پہلی گولی لگی ۔خون کا پہلا قطرہ نکلا تو چراغ دین نے اسے خدا کے نام کیا ۔پھر اس نے آخری گولی اور خون کے آخری قطرے کو خدا کے نام کیا۔ اسی عالم میں بظاہر وہ مر گیا۔
اب ماجرا ایسا عجیب ہے کہ خود اپنے ہی جسم کے سامنے کھڑا وہ اسے دیکھ رہا ہے ۔ وہ دیکھتا ہے کہ اس کے ساتھی اس لہولہان بدن کو دیکھ کر ذرا بھی خوفزدہ نہیں ۔ وہ دیکھتا ہے کہ اس کی سپاہ آگے بڑھتی ہی چلی جاتی ہے ۔ وہ دیکھتا ہے کہ دشمن کانپ رہا ہے۔ قتل یا راہِ فرار، اس کے لیے تیسری کوئی راہ نہیں ۔آخر ی خارجی بھی ماراجاتاہے ۔
چراغ دین دیکھتا ہے کہ اس کا جسم پرچم میں لپیٹ دیا جاتاہے ۔''اچھا ، تو اب مجھے دفن کر دیا جائے گا؟‘‘اب اسے اپنی چھوٹی بیٹی یاد آتی ہے ۔ پھر بڑی بیٹی ملائکہ ۔ اسے اپنی جوان بیوہ یاد آتی ہے اور بوڑھا باپ ۔ اب وہ گڑگڑاتا ہے ''اے میرے رب ،تیرے حکم پر میں ریاستِ اسلامی کے دشمنوں پہ ٹوٹ پڑا۔ چار کو میں نے قتل کیا اور پھر چار گولیاں میرے سینے میں اتاری گئیں ۔ اے میرے رب ، تیرے حکم پر میں نے موت کے خوف کو شکست دی ۔ اے میرے رب ، یہ ایک بہادر سپاہی کا جنازہ ہے ۔اے میرے رب، میں اپنے اہل و عیال کو تیرے ہی سپرد کرتا ہوں ۔ بے شک تو سب سے بہتر وارث ہے‘‘
تو وہ لحد میں اتار دیا گیا۔ اب فرشتے حساب کے لیے آتے اور زبانِ سوال دراز کرتے ہیں ۔ چراغ دین خاموش رہتاہے ۔ وہ دوبارہ پوچھتے ہیں اور اونچی آواز میں ۔ اس پر وہ اپنا دایاں ہاتھ ، خون سے تر بتر ہاتھ ان کی طرف بڑھاتا ہے۔ وہ سر سے پائوں تک لرز اٹھتے اور ایک دوسرے سے کہتے ہیں ''یہ تو شہید کا بدن ہے ۔ ہم ا س کے احتساب پہ قادر نہیں ۔ یہاں سے بھاگ نکلو وگرنہ تمہارے لیے بڑی خرابی ہے ۔ ‘‘وہ الٹے پائوں لوٹ جاتے ہیں ۔
یہ ایک بڑی لمبی کہانی ہے کہ قبر میں چراغ دین نے کیسا عجیب وقت گزارا۔ پھر حشر کی ساعت اسے اٹھایا گیا۔اب ایک مجمع اس کے استقبال کو کھڑا ہے ۔ حیران پریشان، وہ ان سے کہتاہے ''میںاِک سپاہی ہوں ‘‘ وہ کہتے ہیں ''ہم سب جانتے ہیں ۔ تو سرحد کی رکھوالی کرنے والا جوان ہے ۔تو وزیرستان کے پہلے دستے کا پہلا شہید ہے ۔ تو مملکتِ خداداد کے ماتھے کا جھومر ہے ۔تیرے لہو کا ہر قطرہ مقدس ہے ۔ ‘‘وہ کہتے ہیں ''تیری شجاعت کے طفیل ہم راتوں کو بے خوف سوئے ۔ تیری شہادت نے ہمیں دن میں کاروبار کی طاقت دی۔ تو موت سے لڑااور تو اپنے اہل و عیال کی تنگدستی کے خوف پہ غالب آیا۔ ‘‘
چرا غ دین کمزور آواز میں کہتا ہے ''ہاں ، اِک سپاہی ‘‘
وہ وہاں سے چل پڑتاہے ۔ راستے میں فرشتے جھک کر اسے سلام کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ''نزاع کے وقت تیرے دل میں ہمیں شہرت کی خواہش تک تو نظر نہیں آئی ۔ سلام ہو ، سلام! ‘‘
اب اسے اپنی شریکِ حیات نظر آتی ہے ۔ اسے ایک بوڑھا شخص نظر آتاہے ، جس کے سر پہ سونے کا تاج ہے ۔''سکینہ ‘‘وہ بھاگتا لیکن پھر رک جاتاہے ۔ وہ نور کے ہالے میں قید ہے ۔ ''کیا یہ سکینہ ہی ہے ؟‘‘وہ سوچ میں پڑ جاتاہے ۔ ادھر وہ اس کے قدموں میں جھک جاتی ہے ۔ وہ کہتی ہے ''تیرے جانے کے بعد میں نے اپنی چادر کی حفاظت کی اور میں نے تیری اولاد کو اپنا لہو پلایا۔ یہ دیکھ‘‘ وہ دیکھتا ہے کہ سفید چادر پہ کوئی داغ نہیں ۔وہ دیکھتا ہے کہ اس کی بیٹیاں چودھویں کے چاند کی طرح دمک رہی ہیں ۔
بوڑھا شخص اسے گلے سے لگا لیتاہے ۔''کیا میرے جانے کے بعد تم لوگوں کو بھوک افلاس نے آگھیرا؟ ‘‘چرا غ دین پوچھتا ہے ۔''نہیں میرے بچّے ، تیری سپاہ نے ہمارا خیال رکھا۔ یوں بھی سپاہی کے ورثا قناعت کے عادی ہوتے ہیں ‘‘اس کاباپ خوشی سے کہتا ہے ۔'' قبر میں کوئی تکلیف ؟ ‘‘چراغ دین پوچھتاہے۔ ''نہیں میرے بچّے ۔ ہم نے انہیں تیرا بتایااور ہمیں بڑی عزّت سے نوازا گیا۔ ‘‘وہ وہاں سے چل پڑتے ہیں ۔
اب اس کا سامنا دیگر مرنے والوں سے ہوتا ہے ۔ وہ حیرت زدہ رہ جاتااور اس کی زبان اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے ۔ وہ ہنس پڑتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں '' چراغ دین ، تو ہم پہ بازی لے گیا۔ ‘‘
چراغ دین رو نے لگتاہے ''میں سپاہی ...‘‘وہ کہتے ہیں ''بے شک ہم پہ بھی بڑا انعام و اکرام ہو ا ۔ بے شک ہم نے بھی اپنی جان نذر کی لیکن ہمیں مال و دولتِ دنیا سے نوازا گیا۔ ادھر تو دلیری سے لڑتا رہا۔ ترا نام شہیدوں میں لکھا گیا، تو موت سے نہیں ڈرا۔ تو بڑا جرّی جوان ہے ۔تونے کروڑوں لوگوں کی نگہبانی کی۔ اپنی جان کو خطرے میں ڈالا۔ اپنے بیوی بچوں کا پیار چھوڑنا گوارا کرلیا لیکن حق و شجاعت کے معرکے سے ہٹنا اور میدان جنگ سے پلٹنا گوارا نہ کیا۔ ہمیں تجھ پر فخر ہے۔ ‘‘