تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     15-06-2014

امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں

امید باقی ہے کہ خواب باقی ہے۔ انشاء اللہ ایک دن متشکل ہو کر رہے گا۔ اللہ جانتا ہے کہ ہم ہوں گے یا نہیں ہوں گے مگر سپنا ضرور ہرا ہو گا۔ اس سرزمین کے لیے رحمۃ للعالمینؐ کی دعا ہے۔ ظاہر ہے کہ قبول ہو کر رہے گی ع 
امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں 
خود کو انہوں نے تھامے رکھا‘ مگر چودھری پرویزالٰہی کے لہجے میں رنج تھا۔ ''تین یونیورسٹیاں‘‘ انہوں نے بتایا کہ لاہور سیالکوٹ موٹروے پر تین یونیورسٹیاں تعمیر ہونا تھیں۔ ان میں سے ایک نے صوبائی صدر مقام کے پرانے ہوائی اڈے پر کام بھی شروع کردیا تھا‘ آسٹریا والوں نے۔ دوسری وسطی علاقے اور تیسری سیالکوٹ میں بنتی۔ میاں شہباز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی ان کا کریا کرم کردیا۔ 
یہ وصف گجرات کے چودھریوں ہی میں دیکھا کہ سو بار تنقید کرنے کے بعد ایک مرتبہ بھی اگر تحسین کی تو شکریہ ادا کرنے کے لیے رابطہ کیا‘ ہمیشہ ذاتی طور پر۔ وزیراعلیٰ کی حیثیت سے جناب پرویزالٰہی کو پہلا بجٹ پیش کرنا تھا۔ اس سے قبل تعارفی پریس کانفرنس۔ محکمہ تعلقات عامہ والوں نے مدعو کیا۔ 90 شاہراہ قائداعظم پر دو اڑھائی گھنٹے ان کی گفتگو سنی۔ پھر ڈی جی پی آر کے دفتر ہی میں بیٹھ کر کالم لکھا۔ انہی کے ہاں سے فیکس کیا۔ وہ حیرت زدہ کہ ستائش کا ایک بھی جملہ تک نہ تھا۔ تنقید ہی تنقید۔ سیکرٹری اطلاعات نے اپنے افسروں سے پوچھا: ان صاحب کو کس نے مدعو کیا تھا؟ اسلم بٹ مرحوم نے اپنے مخصوص طرّار لہجے میں کہا: استروں کی یہ مالا ہم نے خود گلے میں ڈالی تھی۔ 
لاہور کے لیے زیر زمین ریلوے کا ذکر تھا‘ چودھری صاحب کی وزارت اعلیٰ کے دور میں یہ منصوبہ بنا۔ 2012ء میں مکمل ہونا تھا۔ ایک روپیہ خرچ کیے بغیر؛ اگرچہ ایشیائی ترقیاتی بینک کو قرض جاری کرنا تھا‘ ادائیگی لیکن آمدن سے ہوتی‘ سترہ برس میں۔ میاں صاحب اقتدار میں آئے تو اسے اٹھا پھینکا کہ تحسین میں شرکت گوارا نہ تھی۔ خلقِ خدا شاید یہ کہتی کہ خواب کسی اور نے دیکھا تھا۔ 1.3 ملین ڈالر کی بجائے‘ اب یہ 1.6 ملین ڈالر میں بنے گی اور زیادہ تر برسرِ زمین۔ 
ٹیلی فون پر چودھری پرویزالٰہی کی آواز سنائی دی ''بھائی جی! شکریہ تسی مینوں یاد رکھیا‘‘۔ قدرے حیرت سے میں نے کہا: یہ تو ایک سرسری حوالہ تھا۔ ''فیر وی مہربانی‘ تسی کدوں کسے دی تعریف کردے او‘‘۔ 
سرکار والا تبارؐ یاد آئے۔ ایک قول کا مفہوم یہ ہے کہ حکمرانوں کی جائز تعریف سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ بیٹی کی شادی تھی۔ سید عباس اطہر مرحوم کے توسط سے چودھری صاحب کا پیغام ملا: کوئی خدمت ہو تو بتایئے۔ شاہ صاحب سے گزارش کی کہ تین لاکھ قرض کے طور پر درکار ہیں‘ مگر آپ سے۔ آپ جانتے ہیں‘ بس اتنا سا مسلمان ہوں کہ اپنا رزق خود کماتا ہوں۔ کچھ زحمت اپنی منہ بولی بہن عظمیٰ گل کو دی۔ زحمت کیا وہ خود روپیہ لے کر آئیں اور کہا انکار مت کیجیے‘ فکر مندی آپ کے چہرے پر لکھی ہے۔ قرض تاخیر سے ادا ہوا مگر اللہ کا شکر ہے کہ ہو گیا۔ شادی کی تقریب اس وقار سے انجام پائی کہ یاد سے دل شاد ہوتا ہے۔ بیٹی کا ہر سکھ باپ کا سکھ ہوتا ہے۔ اس کا ہر دکھ باپ کا دکھ۔ چودھری صاحب نے شکایت کی: ہمیں یاد تک نہ کیا۔ 
اترسوں فون پر بات ہوئی تو عرض کیا: حد کرتے ہیں‘ آپ بھی‘ کتنی بار کہہ چکا کہ آپ کی اور موجودہ حکومت کے ترقیاتی منصوبوں پر ایک موازنہ لکھنے کا ارادہ ہے۔ اور چیزوں کے لیے آپ کے پاس وقت ہے‘ اس ایک کام کے لیے کبھی نہیں۔ رسان سے بولے: ابھی آ جایئے‘ چودھری شجاعت حسین بھی موجود ہیں اور آپ کو یاد کرتے ہیں۔ 
بلال الرشید گلی تلاش نہ کر سکے۔ انہوں نے کسی کو بھیجا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ملازم نہیں‘ ان کے ذاتی دوست ہیں۔ بچپن کے ہم جماعت۔ کمرہ ملال سے بھر گیا۔ سوچا: اس کے سوا چارہ بھی کیا ہے۔ زخم ہو گا تو ٹیس بھی اٹھے گی۔ اندمال درد کا نہیں‘ زخم کا ہونا چاہیے۔ پھر داستان چھڑی تو شاعر کی آواز سنائی دی۔ 
مصحفی ہم تو سمجھتے تھے کہ ہو گا کوئی زخم 
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا 
فقط ریل ہی نہیں‘ جس کے نتیجے میں میٹرو بس کی رقم ملا کر دو ارب ڈالر بچ رہتے‘ لاہور سیالکوٹ موٹروے سے سفر کا دورانیہ ایک تہائی رہ جاتا‘ برآمدات بڑھ جاتیں‘ جو اب بھی 500 ملین ڈالر سے زیادہ ہیں۔ سیالکوٹ زندہ لوگوں کا شہر ہے‘ سڑکیں خود بنائیں۔ ہوائی اڈہ خود بنایا۔ ملک بھر میں ملازمین کے معاوضے سب سے زیادہ۔ شرح تعلیم بلند تر۔ بجلی ایک ایک گھر۔ اس دیار کے مکینوں کو میرا سلام پہنچے۔ عالمی مقابلہ اسی شہر کے بنے فٹ بال سے برپا ہے۔ یونیورسٹیوں کا ذکر چھڑا تو احساس ہوا کہ پاکستانی قوم کا حافظہ کتنا کمزور ہے۔ کیسے کیسے گھائو وہ بھول جاتی ہے۔ یادوں کے خزینے سے پھر‘ ایک اور آبدار خنجر نکلا۔ کہا: ہر سال دس لاکھ ملازمتیں ہماری حکومت پیدا کیا کرتی۔ سالانہ ترقیاتی شرح 8.5 فیصد تھی‘ اب 3.5 فیصد۔ نہ ہونے کے برابر کہ آبادی میں اتنا ہی اضافہ ہے۔ جنوبی پنجاب کے لیے پھر سے شور برپا ہے۔ چودھری صاحب کی حکومت میں سکول جانے والی ہر بچی کو 200 روپے ماہوار دیئے جاتے۔ داخلے کی شرح 98 فیصد تک گئی اور عالمی بینک نے ستائش کی۔ فیس ختم کردی گئی تھی‘ کتابیں مفت۔ 
موٹروے کا حوالہ پھر آیا۔ اعلیٰ درجے کے ہزاروں ماہرین موٹروے پر بننے والی تین یونیورسٹیوں سے ہر سال فارغ التحصیل ہوا کرتے۔ ''آج کی دنیا میں معیشت کا انحصار علوم پر ہے‘‘۔ چودھری پرویزالٰہی نے کہا۔ بجٹ مختص کردیا گیا تھا۔ تمام ضروری اخراجات کے علاوہ ایک سو ارب روپے زاید پڑے تھے۔ اب پنجاب 700 ارب روپے کا مقروض ہے۔ آنے والی حکومتیں صدمات سے دوچار رہیں گی۔ 
چودھری شجاعت حسین اچانک بولے: کبھی وقت نکالیے اور گجرات یونیورسٹی کا چکر لگایئے۔ سابق وزیراعلیٰ نے لقمہ دیا۔ ''کیسی شاندار عمارت ہے‘‘۔ یاد دلایا کہ اس پر میں انہیں داد دے چکا۔ دوبار وہاں گیا ہوں۔ جامعہ کے ماحول سے متاثر ہوا اور اتنا ہی باوقار وائس چانسلر سے۔ جناب پرویز الٰہی اس پر ہنسے اور کہا: ان کا انتخاب جامعہ پنجاب کے لیے ہوا تھا۔ منت سماجت کر کے وہاں لے جایا گیا۔ راز کی ایک بات بتائی۔ دو معاہدے ان سے کیے۔ مالی اور چپڑاسی گجرات ہی سے رکھے جائیں لیکن داخلہ میرٹ پر ہونا چاہیے۔ سفارشی فون مجبوری ہے لیکن جب بھی التجا ہم کریں کسی بہانے ٹال دیا کیجیے۔ اس سمجھوتے پر عمل ہوتا رہا۔ شیخ صدیق یاد آئے۔ آج کل وہ کہاں ہیں؟ ان سے پوچھا تھا: یونیورسٹی تعمیر کرنے کے لیے آپ کو ذمہ داری کیوں سونپی گئی (شیخ صاحب کے ہوتے گھپلے کا سوال ہی نہ تھا)۔ بولے: چودھری صاحبان سنجیدہ ہیں۔ بروقت اور بہترین تکمیل کے آرزو مند۔ 
شیخ صدیق اور اسد اللہ خان ایسے لائق اور دیانت دار افسر چودھری کے دور میں نسبتاً آسودہ تھے۔ پوچھا: افسر شاہی کو رواں رکھنے میں آپ کیسے کامیاب رہے؟ کہا ''حوصلہ افزائی سے‘‘۔ ہمارا کام پالیسیوں کی تشکیل تھا۔ اچھے افسر کی منت سماجت بھی کرنی پڑے تو کوئی حرج نہیں۔ محبت سے بات کرنی چاہیے۔ بے دلی سے کام کرنے والا خود سرخرو ہوتا ہے اور نہ دوسروں کو ہونے دیتا ہے... لاہور کی آئی ٹی یونیورسٹی ایک اور چراغ تھا‘ جو بجھا دیا گیا۔ 
بہار اب آ کے کیا کرے گی کہ جن سے تھا رنگ جشن و نغمہ 
وہ گل سر شاخ جل گئے ہیں‘ وہ دل تہہِ جام بجھ گئے ہیں 
میاں شہباز شریف نے اول اس عمارت کو فروخت کرنے کی کوشش کی کہ کوئی ہوٹل بنا لے۔ نہ بکی تو ادھوری سی ایک یونیورسٹی بنا ہی دی‘‘ ارفع کریم کے نام پر عمارت کا نام رکھا اور سبکدوش ہوئے۔ ''ہم نے دس ہزار کال سنٹر بنانا تھے‘ جہاں کمپیوٹر کے پروگرام تیار کرتے‘ Software۔ اربوں روپے سالانہ کی آمدن ملک کو ہوتی۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھتے۔ افسوس کہ سب کچھ بھارت منتقل ہو گیا۔ حال ہی میں مرسڈیز والے کارخانہ لگانے آئے۔ جس کسی سے بات کی‘ اس نے حصہ طلب کیا۔ وہ بھی انڈیا چلے گئے‘‘۔ 
لائونج دکھ سے بھر گیا تھا۔ چودھری شجاعت! ایک عجیب آدمی ہیں۔ بات پوری مگر الم کو طاری نہیں ہونے دیتے۔ موضوع بدلنے کی کوشش کی۔ بلال الرشید‘ چودھری صاحب سے بحث کرتے رہے کہ ان کا اعصابی مسئلہ کس طرح پیدا ہوا اور کیونکر حل ہو سکتا ہے۔ یاد دلایا کہ اگرچہ خفیف سی لرزش رہتی ہے مگر چودھری صاحب صحت مند ہیں۔ نیند پوری اور کھانا ڈٹ کر کھاتے ہیں۔ موضوع نہ بدلا جا سکا۔ گھر کی دیواروں پہ اداسی بال کھولے سو رہی تھی۔ 
رگ و پے میں جب اترے زہرِ غم پھر دیکھیے کیا ہو 
ابھی تو تلخی کام و دہن کی آزمائش ہے 
اگلے دن عمران خان سے ملنا تھا اور جناب سراج الحق سے۔ طالب علم حیران ہوتا رہا۔ وہ دن کب آئے گا‘ جب ایک قومی سیاسی جماعت بروئے کار آئے‘ اعلیٰ اخلاقی اقدار اور جدید اداروں کے ساتھ۔ آج کی دنیا میں ملک اسی طرح فروغ پا سکتے ہیں۔ ترکی اور ملائشیا کی مانند۔ 
امید باقی ہے کہ خواب باقی ہے۔ انشاء اللہ ایک دن متشکل ہو کر رہے گا۔ اللہ جانتا ہے کہ ہم ہوں گے یا نہیں ہوں گے مگر وہ سپنا ضرور ہرا ہو گا۔ اس سرزمین کے لیے رحمۃ للعالمینؐ کی دعا ہے۔ ظاہر ہے کہ قبول ہو کر رہے گی ع 
امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved