈے برف باری کی وجہ سے بند رہے لہٰذا موسم گرما کی تعطیلات میں سے تیرہ ورکنگ ڈے کاٹ لیے گیے۔ ہمارے ہاں پاکستان میں ہڑتالوں اور دھرنوں سے کئی دفعہ سکول اور کالج بند ہوتے ہیں ، کبھی کسی کو خیال آیا یا کسی نے حساب کیا کہ کتنے قیمتی دن ضائع ہوئے؟ 
امریکہ کی اصل طاقت یہاں کا تعلیمی نظام اور ریسرچ ہے۔ دنیا کی اعلیٰ سے اعلیٰ یونیورسٹیاں یہاں ہیں۔ ان اداروں میں ہر وقت اعلیٰ سے اعلیٰ ترقی کی تلاش میں لوگ جتے رہتے ہیں‘ اسی لیے نوبل پرائز لینے والوں کی فہرست میں امریکن آگے آگے ہیں۔
میرے اس سال یہاں آنے کا مقصد بھی سٹین فورڈ یونیورسٹی میں چھوٹے بیٹے کی گریجوایشن اٹینڈ کرنا ہے۔ یہ یونیورسٹی سان فرانسسکو کے قریب ہے اور اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں شمار ہوتی ہے ۔ اس عظیم یونیورسٹی کے لیے ایک الگ کالم درکار ہے۔ تادم تحریر میں واشنگٹن سے سان فرانسسکو کے لیے رخت سفر باندھ رہا ہوں ۔ فلائٹ چھ گھنٹے کی ہے۔ اتنے ہی وقت میں واشنگٹن سے لندن بھی پہنچا جاسکتا ہے۔ اس سے آپ کو امریکہ کی وسعت کا اندازہ بخوبی ہوجائے گا۔ گریجوایشن کے بعد واپس آشبرن آجائوں گا۔ بہو بیٹی نے چھٹیوں کے بعد واشنگٹن کے مختلف عجائب گھر مجھے دکھانے کا پروگرام بنا رکھا ہے۔
امریکہ میں 9/11کے بعد دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا اورخدا کرے کہ آئندہ بھی نہ ہو‘ لیکن یہ خود بخود نہیں ہوا۔ ان لوگوں نے سوچ سمجھ کر اقدامات کیے ہیں۔ اپنی اندرونی سکیورٹی کے نظام کو بہتر بنایا ہے۔ تمام حساس مقامات پر کیمرے لگے ہیں۔ ابوظہبی ایئرپورٹ پر واشنگٹن کی فلائٹ چلنے سے پہلے سب مسافروں نے اپنے کوٹ ، بٹوے اور بیلٹ وغیرہ سکریننگ کے لیے اتار دیئے ۔ سب نے جوتے بھی اتارے۔ امریکہ کے لیے امیگریشن یعنی پاسپورٹ پر مہر ابوظہبی میں ہی لگ گئی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ میں وی آئی پی ہوں میری تلاشی نہ لیں۔ تلاشی دینے والوں میں گورے کالے سب شامل تھے۔ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے تھے ۔
اسلام آباد میں میرے گھر کے دروازے پر تین تالے ہیں۔ سکیورٹی الارم سسٹم اس کے علاوہ ہے۔ ایک عدد السیشن کتا ساری رات گھر کے گرد پہرہ دیتا ہے۔ میں دن میں دو مرتبہ فون کرکے اسلام آباد میں گھر والوں سے خیریت دریافت کرتا ہوں۔ یہاں آشبرن میں میرے بیٹے کے گھر کے دروازے پر صرف ایک تالہ ہے۔ سب سکون کی نیند سوتے ہیں۔ اب معلوم ہوا کہ اسلام آباد امریکن ایمبیسی کا ویزہ ہال کیوں کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved