تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     16-06-2014

خودشکنی

قوموں کی بقا ایک کم از کم اتفاق رائے میں ہوتی ہے۔ خاص طور پر خارجہ پالیسی کے میدان میں‘ وگرنہ خودشکنی اور خرابی۔ کیا یہ نوجوان اس بات پر غور کرے گا‘ جس کے سامنے ایک طویل زندگی ہے۔ اللہ اس کا مددگار ہو۔ 
بہت دیر میں اس نوجوان کے بارے میں سوچتا رہا۔ معلوم ہوا کہ کسی امریکی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے یا شاید تعلیم پا کر لوٹ آیا ہے۔ سوچا: محمد اویس سے دو تین سال بڑا اور بلال الرشید سے ایک دو سال چھوٹا ہوگا۔ وہ محبت اور توجہ کا مستحق ہے۔ بیٹیاں اگر سب کی سانجھی ہوتی ہیں تو بیٹے کیوں نہیں۔ اسی نسل کو قائداعظم کا پاکستان تعمیر کرنا ہے۔ ان کے باب میں ہم نفرت اور تلخی کے متحمل نہیں۔ 
شب ٹیلی ویژن پہ اس کا ذکر تھا۔ حیرت ہوئی کہ ایک ذمہ دار باپ‘ جناب احسن اقبال کا تعلیم یافتہ فرزند‘ نیک نام دادی کا پوتا اتنا بے خبر کیسے ہو سکتا ہے؟ قومی اداروں کے خلاف اس کے دل میں اتنی کدورت کیسے آ گئی؟ کوئی بات نہیں‘ شاید اب اسے احساس ہو۔ کچھ اور بڑا ہوگا تو سیکھ لے گا‘ اگر الفت اور انس کے ساتھ اسے بتایا گیا۔ ٹوئٹر پر جاری کیا گیا‘ اپنا پیغام اس نے واپس لے لیا ہے؛ اگرچہ جیسا کہ ایک بار جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا "From my experience I have learned there is nothing off the record." ۔اپنے تجربے سے میں نے سیکھا ہے کہ زبان سے نکلنے والی کوئی بات آف دی ریکارڈ نہیں ہوتی۔ ہونٹوں نکلی‘ کوٹھوں چڑھی۔ برسبیل تذکرہ یہ کہ جنرل صاحب اب خاموشی اور گمنامی میں بسر کرنے کے آرزو مند ہیں۔ ان کا موڈ دیکھا تو چپ سادھ لی۔ شہرت اور ناموری کے مہ و سال بتا کر ایسی زندگی گزارنا عالی ظرف لوگوں کا کام ہے۔ ع 
انہی کا کام ہے یہ، جن کے حوصلے ہیں زیادہ 
وہ ایک بار سخت ناراض ہوئے۔ ایک بار تو براہ راست اظہار بھی کیا۔ خیر‘ صلح ہو گئی۔ ان کے دولت کدے پر‘ اسی ہنگام عرض کیا: صدر اوباما کے نام لکھے گئے اپنے چودہ صفحے کے خط کا ذکر جب آپ نے اخبار نویسوں کے سامنے کیا تو فوراً احساس ہوا کہ چھپ جائے گا۔ کہا: یہی میں چاہتا تھا۔ اس خط میں دہشت گردی‘ امریکی حکومت‘ پاکستان اور افغانستان کے بارے میں اس کی پالیسیوں پر پاکستانی عوام اور فوج کے احساسات کی بھرپور تصویر کشی انہوں نے کی تھی۔ خط‘ مکتوب الیہ کے ہاتھ میں خود دیا تھا۔ اس میں لکھا تھا: آئندہ سے پاک فوج کی قیادت کے ساتھ ان نکات کو ملحوظ رکھتے ہوئے بات کی جائے۔ 
ارے نہیں‘ اس دنیا میں حساب کیسے ممکن ہوگا۔ یومِ حساب ہی کو ہوگا اور وہ پروردگار ہی لے سکتا ہے‘ جو نیتوں کا حال جانتا ہے۔ بخاری کی پہلی حدیث یہ ہے: انما الاعمال بالنیات۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پہ ہوتا ہے۔ بدو نے سرکارؐ سے پوچھا: حساب کون لے گا۔ فرمایا: خود اللہ تعالیٰ۔ کہا: پھر خیر ہے۔ پوچھا کہ کیوں کر؟ عرض گزار ہوا: یا رسولؐ اللہ ہم نے دیکھا ہے کہ جب کوئی کریم حساب لیتا ہے تو نرمی کرتا ہے۔ اللہ تو سب سے زیادہ کریم ہے۔ 
یا رب تو کریمی و رسولؐ تو کریم 
صد شکر کہ ہستیم میانِ دو کریم 
نواب زادہ نصراللہ خان کہا کرتے: مولانا حسین احمد مدنی کے بارے میں لکھی جانے والی رباعی اقبالؔ نے حذف کردی تھی مگر کہاں حذف ہوئی۔ ہزاروں کو ازبر ہے: 
سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن است 
چہ بے خبر ز مقامِ محمدؐ عربی است 
بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست 
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است 
(دیوبند کے حسین احمد نے کیسی عجیب بات کہی۔ منبر پر کھڑے ہو کر کہا کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ مصطفیؐ کا ارشاد تو یہ ہے کہ دین کے دائرے میں سبھی کچھ ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو سب کچھ بولہب کا انداز ہے)۔ 
احسن ا قبال کے فرزند نے لکھا ہے: 
"The responsibility of all terrorist attacks falls squarely on the armed forces and intelligence agencies. People of Pakistan have made enough sacrifices. It is time that these institutions start doing their job of protecting Pakistan and not themselves. There would be no war, no Taliban, no external threat if they would have done their job. It is high time to not only hit back at terrorists but to secure Pakistan's future by dealing with this menace. Spend on education, health, development, people and ......... the army! Warna, yeh Taliban ko paalnay waali, India ko ukssnay waali, Jamhoriat ko lapaytnay wali fauj apnay bojh talay is mulk ko kuchal day gi. Karachi in prayers!"
(دہشت گردی کے تمام حملوں کی ذمہ داری مسلح افواج اور خفیہ ایجنسیوں پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستان کے عام لوگ بہت قربانیاں دے چکے۔ وقت آ گیا ہے کہ یہ ادارے ملک کی حفاظت کے لیے اپنے فرائض کی ادائیگی شروع کریں نہ کہ خود اپنی حفاظت کی۔ اگر اپنی ذمہ داری انہوں نے پوری کی ہوتی تو کوئی جنگ ہوتی اور نہ طالبان موجود ہوتے۔ وقت آ گیا ہے کہ نہ صرف دہشت گردوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے بلکہ اس عفریت سے بچ کر پاکستان کا مستقبل محفوظ بنانا چاہیے۔ فروغ تعلیم‘ صحت‘ ترقی اور عوام پر خرچ کرو اور فوج کو حد میں رکھو۔ ورنہ یہ طالبان کو پالنے والے‘ بھارت کو اکسانے والے‘ جمہوریت کو لپیٹنے والی فوج اپنے بوجھ تلے اس ملک کو کچل دے گی۔ کراچی کے لیے دعائیں) 
پہلی بات تو یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کے شہداء کی تعداد عوام سے کہیں زیادہ ہے۔ پانچ ہزار جوان اور افسر شہید ہو چکے‘ ایک فیصد۔ چالیس ہزار عام لوگ۔ فوجی تنصیبات پر حملوں کا تناسب بھی سب سے زیادہ ہے۔ ثانیاً افغان طالبان کی تشکیل پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے کی تھی‘ جو اپنے اندازِ فکر میں قوم پرست بھٹو سے متاثر تھے۔ افغان امور پر ان کے اولین مشیر۔ ثانیاً افغان مجاہدین کے سرپرست جنرل محمد ضیاء الحق تھے اور دنیا کی 122 اقوام نے سوویت سپاہ سے برسر جنگ ان قبائلیوں کی ستائش کی تھی۔ امریکی صدر ریگن نے اپنے ایک خطاب میں افغان مجاہدین کے بارے میں کہا تھا: 
"Moral equivalent of our founding fathers"۔ ''اخلاقی طور پر وہ آزاد امریکہ کی بنیاد رکھنے والے ہمارے اجداد کے ہم پلہ تھے‘‘۔ جنرل محمد ضیاء الحق میاں محمد نوازشریف کے سرپرست تھے۔ وہی نوازشریف‘ جو جناب احسن اقبال کے مربی ہیں۔ پنجاب کا شاہی خاندان طالبان کا نشانہ ہرگز نہیں اور نوازشریف ان کے خلاف کارروائی کرنے کے نہیں بلکہ ان کے ساتھ مکالمے پر مصر ہیں۔ 
افغانستان سے روسی فوج کی واپسی کے بعد یہ امریکہ تھا‘ جس نے جنرل محمد ضیاء الحق اور ان کے ساتھیوں کو ہوا میں قتل کر ڈالا اور افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت مسلط کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں نوازشریف ان کے آلۂ کار تھے۔ بعد میں وہ بھارت کی طرف مائل ہوئے اور ترقی پسند ان کی تائید کرنے لگے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کو مہلت ہی نہ ملی کہ وہ افغانستان میں انتقال اقتدار میں مدد کرتے۔ یہ بہرحال ایک تاریخی صداقت ہے کہ روسی پٹھو جنرل نجیب اللہ کے پیغام پر انہوں نے اقتدار سے دستبرداری کی پیشکش کی تھی‘ بشرطیکہ نجیب اللہ بھی الگ ہو جائیں۔ 
پشتونوں‘ ازبکوں‘ تاجکوں اور ہزارہ والوں کے درمیان احمد شاہ ابدالی کے عہد میں طے پانے والا عمرانی معاہدہ 1992ء میں کمیونسٹ حکومت کے ساتھ ختم ہو گیا تھا۔ افغانستان کو نیا سوشل کنٹریکٹ درکار تھا۔ افغانستان کے پڑوسی مسلم ممالک اور عالمی طاقتیں مدد کرتیں تو یہ ممکن تھا۔ شائیلاک کی طرح مگر ہر ایک نے اپنا حصہ وصول کرنے کی کوشش کی۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے سیاسی اور عسکری جانشین تاریخ کی حرکیات سے نابلد نکلے۔ خود ان کی جان گئی۔ اس نوجوان کے بزرگ مولانا امین احسن اصلاحی نے انہیں شہید قرار دیا تھا۔ خود احسن اقبال اور ان کے ہم نفس حسین حقانی بھی اس زمانے میں یہی گیت گایا کرتے۔ 
قوموں کی بقا ایک کم از کم اتفاق رائے میں ہوتی ہے۔ خاص طور پر خارجہ پالیسی کے میدان میں‘ وگرنہ خودشکنی اور خرابی۔ کیا یہ نوجوان اس بات پر غور کرے گا‘ جس کے سامنے ایک طویل زندگی ہے۔ اللہ اس کا مددگار ہو۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved