کالم کا آغاز امید سے ہی کرنا چاہتی ہوں۔ اچھے وقت کی امید، دن بدلنے کی امید، ایسے وقت کی امید جب خاک بسر لوگوں کی آنکھیں بھی خوشی اور تحفظ کے احساس سے جگمگائیں گی، ایک ایسی شام کی امید جب کہیں دور سے بھی کوئی ایسی خبر نہ آئے گی جس سے دل دہل جاتے ہوں اور سوچوں میں خوف بسیرے ڈال دیتا ہو۔ ایک ایسے دن کی امید جب امن ہر سو رقص کرے گا، جب شہر کراچی کے ہر باسی کا دل تحفظ اور امن کے احساس سے لبریز ہوگا، جبکہ خوب صورت لوگوں کو اپنے راستوں پر گھر کا سا تحفظ ملے گا، جب بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان بستے شہروں ، قصبوں اور وادیوں میں ہر مسلک سے تعلق رکھنے والا امن اور حفاظت سے رہے گا، جب پنجاب کے دور دراز دیہات سے لے کر پنجاب کے دل لاہور میں رہنے والے زندہ دل لوگ کسی انجانے خوف اور آئے روز کی قیامت کے ڈر سے زرد چہرہ نہیں ہوں گے، بلکہ خوشحالی امن اور انصاف میں سب کا حصہ ہوگا۔ امید قائم رکھنی چاہیے ایک ایسے وقت کی جب حکمران یہ احساس کرلیں گے کہ معاشی ترقی کی اہمیت سے زیادہ اس وقت امن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی فضا کی ضرورت ہے جس میں قانون کی حکمرانی ہو، آئین کی بالادستی ہو۔ دہشت گردی کے عذاب کو کم کرنے ، اس عفریت کو قابو کرنے کی ضرورت ہے۔ چلیے امید کرتے ہیں کہ حکمران جس طرح اپنی توانائی معیشت کی بہتری کے لیے استعمال کررہے ہیں ،امن وامان قائم کرنے کے لیے بھی اسی جذبے ، اسی توانائی اور اسی پلاننگ کے ساتھ سوچیںگے۔ ویسے تو آئی ایم ایف کی چھتری تلے ورلڈ بینک کی ہدایات اور حکم نامے پر عمل کرتے ہوئے معیشت کی بہتری کے خواب دیکھنے والوں پر حضرت غالب بھی طنزیہ مسکراتے ہوئے فرماتے ہیں ؎
قرض کی پیتے تھے مے، اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
پھر بھی امید کا دامن ہم ضرور تھامے رہیں گے، کیونکہ انسان کی امید اس کی سانس کے ساتھ ٹوٹتی ہے۔ ورنہ جب تک سانس کی ڈوری سلامت ہے ،امید سلامت رہتی ہے۔ ہاں مایوسی، ناامیدی ، خوف ،خدشے اور وسوسے ، ساتھ ساتھ سفر کرتے رہتے ہیں اور اس سفرمیں کبھی کبھی یہ تاریک لمحے ہم پر حاوی ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں امید کا دیا جلانا ضروری ہوتا ہے۔
ہاں اس وقت میرے وطن کے شب و روز بدامنی سے اٹے ہیں، ایک خوفناک جنگ جاری ہے اور یہ جنگ سرحدوں تک محدود نہیں بلکہ میدان جنگ پورا ملک ہے۔ دشمن کا حملہ کسی بھی وقت کہیں بھی ہوسکتا ہے۔ سفاک دشمن معصوم بچوں کے سکولوں کو بارود سے اڑا سکتا ہے، ہسپتال پر حملہ کرسکتا ہے، پررونق بازاروں کو ایک لمحے میں ماتم کدے میں بدل سکتا ہے، یونیورسٹی کی بس پر حملہ کرکے خوابوں سے بھری آنکھیں آرزئوں سے لبریز کرسکتا ہے۔ شفاخانوں میں مریضوں کو یرغمال بناسکتا ہے، یہاں تک کہ وہ ادارے جو ہماری حفاظت پر مامور ہیں ،جن کی ذمہ داری شہروں میں امن وامان قائم کرنے کی ہے ،ان پر حملہ کرکے حکومت کی رٹ کو چیلنج کرسکتا ہے۔
اس جنگ میں ، ہزاروں شہری بے موت مارے گئے ہیں۔ ہمارا دشمن بہت منظم ہے ۔معلومات کی رسائی سے لے کر جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے۔ اس جنگ میں دشمن کئی بار اس کا مظاہرہ کرچکا ہے۔ جی ایچ کیو پر حملہ ، مہران بیس پر حملہ ، پشاور ایئرپورٹ پر حملہ اور اب کراچی ایئرپورٹ پر حملہ ۔ کیا یہ سب ہمیں جگانے کے لیے کافی نہیں کہ اس جنگ میں دشمن کس حد تک آگے جا چکا ہے۔ اس کا ایجنڈا کیا ہے اور ہمیں اس کے مقابل کیسی تیاری کی ضرورت ہے۔ مگر حیرت ہے حکمرانوں کی غفلت پر کہ گزشتہ 13سال سے وار آن ٹیرر کے نام پر یہ جنگ پاکستان کے گلی کوچوں میں لڑی جارہی ہے لیکن کائونٹر ٹیرر ازم کے نام پر کوئی ٹھوس حکمت عملی ،کوئی منظم پلاننگ نظر نہیں آتی۔ پچھلی حکومت میں تو خیر کوئی پلاننگ تھی ہی نہیں۔ معاشی محاذ سے لے کر دہشت گردی کے محاذ تک ہر فیصلے کو مفاہمت کی سیاست کی نذر کردیاگیا۔ واحد مقصد صرف حکومت کے پانچ سال پورے کرنا تھا اور یہی کامیابی سمیٹ کر وہ اپنے گھر کو چلے گئے۔ اس دور میں دہشت گردی کے کون کون سے بڑے حملے نہیں ہوئے،اہم ترین اور قومی سلامتی کے ادارے کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔ ایبٹ آباد کا واقعہ ہوا۔ مہران بیس پر حملہ ہوا۔ مگر سابق حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں
رینگی۔ ہر نئے سانحے کے بعد ایک گھسا پٹا مذمتی بیان آجاتا۔ اس وقت کی اپوزیشن آج کی حکمران جماعت ن لیگ ، تحریک انصاف ، پیپلزپارٹی کو آڑے ہاتھوں لیتی رہیں۔ اب 2014ء میں دہشت گردی کے حالات وہی ہیں،بدامنی کی وہی صورت حال ہے ہاں حکمرانوں کے چہرے بدل چکے ہیں۔ آج جب گزشتہ حکومت کے سابق وزیر ، مشیر ٹی وی پروگراموں میں بیٹھ کر اس طرح کی باتیں کرتے ہیںکہ ''حکومت دہشت گردی کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔‘‘''آخر حکومت کائونٹر ٹیرر ازم پالیسی کب بنائے گی؟‘‘ وزیر داخلہ کو استعفیٰ دے دینا چاہیے وغیرہ وغیرہ تو اس وقت ہمیں حیرت ہوتی ہے اور یاد آتا ہے کہ صاحب ،پانچ سال تو آپ نے بھی حکومت کی اور منظم ، دہشت گردی کے ہر بڑے حملے کے بعد صرف مذمتی بیانات پر ہی اکتفا کیاتو آج آپ کس منہ سے تنقید کررہے ہیں۔
اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکومت ہو یا اپوزیشن یہاں دہشت گردی جیسے بنیادی اور گمبھیر مسئلے پر بھی صرف سیاست ہورہی ہے۔ نواز حکومت بھی اس عفریت کو قابو میں کرنے کے حوالے سے مخلص دکھائی نہیں دیتی ۔صرف معیشت بہتر کرنے سے امن وامان کا مسئلہ تو حل نہیں ہوگا۔ اکانومی کو ہی ملک کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کا نجات دہندہ سمجھنے والے حکمرانوں سے یہ کون کہے کہ آپ ایک جانب تو روزگار سکیمیں شروع کررہے ہیں ، نوجوانوں کو باروزگار بنانے کے لیے کہیں قرضے دیے جارہے ہیں تو کہیں پیلی ٹیکسیاں دی جائیں گی اور دوسری جانب خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں گھروں کے کفیل بے موت مارے جاتے ہیں۔ اب تک کتنے ہی افراد اپنے خاندانوں کے لیے روزگار کماتے ہوئے دہشت گردی کی نذر ہوگئے۔ ان کا تحفظ کون کرے گا؟ ایک جانب آپ ایسی پالیسیاں بنارہے ہیں کہ آپ کافوکس بے روزگاری ختم کرنا اور لوگوں کو روزگار دینا ہے تو دوسری جانب ہر سانحے کے بعد ایسے خاندانوں میں اضافہ ہورہا ہے جن کے کمانے والے دہشت گردی کی آگ میں جل رہے ہیں ، ایسے گھروں میں بے کسی اور دکھ کے تاریک سائے ، حکومتی بیانات سے دور نہیںہوں گے۔ کراچی کے سانحے میں کارگو گودام میں لگی آگ میں زندہ جل کر مرجانے والے ''سات باروزگار جوانوں ‘‘ کے پیچھے رہ جانے والے خاندانوں کا اب کیا حال ہوگا...؟
حکومت کو چاہیے کہ پل، سڑکیں، فلائی اوورزاور میٹرو ٹرینوں سے زیادہ توجہ اس جنگ پر دے جو شہر شہر جاری ہے اور ہنستے مسکراتے انسانوں کو زندگی سے جدا کرکے موت کی تاریک وادی میں اتار دیتی ہے۔ پیچھے رہ جانے والوں کو خوف ، وسوسے اور خدشے، زندہ درگور کیے رکھتے ہیں۔ ایسے حالات میں امید مرجھانے لگتی ہے۔ اس امید کو ہر صورت قائم رکھنا چاہیے لیکن اس وقت حکومت حالات کی سنگینی کا ادراک کیے بغیر صرف اکانومی کے نعرے لگا رہی ہے ،اس سے لوگوں کی امید ٹوٹتی جارہی ہے۔
تیر سارے کڑی کمان میں تھے
ہم کہ اک شہر بے امان میں تھے
زرد چہروں پہ کھوکھلی آنکھیں
جیسے بجھتے دیئے مکان میں تھے