تحریر : افضل رحمٰن تاریخ اشاعت     17-06-2014

مراثی اور جگتیں

سٹیج ڈراموں کا بھلا ہو کہ اب پنجابی زبان میں کی جانے والی جگتیں وہ لوگ بھی بآسانی سمجھ جاتے ہیں جن کی مادری زبان پنجابی نہیں ہوتی۔ جگتوں کا ذکر ہوتو گوجرانوالہ اور فیصل آباد کا خاص حوالہ دیا جاتا ہے کہ یہاں کے رہنے والے عام لوگ بھی اچھی خاصی جگت کرلیتے ہیں، تاہم جگتوں کے میدان میں اعلیٰ مقام ہمیشہ سے ان لوگوں کے پاس رہا ہے جن کو ہم ''مراثی‘‘ کے طور پر جانتے ہیں۔ ان میں جو لوگ پڑھ لکھ جاتے ہیں وہ اپنے آپ کو '' میراثی‘‘ بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میراثی لفظ ''میراث‘‘ سے نکلا ہے، البتہ جو لوگ اب بھی گانے بجانے کا کام کرتے ہیں وہ خود کو ''ڈھاڈی ‘‘ اور نہ جانے کیا کیا کچھ کہتے رہتے ہیں۔یہ لوگ اس قدر خوش مزاج ہوتے ہیں اور ان کی سنگت میں بیٹھنا ایسا دل آویز ہوتا ہے کہ جس کو ان کی محفل کا چسکا پڑ جائے وہ ایک طرح سے اس نشے کا عادی ہوجاتا ہے۔
ریڈیو میں اپنی ملازمت کے دوران میں بھی ان لوگوں کی محفلوں سے لطف اندوز ہوتا رہا ہوں۔ ان کی ایسی ایسی باتیں یاد آتی ہیں کہ سوچ کر تنہائی میں ہنسی آ جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ریڈیو لاہور کے سنٹرل پروڈکشن یونٹ پر ایک پروڈیوسر ہوتے تھے جن کو گانے کا بہت شوق تھا، مگر چونکہ انتہائی برا گاتے تھے لہٰذا افسران موصوف کو گانے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ایک روز یہ ہوا کہ جس فنکار کے لیے موسیقی کا ٹریک ریکارڈ کیاگیا تھا، وہ نہ آسکا۔ اس روز افسران بھی کسی میٹنگ میں شرکت کے لیے اسلام آباد گئے ہوئے تھے۔ ہمارے گانے کے شوقین پروڈیوسر نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود گانے کا فیصلہ کرلیا۔ گانا ریکارڈ کرکے انہوں نے تمام سازندوں کو جمع کیا اور ان کو سنوا کر داد چاہی۔ استاد طالب حسین پکھاوجی بھی ان سازندوں میں شامل تھے۔ ہمارے پروڈیوسر صاحب جو خان صاحب کہلاتے تھے، استاد طالب حسین کی طرف دیکھنے لگے۔ استاد جی بڑی مصیبت میں آگئے۔ پروڈیوسر بہرحال افسر ہوتا ہے اور اس کے دفتر میں حاضری لگانی ہوتی تھی۔ اگر حاضری نہ لگے تو اس روز کے پیسے کٹ جاتے تھے یا اگر پکا ملازم ہو تو غیر حاضری لگ جاتی تھی۔ جب پروڈیوسر نے استاد طالب حسین کو مسلسل داد طلب نظروں سے دیکھنا شروع کردیا تو استاد جی بولے اور پہلا جملہ کافی اونچی آواز میں بولے۔ '' واہ جی خاں صاحب واہ! کیا گایا ہے آپ نے ، واہ (اس کے بعد اپنی آواز کافی نیچی کرکے بولے) جو نہ گاتے تو کیا ہی بات تھی‘‘۔
پروڈیوسر تو استاد طالب حسین کی بلند آواز میں دی گئی داد کے پہلے جملے پر خوشی سے اس قدر نڈھال ہوچکا تھا کہ وہ استادجی کے تبصرے کاآخری حصہ سن ہی نہ سکا۔ استاد جی اس امتحان کے بعد فوراً وہاں سے باہر نکل آئے اور اپنے بقول غم غلط کرنے کے لیے ریڈیو کی کینٹین پر چائے پینے لگے۔ مجھے جب اس قصے کا پتہ چلا تو میں نے کینٹین میں جاکر خان صاحب کو پروڈیوسر کی گائیکی کے بارے میں ان کے تبصرے پر داد دی۔ وہ مسکرائے اور بولے ''دیکھو جی ایسے سنگر بارے بندہ ہور کی کہوے ۔‘‘ (یعنی اس قسم کے گانے والوں کے بارے میں اور کیا کہا جاسکتا ہے)۔ پھر مجھے سمجھانے کے لیے اردو میں بولے '' دیکھیں جی ایسے گانے والوں کے آگے موسیقی کے ساتوں سُر ہاتھ باندھے کھڑے ہوں تو یہ پھر بھی ان کو زحمت نہیں دیتے۔ اپنے سُرخود ہی بناتے ہیں‘‘۔
اسی طرح موسیقی کے ایک استاد جی ایسی محفل میں بیٹھے تھے جہاں ایک ڈینگیں مارنے والا سازندہ اپنے خوبصورت لباس، گھڑی اور دیگر اشیا دکھا دکھا کر ان کے بارے میں فرضی کہانیاں پیش کررہا تھا۔ مراثی ایسے شخص کو '' شوخا‘‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ '' شوخا سازندہ‘‘ بہت معمولی نوعیت کا طبلہ نواز تھا، مگر اس کی ایک گانے والی بہن تھی جو اس پرانے زمانے میں بھی ایک محفل میں گانے کے کئی ہزار روپے لیتی تھی۔ سب کو معلوم تھا کہ اس سازندے نے جو بوسکی کا سوٹ پہنا ہوا ہے، جو سونے کی زنجیر گلے میں ڈالی ہوئی ہے، جو مہنگی گھڑی باندھی ہوئی ہے، یہ سب اس کی بہن نے لے کر دیے ہوئے ہیں لیکن وہ شوخا سازندہ اس محفل میں مسلسل غلط بیانی کررہا تھا۔ سب مجبوراً سن رہے تھے اور وہ کہے جارہا تھا۔ '' دیکھیں ناں یہ گھڑی، یہ میں نے فلاں زمیندار کے ہاں محفل میں فلاں استاد کی سنگت کی۔ استاد کو تو بس فیس ہی ملی مگر میرا طبلہ وہاں چھاگیا اور زمیندار نے اپنے ہاتھ سے اتار کر گھڑی مجھے دے دی‘‘۔ اس کے بعد بولا۔ '' یہ جو سونے کی زنجیری ہے یہ پانچ تولے کی ہے، یہ جب میں کابل گیا ہوں (یہ اس دور کی بات ہے جب افغانستان میں امن وامان تھا اور جشن کابل بھی ہوا کرتا تھا) بس سارے دورے کی یہی کمائی تھی‘‘۔ اسی طرح وہ اپنی مختلف مہنگی اشیا کا تذکرہ کرتا رہا۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ مراثیوں میں صبروتحمل بہت ہوتا ہے۔ اس محفل میں بیٹھے استاد جی کافی دیر تک اس شوخ سازندے کی گفتگو سن چکے تو اب چونکہ مزید صبر نہیں ہوتا تھالہٰذا اٹھے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ مراثی کے ذہن میں جگت آجائے تو پھر انجام کچھ بھی ہو وہ باہر آکر رہتی ہے۔ استاد جی کے ذہن میں بھی سازندے کی سب گپوں کا حساب برابر کرنے کے لیے جگت آچکی تھی۔ اٹھ کر جاتے ہوئے اس سازندے کی طرف اشارہ کرکے مناسب بلند آواز میں بولے۔ '' تم اپنی بہن کے احسانات کیسے بھول سکتے ہو‘‘ یہ کہہ کر استاد جی تو وہاں سے چلے گئے مگر جتنے لوگ بیٹھے تھے وہ ہنس ہنس کر بے حال ہوگئے، سوائے اس سازندے کے جس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ہنسے یا روئے ۔
کیا باغ و بہار طبیعت کے یہ لوگ ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں ان میں سے کم ہی ایسے ہوں گے جن کو غربت نے بے حال کرکے نہ رکھا ہو۔ ان لوگوں کا شکایت کرنے کا انداز بھی ایسا دلنشین ہوتا ہے کہ قربان جائیے ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک سازندے بیچارے کی ماہانہ بکنگ پندرہ روز سے کم کرکے دس روز کردی گئی۔ ظاہر ہے غربت میں بھی بیچارے کی آمدن ایک تہائی کم ہوگئی ۔ وہ سٹیشن ڈائریکٹر کی خدمت میں حاضر ہوا تو صاحب نے ڈانٹ کر نکال دیا کہ فنڈز نہیں ہیں۔ بیچارہ باہرگھاس پر اداس بیٹھا تھا۔ سٹیشن ڈائریکٹر باہر نکلے تو اس کو اداس دیکھ کر قریب جاکر بولے ''تم شکر نہیں کرتے کہ تمہاری دس دن کی بکنگ تو ہورہی ہے‘‘۔ سازندہ اٹھ کر کھڑا ہوا اور ہاتھ اوپر اٹھا کر بولا '' شکر ہے جی اس ذات کا۔ عزت اور دولت کے سوا سب کچھ تو دے رکھا ہے اس نے ‘‘ یہ سن کر سٹیشن ڈائریکٹر بھی اپنی ہنسی ضبط نہ کرسکے اور اس کی پندرہ روز کی بکنگ بحال کرنے کی نوید وہیں اس کو سنادی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved