رسول کریم محمد مصطفیٰ ﷺکی تلوار مبارک عضب کے با برکت نام کی مناسبت سے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف ''ضرب عضب‘‘ کا باقاعدہ آغازہو چکا ہے ۔حکومت پاکستان کی جانب سے شروع کئے گئے اس فوجی آپریشن سے دو دن قبل حقانی گروپ کے کمانڈروں کی جانب سے جاری کیا جانے والا وہ حکم نامہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس میں انہوں نے شمالی وزیرستان میں موجود تمام غیر ملکیوں کو خبردار کرتے ہوئے وارننگ دی تھی کہ وہ فوری طور پریہ علا قہ چھوڑ کر چلے جائیں ورنہ ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔مقامی اور غیر ملکی دہشت گرد جو گزشتہ دس برسوں سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا چکے ہیں،کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں ہیں ۔انہوں نے پاکستان دشمنی کی انتہا کرتے ہوئے ہماری عزت و وقار اور معیشت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے ۔
تحریک طالبان کی شکل میں پاکستان کے بد ترین دشمنوں پر مشتمل دہشت گرد وں کے یہ گروپ پاکستان کی سلامتی کیلئے بہت بڑا خطرہ بن چکے ہیں اور ہر گزرتا ہوا دن ان کی تخریبی کارروائیوں کی وجہ سے ملکی سلامتی میں ڈالے جانے والے شگافوں کو اور چوڑا کیے جا رہا ہے جس کی وجہ سے ملک کی بقا کے گرد کھڑی دیواریں کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔۔۔مہران بیس، جی ایچ کیو، کامرہ اور کراچی ایئر پورٹ اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کا جگہ جگہ تسلسل سے قتل عام ، تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز پر دہشت گردی اور سب سے بڑھ کر پولیو کے قطرے پلانے والوں پر حملے در اصل پاکستان کی کمر توڑنے کے مترادف تھے ۔ ان حملوں سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ مولوی فضل اﷲ گروپ پاکستان دشمنوں کا آلہ کار بنتے ہوئے پاکستان کی سالمیت کیلئے خطرے کے آخری نشان تک پہنچ چکا ہے۔
اگر کوئی ناصح ہمیں آج بھی ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی اہمیت بتانے کی کوشش کر رہا ہے تو اس سے وہ کیا حاصل کرنا چاہتاہے ؟ کیا ملک کی تمام سیا سی اور مذہبی جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس میں میاں نواز شریف کی حکومت کو امن مذاکرات بارے ان کے ایجنڈے کیلئے واضح اور بھر پور مینڈیٹ نہیں دیا تھا ؟ کیااس مینڈیٹ کے بعد حکومت نے گزشتہ ایک سال سے طالبان سے مذاکرات اور بات چیت کیلئے نت نئی کمیٹیاں تشکیل نہیںدیں؟ حکومت اور اس کے اتحادیوں کی سوچ ملاحظہ کریں کہ ان کی درخواست پر سب نے طالبان سے مذاکرات کیلئے ایک ساتھ ہامی بھری لیکن چند ہی روز بعد ہر ٹی وی شو پر ان کے لیڈران اور ان کے اتحادیوں نے عمران خان کو نشانے پر رکھ لیا ۔کہا جانے لگا کہ وہ طالبان خان ہونے کی وجہ سے مذاکرات کی بات کر رہے ہیں اور عمران خان پر ان الزمات اور تنقیدی بیانات کی بوچھاڑ کرنے میں حکومتی وزرا، اے این پی اور پی پی پی پیش پیش رہے اور یہ سب وہ لوگ تھے جنہوں نے مذاکرات کا حکومت کو خود مینڈیٹ دیا تھا ۔ کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ ان کمیٹیوں اور اے پی سی کے علا وہ حکومت کا کوئی اور بیک ڈور چینل تحریک طالبان پاکستان سے افغانستان کے ذریعے کسی اور ہی قسم کے مذاکرات کر رہا تھا؟۔ اتنے ماہ گزر چکے ہیں وزیر اعظم ہائوس کی طرف سے قائم کی گئی کمیٹیوں کے ارکان کی آنیاں جانیاں تو سب کو نظر آ تی رہیں لیکن نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا ۔جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم کی جانب سے حسب معمول پھر الزام لگایادیا گیا ہے کہ فوج نے مذاکرات کی حمایت نہیں کی ۔شاید ابراہیم صاحب اور ان کا گروپ چاہتا تھا کہ ملک کے حساس ترین مقامات کو ایک ایک کرکے تباہ کیا جاتا رہے اور دنیا ہمارا تماشہ دیکھتی رہے ۔ان سے کوئی پوچھے کہ کیا کراچی ایئر پورٹ کے بعد بھی خاموش بیٹھے رہنے کا کوئی جواز ہو سکتا ہے۔
مذاکرات کے نام پر قائم کی گئی کمیٹیوں کے یہ لوگ مزید کتنا وقت لینا چاہتے تھے ،ابراہیم صاحب نے یہ بتانا گوارا نہیں کیا؟لیکن وہ یہ تو بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان کے قبائلی عمائدین پر مشتمل امن جرگے کے اراکین کے ساتھ دوران مذاکرات ٹی ٹی پی کے لوگ کیا سلوک کرتے رہے ۔بد قسمتی سے اس وقت پاکستان
کے حامی ان قبائلی عمائدین کے پاس ا تنی طاقت نہیں تھی کہ وہ ان دہشت گردوں کے خلاف خود ہی لڑ سکتے لیکن وہ یہ ضرور کہتے رہے کہ اس جنگ بندی کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ دہشت گردوں کو جن کے آپس میں شدید قسم کے اختلافات پیدا ہو چکے ہیں،کو دوبارہ سنبھلنے کا موقع دیا جا رہا ہے ۔ایسا وہ اس لیے کہے جا رہے تھے کہ وہاں ارد گرد بیٹھے ہوئے سب لوگ حالات کو دیکھ رہے تھے اور انہیں اس کی اطلاعات بھی وصول ہو رہی تھیں۔ایک سینیٹر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ لگتا ہے کہ طالبان سے طالبان مذاکرات کر رہے ہیں۔غیر ملکی ازبک جوطالبان کی پناہ میں تھے ان کے ہاتھوں ڈیرہ اسماعیل خان اور کراچی ایئر پورٹ کے آپریشن کروائے گئے اور ان ازبکوں سے کراچی ایئر پورٹ کا واقعہ اس وقت کرایا گیا جب مذاکرات کے ڈھول پیٹے جا رہے تھے۔ایک مستند اطلاع یہ بھی ہے کہ افغانستان کے طالبان کی قیادت کویہ معلوم ہو چکا ہے کہ نائن الیون کا واقعہ ان ازبک ملیٹنٹس کے نوٹس میں تھا اور طاہر یلدرش،جو اسامہ بن لادن کے بہت قریب تھا، اس نے طالبان حکومت کے سابق وزیر خارجہ وکیل احمد متوکل کو اس کی تفصیلات کے بارے میں خود بتایا تھا۔نواز حکومت کی جانب سے یہی کہا جاتا رہا کہ تحریک طالبان پاکستان سے ہونے والے ان مذاکرات کے اچھے نتائج آنے میں وقت لگے گا لیکن ہوا یہ کہ اس
دوران طالبان میں مذاکرات کا حامی گروپ کمزور اور شدت پسند مضبوط ہوتے گئے بلکہ ان خدشات کا اظہار بھی کیا جانے لگا کہ یہ دہشت گرد اب کراچی سمیت ملک کے دوسرے شہروں کی طرف منتقل ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستانی عوام کی اکثریت بھی قبائلی علاقوں سے جگہ جگہ وارد ہونے والے ان'' خطرات ‘‘کو آہستہ آہستہ محسوس کرنا شروع ہو گئی تھی اور کراچی ایئر پورٹ کے واقعہ کے بعد تو ان کے ملک کے کئی قومی اداروں کے بارے میں بھی خدشات ابھرنا شروع ہو گئے ۔دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کے صبر کاپیمانہ بھی لبریز ہو چکا تھا۔
ہمارے ملک کی خوش قسمتی ہے کہ وطن کی محبت اس کے باسیوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔اگر ایک طرف افواج پاکستان اور ملک کے دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگ اپنی جانیں نچھاور کر رہے ہیں تو ساتھ ہی ہماری قوم میں'' اعتزاز احسن‘‘ جیسے نوجوان بھی مو جود ہیں ،جو اپنی جان پر کھیل کر اپنے وطن کے کروڑوں بچوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہمارا ملک خوش قسمت ہے کہ یہاں ایئر پورٹ سکیورٹی فورس کی شکل میں ایسے نوجوان موجودہیں جو اپنے سے زیا دہ اور جدید ترین اسلحہ سے لیس ازبک دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کے آگے اپنے گوشت پوست کی ڈھال کھڑی کرتے ہوئے کراچی ایئر پورٹ بچاتے ہوئے ہنستے ہوئے جان دے دیتے ہیں۔اﷲ اور اس کے رسول ؐکی حرمت پر جان دینے والے سپاہیوں کی گردنیں کاٹنے والوں کے لیے ''عضب کا غضب ‘‘قریب آن پہنچا ہے...!