تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     17-06-2014

پاک بھارت باہمی گفتگو :نئی سمت

پچھلے چالیس پینتالیس سال سے پاکستانی لیڈروں‘ عالموں‘ صحافیوںاور عام لوگوں سے میرا میل ملاپ بنا ہوا ہے۔بھارت پاک تعلقات کے بارے میںمنظم درجنوںبیٹھکوں میں حصہ لے چکا ہوں لیکن ''ریجنل پیس انسٹیٹیوٹ‘‘کے ذریعے منظم اس میٹنگ میں دونو ں ملکوں کے مقرروں میں اس بار جیسی رفاقت میں نے دیکھی‘پہلے کبھی نہیں دیکھی۔اس میٹنگ کا انتظام اسلام آبا دکے شاندار' ہوٹل سیرینا‘ میں ہوا ۔بھارت اور پاکستان سے لگ بھگ دس دس مقررین نے حصہ لیا۔مجھے یاد ہے کہ پاکستان کے 'انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک انسٹیٹیوٹ‘ میں تقریر کے دوران بریگیڈیئر نور حسین نے اندرا جی کے خلاف اتنی سخت باتیں کہی تھیں کہ آغا شاہی جی کو مداخلت کرنی پڑی۔کم و بیش یہی حال بھارت پاک میٹنگوں میں ہوتا رہا۔
یہ ایسی پہلی بیٹھک تھی ‘جس میں دونوں طرف کے ایک ایک مقرر نے کوئی بھی اعتراض والی بات نہیں کہی۔پاکستان کی طرف سے تین چار فوجی جنرلوں نے حصہ لیا ‘جن میںریٹائرڈ چیف آف آرمی اور دیگر اہم افسران بھی تھے۔بھارت کے دو سابق وزیر اور پاکستان کے تین سابق وزیر تھے۔دونوں طرف سے کئی سابق سفارتکار اور صحافی بھی تھے۔لگ بھگ 10 گھنٹے تک چلی اس میٹنگ میں پاکستانی دوستوں نے یہ جاننے کی
کوشش کی کہ نریندر مودی کیسے آدمی ہیں؟کیا وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ایجنڈے کو لاگو کریں گے؟سنگھ اور مودی کا تعلق کیسا ہے؟ یہ انتخابات بی جے پی نے جیتا ہے یا مودی نے جیتا ہے؟من موہن دس سال وزیر اعظم رہ گئے لیکن ان میں اتنی ہمت کیوں نہ رہی کہ وہ اپنے مقام پیدائش (چکوال) کو دیکھنے پاکستان آتے۔یہ سوال کئی لوگوں نے اٹھایا کہ کیا مودی کی جیت‘ بھارت میں فرقہ واریت کی جیت ہے ؟ان سوالوں کے جواب ہم لوگوں نے کافی تسلی بخش انداز سے دیے۔
سبھی پاک جنرلوں اور سیاسی استادوں کا ماننا تھا کہ اب جنگ کاوہم ختم ہو چکا ہے ۔ہر مسئلے کا حل بات چیت سے ہی کرنا ہوگا۔بھارت کی یہ شرط ہے کہ پاکستان پہلے دہشت گردی کو ختم کرے‘تب اس سے بات چیت شروع ہو گی اور پاکستان کی یہ شرط ہے کہ پہلے کشمیر کا مسئلہ حل کرو‘تب بات کریں گے‘ دونوں ہی کا رویہ عملی نہیں ہے ۔دونوں مسئلوں کے باوجود دونوں ملکوں کو بات چیت کے تار جوڑے رکھنے چاہئیں جیسا کہ بھارت اور چین کے بیچ چلتا رہا ہے ۔
دونوںطرف کے مقررین نے تجارتی تعلقات بڑھانے ‘آنا جانا اور ویزا کی سہولیات دینے ‘نصابی کتابوں میں سدھار کرنے‘اکیڈمک تعلق بڑھانے‘میڈیا تعاون کو متحرک کرنے،تہذیبی و ثقافتی سیاحت بڑھانے وغیرہ جیسے کئی تخلیقی سجھائو دیے۔میری گزارش پر سبھی پاکستانی تقریر کرنے والوں نے اردو میں بولنا شروع کر دیا جبکہ بھارتی مقررین انگریزی سے چسپاں رہے۔
کل رات پاکستان کے وزیر خارجہ سرتاج عزیز کے ساتھ میری ایک دو گھنٹہ بات ہوئی۔جنرل ایوب خان کے بیٹے گوہرایوب خان اور پوتے عمر( رکن پارلیمنٹ )سے بھی ملاقات ہوئی۔پاکستان کے سابقہ وزراء کے ساتھ ناشتا ہوا‘ان میں سے ایک لندن میں راجیو گاندھی کے کلاس فیلو تھے ۔
...............
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے بیچ اچھی طرح سے گفتگو شروع ہو گئی ہے ‘ اس سے کچھ توقع ہوئی ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے۔آج یہاں پاکستان کے اخباروں میں نریندر مودی کا خط خاص صفحات پر چھپا ہے۔دونوں وزراے اعظم نے اپنے اپنے خط میںدلّی میں ہوئی ان کی ملاقات پرراحت محسوس کی ہے اور دونوں ملکوں کے بیچ تشدد اور مڈبھیڑ جیسے انداز کو ترک کرنے کی بات کہی ہے ۔میاں نواز شریف کے اس خط سے اس بات کی تردید ہو گئی ہے کہ ان کے دلی قیام کے دوران میں کچھ بد مزگی ہو گئی تھی ۔ لیکن کل لاہور پہنچتے ہی پاکستان کے کئی اعلیٰ فوجی افسران‘لیڈران اور صحافیوں سے ملاقات ہوئی ۔ کچھ ممتاز سیاسی چالوں کے ماہر بھی ملے۔انہوں نے نواز اور پڑوسی ممالک کے سربراہان کو بلائے جانے کی تو تعریف کی لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ بھارتی اخباروں اور ٹی وی چینلوں کے رویے سے پاکستان میں یہ خیال پھیلا کہ میاں نوا ز مودی سے دب گئے۔انہوں نے کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا ‘جبکہ مودی نے ان سے دہشت گردی پر 'کافی کچھ‘ کرنے کیلئے کہا ۔یہ بھی عجیب سی بات ہوئی کہ میاں نواز شریف بھارتی کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں سے نہیں ملے ۔پاکستان کے جوبھی لیڈر بھارت جاتے ہیں‘وہ کشمیری لیڈروں سے بات ضرور کرتے ہیں۔
میاں نواز شریف کے بارے میں ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ان کی حالت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔وہ دہشت گردی کو ختم کرنے کی گارنٹی کیسے دے سکتے ہیں ؟یوں بھی بھارت اور کشمیر میں دہشت گردی کے واقعات کی تعداد لگاتار کم ہو رہی ہے جبکہ پاکستان میں بڑھ رہی ہے۔جنرل مشرف کو باہر جانے کی بھی چھوٹ مل گئی ہے ۔
کچھ لوگوں کا مشورہ تھا کہ کشمیر کا مسئلہ ایک دن میں حل نہیں ہو سکتا۔اس پر بات چلتی رہنی چاہیے لیکن دونوں ملکوں کے بیچ باشندوں کا آنا جانا ‘تجارت‘اقتصادی اور تہذیبی تعاون لگاتار بڑھنا چاہیے بالکل ویسے ہی جیسے کہ حدودی تنازع کے با وجود بھارت چین تعلقات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔یہاں ابھی تک لوگوں میں نریندر مودی کی فتح پُراسرار بنی ہوئی ہے ۔ان کو سمجھ نہیں پڑ رہا ہے کہ حقیقت میں مودی کیا کریں گے؟بھارت پاک تعلقات اچھے ہوجانے کے بارے میںلوگوں میںتمنا بنی ہوئی ہے لیکن ابھی تک ان کا پختہ اعتماد نہیں بنا ہے ۔اگر مودی اور نواز نے فوراً کچھ ٹھوس قدم نہیں اٹھائے تو دونوں ملکوں کے مذاکرات کو پٹڑی سے اترنے میں دیر نہیں لگے گی ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved