بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں اپنے پہلے خطاب میں جہاں اپنی حکومت کا ایجنڈا پیش کیا، وہیں ملک کی سب سے بڑی اقلیت (مسلمانوں )کا ذکر کرتے ہوئے ان کے حالات کو بہتر بنانے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے۔گو کہ ان ارادوںپر ابھی رائے بنانا قبل از وقت ہوگا، مگر مودی نے جس طرح ایک ویلفیئر حکومت کا خواب دکھانے کی کوشش کی ہے، اندیشہ ہے کہ کہیں یہ ایک مفروضہ ثابت نہ ہوجائے۔ اس سے قبل بھی کئی لیڈروں نے ماضی میں اسی طرح کے خواب عوام کو دکھائے ہیں ، مگر جب ان کا سامنا زمینی حقائق سے ہوا تو وہ آسمان سے زمین پر آگئے۔
اس تقریر میں مودی نے مسلمانوں کے حوالے سے کہا کہ دہائیاں گزارنے کے باوجود ملک کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمان غربت کا شکار ہیں۔نئی حکومت ملک کی ترقی میں اقلیتوں کو شریک بنانے کیلئے ہر ممکن قدم اٹھائے گی۔ اگر مودی حکومت واقعی مسلمانوں کی ترقی اور ان کی بہتری کیلئے کوئی ٹھوس قدم اٹھاتی ہے تو یہ قابل تعریف ہوگا۔سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے 2005ء میں جسٹس راجندر سچر کی قیادت میں مسلمانوں کی اقتصادی اور سماجی صورت حال کا جائزہ لینے کیلئے ایک کمیشن قائم کیا تھا، جس نے مسلمانوں کی پسماندگی کے حوالے سے کئی ہوشربا انکشافات کیے ،جس کے نتیجے میں سابق حکومت نے ایک 15نکاتی پروگرام کی منظوری دی جس کے تحت مسلم بچوں کو اسکالرشپ اور مسلم اکثریتی علاقوں میں خصوصی ترقیاتی اسکیموں کا نفاذ شامل تھا۔مودی حکومت نے ابھی تک یہ واضح نہیں کیا ہے ، کہ آیا یہ اسکیمیں جاری رہیںگی یا ختم کی جائیںگی، کیونکہ مغربی صوبہ گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے انہوں نے ان اسکیموں کی مخالفت کی تھی اور ان میں سے اکثر اسکیموں کو گجرات میں لاگو نہیں ہونے دیاتھا۔
مودی کی تقریر سے قبل صدرجمہوریہ پرناب مکھرجی نے دونوں ایوانوں سے رسمی مشترکہ خطاب کیا،جو دراصل نئی حکومت کی پالیسیوں اور ترجیحات کا اعلان ہوتاہے۔ صدر مملکت کی تقریبا پانچ ہزار الفاظ پر مشتمل تقریر میں پچاس نکات بیان کئے گئے ہیں ۔ ان میں اقلیتوں کے بارے میں سر سری طور پر یہ کہا گیا : '' یہ افسوس کا مقام ہے کہ آزادی کے ایک طویل عرصہ بعد بھی اقلیتی فرقوں کے طبقات مفلسی اور بد حالی کا شکار ہیں کیونکہ سرکاری فلاحی اسکیموں کے ثمرات ان تک نہیں پہنچے ہیں۔ حکومت تمام اقلیتوں کو ہندوستان کی ترقی کی دوڑ میں شامل کرنے کے لئے عہد بستہ ہے ۔ حکومت اقلیتی فرقوں میں جدید اور ٹیکنیکل تعلیم کے فروغ کی طرف خصوصی توجہ دے گی اور اسے تقویت پہنچانے کے لئے اقدامات کرے گی اور نیشنل مدرسہ ماڈرنائزیشن پروگرام شروع کرے گی ۔‘‘
اس مختصر سے اعلان میں کوئی ایسی بات نہیں جو قابل ذکر ہو اورجس سے اقلیتوں کی پسماندگی کے تئیں نئی حکومت کی فکر مندی کا اظہار ہوتا ہو۔ اس اعلان کو رسماً یا خانہ پری سے تعبیر کیا جاسکتا ہے تاکہ اہل ملک اور دنیا کے سامنے یہ تاثر جائے کہ یہ ایک سیکولر حکومت ہے جو تمام فرقوں کی بہبود اور ترقی کے لئے کوشاں ہے ۔
تاہم مدارس سے متعلق مودی حکومت کی فکر مندی چہ معنی دارد؟ نیشنل مدرسہ ما ڈرنائزیشن پروگرام کا اعلان در اصل ایک تیر سے دو نشانے لگانے کی کوشش ہے ۔ ایک یہ تاثر دینا کہ مسلمانوں کی اکثریت جدید یاعصری تعلیم حاصل نہیں کرتی، یہی ان کی پسماندگی کی وجہ ہے، دوم یہ تاثر دینا ہے کہ وہ مدارس کے نظام میں اصلاح کے لئے کوشاں ہے جس کا مطالبہ فرقہ پرست تنظیموں اور عناصر کی طرف سے کیا جاتا ہے ۔ نئی حکومت بننے کے چند دن بعد آر ایس ایس کے رہنما اندریش کمار نے ،جن کا نام مبینہ طور پر دہشت گردی کے واقعات میں آ چکا ہے ،جے پور میں کہا تھا کہ مدارس مذہبی جنون پھیلانے کی تعلیم دیتے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ مسلمان ایسے مدرسے قائم کرکے دکھائیں جو قومی یکجہتی کا درس دیتے ہیں۔ مدرسہ ماڈرنائزیشن پروگرام کو ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے دیرینہ مطالبہ کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ سچر کمیٹی کے مطابق مسلمانوں کا محض چار فی صد حصہ مدارس میں تعلیم حاصل کرتا ہے ۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق یہ تعداد 15 فیصد ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر بقیہ 96فیصد یا85فیصد مسلم آبادی کیلئے مودی سرکار کے پاس کیا پروگرام ہے؟ اس سے قطع نظر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ مدارس کے لیے جدید کاری کا کونسا نیا پروگرام حکومت شروع کرے گی ؟ یہ پروگرام تو نوے کی دہائی سے چلا آرہا ہے ۔ اس میں کسی نئی بات کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا۔ بہر حال جملہ معترضہ کے طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں نے جس طرح دین کا تصور محدود کردیا ہے ،اسی طرح انہوں نے تعلیم کا تصور بھی محدود کردیاہے ، ورنہ آج یہ صور ت حال نہیں ہوتی کہ ہر آنے والی حکومت کی ' خصوصی عنایت ‘ مدارس پر ہوتی ہے ۔ چنانچہ مدارس کی شکل میں مسلمانوں کے اصل تعلیمی مسائل سے صرف نظر کرنے کا ایک بہانہ مل گیا ہے ۔
علاوہ ازیں نئی حکومت نے اقلیتوں کو ترقی کی دوڑ میں بھی شامل کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ تاہم یہ اعلان بھی مبہم ہے ۔ اس سلسلہ میں بھی کسی لائحۂ عمل کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ یہ صرف ہوائی باتیں ہیں جن کا مقصد صرف دنیا کے سامنے اپنا سیکولر امیج پیش کرنا ہے ۔ اگر مودی حکومت واقعی اس سلسلہ میں سنجیدہ اور مخلص ہے تو اسے مساوی مواقع فراہم کرنے کے لیے اقلیتوں کو ریزرویشن دینے اور مساوی مواقع کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ صدر جمہوریہ کی تقریر میں جودوسرا نکتہ اقلیتوں کے متعلق بیان کیا گیا ہے ،وہ فرقہ ورانہ فسادات کے سدباب کے سلسلہ میں ہے ۔ حالانکہ فرقہ ورانہ تشدد ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے پوراملک متا ثر ہوتا ہے ۔ اس بارے میں صدر جمہوریہ نے
کہا ' 'حکومت بائیں بازو کی انتہا پسندی سے نمٹنے اور فرقہ ورانہ تشدد کے واقعات کے انسداد کے لئے ریاستی حکومتوں کے صلاح و مشورے سے ایک قومی حکمت عملی تیار کرے گی ۔‘‘ تاہم اس بارے میں نئی حکومت کے وعدے پر زیادہ اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ عام انتخابات کے اختتام پذیر ہونے کے بعد سے اب تک ایک درجن سے زائد فسادات ہوچکے ہیں ۔ منافرت پھیلانے والے عناصر اور تنظیموں کے حوصلے اتنے بلند ہوچکے ہیں کہ پو نا میں ایک مسلم نوجوان پرو فیشنل شیخ محسن صادق کو انتہائی بیدردی سے قتل کردیا گیا ۔ ان کی جماعت کے پونا سے رکن پارلیمان نے محسن کے قتل پر انتہائی اشتعال انگیز بیان دیتے ہوئے کہ ایسا ہونا ایک فطری رد عمل تھا جبکہ مظفرنگر فسادات میں ملوث ان کی پارٹی کے ایک ایم ایل اے نے ان کا مطالبہ تسلیم نہ کرنے پر نظم و نسق کا مسئلہ کھڑ اکرنے کی دھمکی دی۔ ان واقعات کے تناظر میں حکومت کے ان اعلانات پر کون اعتبار کرے گا؟
چنانچہ اقلیتوں ، کمزور طبقات ، دلتوں اور دیگر طبقات کو اس حکومت کے وجود میں آنے کے حوالے سے جو خدشات لاحق تھے ان کے زائل ہونے کا امکان کم نظر آرہا ہے ۔موجودہ حکومت کے وزراء بھی متنازع اور غیر حقیقی مو ضوعات کو اچھالنے میں زیادہ مستعد دکھائی دیتے ہیں ۔ یکساں سول کوڈ ، آرٹیکل 370اور بابری مسجد پر مندر تعمیر کرنے کا راگ دوبارہ چھڑ چکا ہے ۔ شاید یہ اصل مسائل کی طرف سے عوام کی توجہ ہٹانے کا ایک کارگر حربہ ہے۔ اقتدار میں آنے کے لئے بی جے پی نے جو سبز باغ دکھائے ہیں انہیں شرمندہ تعبیر کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے ۔