تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     17-06-2014

توبہ کی حقیقت ۔۔ (قسط اول)

توبہ کے معنی ہیں 'رجوع کرنا‘ ؛ ' تَائِب‘ اور' توّاب‘ بندے کی بھی صفت ہے اور مبالغے کے ساتھ''تَوَّاب‘‘ اﷲتعالیٰ کی صفت ہے۔ اس کا مطلب ہے بندے کا کفروشرک سے اسلام کی طرف، نفاق سے اِخلاص کی طرف، مَعصیت سے اِطاعت کی طرف، فِسق وفُجور سے تقوے کی طرف اور گناہ سے نیکی کی طرف پلٹ کرآنا اور اللہ تعالیٰ کا اپنے عفووکرم اور رَأفت ورحمت کے ساتھ بندے کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ پس'' تائب‘‘ کے معنی ہیں ' توبہ کرنے والا‘ اور ''تَوَّاب‘‘ کے معنی ہیں:' بہت زیادہ توبہ قبول فرمانے والا‘۔ 
یہ عنوان میں نے اس لئے منتخب کیا ہے کہ ہمارے ہاں جب کوئی آفت آئے، سیلاب آئے ، زلزلہ آئے،طوفانِ بادوباراں ہو،خشک سالی ہو توکہا جاتاہے کہ سب اجتماعی توبہ کریں ، یومِ 'توبہ واستغفار‘ منائیں۔ میرے علم میں تو عہدِ رسالت مآب ﷺ میں'اجتماعی توبہ‘ کی کوئی سُنّت مبارَکہ یا شِعار نہیں ہے، البتہ قرآن کریم اور احادیث مبارَکہ میں توبہ کی ترغیبات ، قبولیتِ توبہ کی بشارتیں اوراس کے نتیجے میں فلاحِ دنیا اورنجاتِ اُخروی کی نوید ضرورہے۔ سورج گرہن کے موقع پر''صلوٰۃ الخسوف‘‘، قحط سالی کے موقع پر''صلوٰۃ الاستسقاء‘‘ اور یومِ عرفہ کی شام اجتماعی دعا کا شِعار ثابت ہے؛ تاہم استغفار، توبہ کے معنی کو شامل ہے۔
توبہ کا تعلق قلب اور روح سے ہے،'' نَفْسِ لَوَّامَہْ‘‘ یعنی ضمیر کی بیداری سے ہے ، یہ خوداحتسابی اور اصلاحِ نفس کا ایک باطنی اور روحانی عمل ہے۔ 
اس قلبی عمل کی نَشأۃ اور ترغیب انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے اور یہ انسان کی روح میں جو ہر ایمان کے زندہ ہونے اور زندہ رہنے کی دلیل ہے۔ 
اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاداس کے گناہ گار بندوں کے لئے نجات ومغفرت کا ایک بہت بڑا سہارا اور اس کے بے پایاں رحمت پر امید کی اِس سلگتی ہوئی چنگاری کے ''شعلۂ جوّالہ‘‘ بننے کے لئے انسان کی روح کو بے قرار کردیتاہے: ''(اے نبی!) کہہ دیجئے! اے میرے وہ بندو! جو(گناہ کرکے) اپنی جانوں پر زیادتی کرچکے ہو، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک اللہ(تمہارے) تمام گناہوں کو بخش دے گا، بے شک وہی بہت بخشنے والا بے حدمہربان ہے‘‘(الزمر:53)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''اگر اس آیت کے بدلے میں مجھے پوری دنیا(کی دولت) دے دی جائے تو بھی یہ سودا مجھے قبول نہیں ہوگا، اس پر ایک شخص نے عرض کی: اگر کسی نے شرک کیا ہو، تو رسول اللہ ﷺ (کچھ دیر) خاموش رہے، پھر آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا: ہاں! اگر اس نے شرک کیاہو، تب بھی(اس کے لئے توبہ کادروازہ کھلاہے‘‘۔) ، (سند امام احمد :22362 )
اس کا مطلب یہ ہے کہ کفروشرک کی معافی توبہ کے بغیر ممکن نہیں ہے اور اگر کفر وشرک سے توبہ کرکے صدقِ دل سے ایمان قبول کرلیتاہے تو اس کے لئے رسول اللہ ﷺ کی یہ بشارت موجود ہے : ایک طویل حدیث میں راوی بیان کرتے ہیں کہ عمرو بن عاص کی موت کے وقت ہم حاضر ہوئے تو انہوں نے ہمیں بتایا:''جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام (کی حقانیت) کو ڈال دیا، تو میںنبی ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی: (یا رسول اللہ!) اپنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں، رسول اللہ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا، آپ ﷺ نے فرمایا: عمرو! تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کی: (بیعت سے پہلے) میری ایک شرط ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: بولو! کیا شرط ہے؟ میں نے عرض کی: میرے (ماضی کے)گناہوں کو بخش دیاجائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اسلام زمانۂ کفروشرک کے گناہوں کو مٹادیتاہے اور ہجرت اُس سے پہلے گناہوں کو مٹادیتی ہے اور حج اُس سے پہلے گناہوں کو مٹادیتا ہے‘‘ (مسلم:192)۔ یہ بشارت اس اسلام کے لئے ہے جو کسی خوف یا طمع کے سبب سے نہیںبلکہ اسلام کی حقانیت کو دل سے تسلیم کرکے قبول کیا جائے۔ اور ہجرت کی حقیقت کو رسول اللہ ﷺ نے ان کلمات میں بیان فرمایا : (حقیقی) ہجرت وہ ہے کہ مومن ہر اس چیزکو چھوڑ دے جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے، اسی طرح گناہوں سے پاک صاف ہونے کی بشارت اس کے لئے ہے کہ جس کا حج اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوجائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : '' بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو توکسی صورت میں معاف نہیں فرماتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اس کے علاوہ جس کے لئے چاہے (دیگر ) گناہوں کو بخش دیتا ہے‘‘ (النساء:48)۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشادکا محمل(مقصود ومطلوب) یہ ہے کہ بندہ کفروشرک سے توبہ نہ کرے بلکہ اس پر ڈٹا رہے اوراسی پر اس کی موت واقع ہو۔
توبہ کے روحانی اور ارتقائی مدارج حسبِ ذیل ہیں: (1)اپنی معصیت کا اقرار واعتراف؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ''بے شک بندہ جب اپنے گناہ کا اعتراف کرکے توبہ کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے‘‘(بخاری:4141)۔ (2) اس پر اللہ کے تعالیٰ کے حضور اظہارِ ندامت وشرمساری ؛ چنانچہ سورہ القیامہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے ضمیرکو'' نفسِ لوّامہ ‘‘یعنی گناہ پر ملامت کرنے والا قرار دیا ہے اور اس کی قسم فرمائی ہے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا:''ندامت توبہ (کی روح) ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ: 4252)۔ مشہور مسئلہ ہے کہ صغیرہ گناہ پر اصرار بھی اسے کبیرہ بنادیتاہے۔ چونکہ استغفار ندامت کی علامت ہے، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے استغفار کرلی، اس نے (گناہ) پر اصرار نہیں کیا۔ (3)اﷲتعالیٰ کی بارگاہ میں عفووکرم اور مغفرت کی التجا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: ''اوراپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جلدی کرو، جس کا عرض تمام آسمان اور زمینیں ہیں ، جو متقین کے لئے تیارکی گئی ہے‘‘ (آل عمران: 133)۔ (4) آئندہ کے لئے اس کا ارتکاب نہ کرنے کا عہد۔(5)معصیت کا تعلق حقوق اللہ کی پامالی سے ہویا حقوق العباد کی، دونوں صورتوں میں شریعت میں اس کی تلافی کا جو طریقہ مقرر ہے، اس کے مطابق اس کی تلافی کرنا، مثلاً ماضی کی چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا، ماضی کی واجب الادا زکوٰۃ کی ادائیگی ، جس بندے کا حق غصب کیا ہے، اس سے معافی طلب کرنا اور غصب شدہ حق کو ادا کرنا وغیرہ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''کیا تم جانتے ہوکہ مُفلس کون ہے؟ صحابہ نے عرض کی: ہمارے نزدیک مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم (ودینار) اوردنیاوی ساز و سامان نہ ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں مُفلس وہ ہے جو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے نامۂ اعمال میں نمازیں ، روزے اور زکوٰۃ سب کچھ ہوگا (لیکن اس کے ساتھ ساتھ) اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر(بدکاری کی) تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال(ناحق) کھایا ہوگا، کسی کا(ناحق) خون بہایا ہوگا، کسی کو (ظلماً) مارا ہوگا، توان سب حق داروں کو اُن کے حقوق کے بدلے میں اس کی نیکیاں دے دی جائیںگی۔ پھر جب دوسروں کے حقوق کے بدلے میں اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی، تواُن کے گناہ اُس کے کھاتے میں ڈال دیئے جائیں گے، پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا‘‘ (مسلم:2581)۔ (6)اللہ تعالیٰ سے اس پیمان وفا پر عہدہ برآ ہونے کی توفیق طلب کرنااورتوفیق کے معنی ہیں : اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیک مقصدکے لئے اسباب کو سازگار بنانا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: '' اور جس نے (اپنا مال اللہ کی راہ میں) دیا اور پرہیزگاری اختیارکی اوراس نے (اپنے عمل سے ) اچھائی کی تصدیق کی، تو ہم عنقریب اس کے لئے(فلاح کی منزل تک رسائی کو) آسان کردیں گے‘‘ (اللیل:5-7)۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشادہے: '' تم میں سے ہر ایک کے لئے جنت یا جہنم میں ٹھکانا مقدر ہے۔ صحابہ نے عرض کی: ''یارسول اللہ! کیا ہم اپنی تقدیر پر توکل کرکے (عمل سے دستبردار نہ ہوجائیں)؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا(نہیں) تم (نیکی کے کام) کئے جاؤ ۔ ہر ایک کے لئے اس کی منزل تک رسائی کو آسان کر دیا جاتاہے، سو جو اہلِ سعادت میں سے ہے، اس کے لئے سعادت کے کاموں کو آسان کردیاجائے گااور جو اہلِ شقاوت میں سے ہے وہ اپنے لئے بدبختی کے کاموں میں آسانی سمجھے گا، پھر آپ نے سورۃ اللیل کی مندرجہ بالا آیات تلاوت فرمائیں‘‘ (بخاری:1362)۔ الغرض توبہ قربِ باری تعالیٰ کے لئے ایک باطنی تبدیلی اور روحانی ارتقاکا نام ہے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved