آم ابھی تک پکنے کے مرحلے میں ہیں۔ اہلِ وطن آموں کے پکنے کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ مگر اِس سے قبل انتخابی دھاندلی کا راگ سُن سُن کر لوگوں کے کان پک گئے ہیں۔ جُون آدھا گزرچکا ہے۔ جُوں جُوں گرمی بڑھتی جاتی ہے، سیاسی سرگرمیوں کی حِدّت بھی جولانی دکھانے کو اُتاؤلی ہوتی جاتی ہے۔ جن کے دم سے سیاسی میلے کی رونق ہے اُنہوں نے طے کر لیا ہے کہ اب کے گرمی کا جواب سیاسی سرگرمی سے دیکھیں گے۔
لندن کی ٹھنڈی فضاؤں میں طے پایا ہے کہ آفت کی پرکالہ سمجھی جانے والی جُون کی گرمی کے زیر سایہ پاکستان میں احتجاجی دھماچوکڑی مچائی جائے گی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری ایک بار پھر منتخب حکومت کے کَس بَل نکالنے کے لیے کمر کَس کے میدان میں اُترنے ہیں۔ نعرہ اِس بار بھی انقلاب ہی کا ہے اور کہہ بھی دیا ہے کہ یہ انقلاب عوام کے لیے ہوگا۔ کئی ذہنوں میں یہ سوال اُبھر سکتا ہے کہ کیا انقلاب برپا کرنے کی گزشتہ کوششیں خواص کے لیے تھیں؟ مگر خیر یہ سوال ڈاکٹر طاہرالقادری سے نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایک ترقی یافتہ ملک میں رہنے کی برکت سے اب وہ دلائل بھی ایسے ترقی یافتہ دیتے ہیں معترضین وہی والا یعنی اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں!
رانا ثناء اللہ کو ڈاکٹر طاہرالقادری کا انتظار ہے۔ یہ انتظار ویسا ہی ہے جیسا کہ اُردو کی قدیم داستانوں میں پائے جانے والے دیو کو ہوا کرتا تھا اور وہ جیسے ہی کسی انسان کو قرب و جوار میں پاتا تھا
فوراً ''آدم بُو، آدم بُو‘‘ چِلّانے لگتا تھا! رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری ذرا پاکستان آجائیں، پھر ہم اُن کا جِنّ نکالیں گے۔ اُنہوں نے اہلِ وطن سے کہا ہے کہ دُعا کریں ڈاکٹر صاحب جلد آجائیں۔ رانا صاحب نے یہ بات شاید دل لگی کے طور پر کہی ہے۔ کیا اِس طرح کی آمد کے لیے بھی دُعا کی جاتی ہے؟ یہ جِنّ نکالنے والی بات لُطف سے خالی نہیں۔ ہمیں مغالطے نے جکڑ رکھا تھا۔ ہم اب تک غیر معمولی جوش و خروش سے مُزیّن بیانات اور تیزا تیزی کی بُنیاد پر رانا ثناء اللہ کو جِنّ سمجھ رہے تھے۔ وہ تو ''ملٹی پرپز‘‘ نکلے، یعنی جِنّ بھی ہیں اور عامِل بھی!
رانا ثناء اللہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا جِنّ نکال سکیں گے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا مگر یہ جان کر خوشی ہوئی کہ میاں صاحب کی ٹیم میں ایسی ہستیاں بھی ہیں جو جِنّ نکال سکتی ہیں کیونکہ اِس وقت ملک کو خاصے جِنّاتی قسم کے حالات کا سامنا ہے۔ مثل مشہور اور مشاہدہ برحق ہے کہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔ تلوار کا مقابلہ امن کے پرچم سے نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کسی میں جِنّ گھس جائے تو اُسے نکالنے کے لیے جِنّ نکالنے کے ماہر ہی کی خدمات درکار ہوں گی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی آمد کے آثار ہویدا ہوتے ہی رانا ثناء اللہ کا متحرک ہو جانا اور اُن کے استقبال کے لیے بے چین ہونا حیرت انگیز ہے نہ غیر فطری۔ اگر شیخ رشید بھی ڈاکٹر طاہرالقادری سے مل
گئے تو سمجھ لیجیے احتجاجی ڈِش کا مزا دو آتشہ ہوجائے گا۔ عمران خان نے اعلان کردیا ہے کہ وہ کسی حکومت مخالف سیاسی اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اِس امر کی اُنہوں نے وضاحت نہیں کی کہ وہ خیبر پختونخوا حکومت کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں یا حکومت مخالف احتجاج کے معاملے میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا چاہتے ہیں۔
ملک جن حالات سے دوچار ہے ان کا تقاضا خواہ کچھ ہو، جنہیں احتجاج کے ذریعے خود کو نمایاں کرنا ہے وہ ایسا ہی کریں گے۔ اب تک کی کیفیت بتا رہی ہے کہ لندن میں کئے جانے والے اعلان میں چودھری برادران نیم دِلی سے شریک ہوئے تھے اور اب ڈاکٹر طاہرالقادری کو بھی اندازہ ہوچلا ہے کہ اُن کی ٹائمنگ غلط تھی۔ مگر کیا کیا جائے کہ اُن کی تو سیاست ہی احتجاج کے محور کے گرد گھومتی ہے۔ جیسے ہی لندن میں احباب مل بیٹھے، ملک میں حالات یکسر تبدیل ہوگئے۔ متحدہ کے قائد الطاف حسین کا حراست میں لیا جانا اور اُس کی بنیاد پر احتجاج کیا جانا لندن پلان کی راہ میں دیوار سا بن گیا۔ اور اِس کے بعد بجٹ پر بحث بھی شروع نہ ہوئی تھی کہ کراچی ایئر پورٹ پر حملہ ہوا۔ یہ سب کچھ یکے بعد دیگرے والے اُصول کے تحت ہوا اور احتجاجی تحریک ایک طرف رہ گئی۔ حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے عمران خان نے بھی فی الحال چُپ سی سادھی ہوئی ہے۔ اور دوسری طرف ڈاکٹر طاہرالقادری بھی وطن واپسی کا ارادہ ملتوی سا کئے بیٹھے ہیں۔
قوم حیران ہے کہ شدید گرمی میں تحریک چلانے کا اعلان کرکے سب پیچھے ہٹتے جارہے ہیں۔ ملک بھر میں لوگ پینے کے صاف پانی کو ترس رہے ہیں۔ ایسے میں اگر تھوڑا بہت احتجاجی شربت مل جاتا تو پیاس بھلے ہی نہ بُجھتی، تھوڑی بہت اشک شُوئی تو ہو ہی جاتی۔ احتجاجی تحریک کی بات کرکے ایک طرف ہٹ جانا ہمارے پیٹی بند بھائیوں یعنی میڈیا والوں کے لیے تو ایسی ہی بات ہے جیسے کسی پیاسے کو ٹھنڈے پانی کی بوتل دِکھاکر ترسایا جائے۔ بہت دنوں سے کچھ ایسا ہو ہی نہیں رہا کہ اینکرز دھماچوکڑی مچائیں۔ کہیں سے رائی ہی نہیں مل پارہی تو پربت کاہے کا بنائیں؟
ہم رانا ثناء اللہ صاحب کا فن دیکھنے کو بے تاب ہیں۔ ہم نے جِنّ نکالنے والے عاملوں کے بارے میں بہت کچھ سُن رکھا ہے۔ صحافت سے وابستہ رہنے کے طفیل بہت سے ایسے عامل صحافی بھی ہیں جو حُلیے سے تو جِنّ نکالنے والے ہی دکھائی دیتے ہیں مگر اُن کا بُنیادی فن جِنّ نکالنا نہیں بلکہ جِنّ کو کنٹرول کرکے صحافت کے شعبے میں لانا ہے! اپنے شعبے کے عاملوں یعنی عامل صحافیوں کی کاری گری ہم نے تین عشروں تک دیکھی ہے۔ اب تو بس یہ دیکھنا ہے ڈاکٹر طاہرالقادری کے رگ و پے میں قیام کرنے والا جِنّ کیسا ہے اور کون سا انقلاب برپا کرسکتا ہے!
ملک کو درپیش جِنّاتی حالات ہمیں یہ دُعا مانگنے کی تحریک دے رہے ہیں کہ فی الحال کوئی احتجاجی تحریک نہ چلے اور سب کچھ یوں ہی چلتا رہے۔ مگر شاید گرمی کا علاج یاروں نے سوچ رکھا ہے۔ اور پھر رمضان کا ماہِ مبارک بھی وارد ہونے کو ہے۔ جو کچھ کرنا ہے اُس سے قبل ہی کرنا ہے۔ شعبان ختم ہوتے ہی لوگ سب کچھ عید کے بعد پر ٹالنے لگیں گے۔ اور یوں انقلاب بھی ٹل جائے گا اور ڈاکٹر صاحب کا جِنّ نکالنے کا معاملہ بھی۔ اچھا ہے یہ تماشا رمضان المبارک سے قبل ہوجائے۔