پچھلے چند دنوں سے عراق میں بنیاد پرستوں کی وحشت ناک کالی آندھی عرب ریگستانوں کو تاراج کر رہی ہے۔ تیل کی اندھی دولت سے اس یلغار کی فنانسنگ بھی جاری ہے۔ المیہ یہ ہے کہ فنانسنگ کرنے والوں کا محافظ اور سرپرست بھی امریکی سامراج ہے۔ اس خطے کا تیل عوام کے لیے وبال جان بن گیا ہے۔ شمال میں آئی ایس آئی ایل (عراق اور لیوانت کی اسلامی ریاست) کے جنونی جتھوں نے عراق کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل پر قبضہ کر لیا ہے۔ صدام حسین کے آبائی شہر تکریت اور طلافار سمیت دوسرے کئی علاقے بھی ان کے کنٹرول میں آگئے ہیں۔ مغرب میں آئی ایس آئی ایل نے فلوجا، رمادی اور دوسرے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔ سرکاری فوجیں اور شیعہ ملیشیا سمارا کو آئی ایس آئی ایل سے چھڑانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
سنگین ہوتی ہوئی صورتحال نے ساری دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ تیل کی قیمتیں 115 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہیں۔ موصل کی لڑائی میں امریکی سامراج کی بنائی گئی عراقی فوج موم کی طرح پگھل گئی ہے۔ سامراجی غلامی میں بنی فوجیں نہ لڑ سکتی ہیں اور نہ دفاع کر سکتی ہیں۔ عراق کے وزیرِ خارجہ ہوشیار زبیری نے اعتراف کیا کہ عراق کی فوجیں موصل میں شکست کا شکار ہو گئیں اور اپنا اسلحہ اور سازوسامان وہیں چھوڑ گئیں۔ آئی ایس آئی ایل کے جتھوں نے بہت سے پرانے اور چالو امریکی اڈوں میں موجود جدید اسلحے، بارود اور گاڑیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ ان جنونیوں نے 1700 عراقی فوجی قیدیوں اور شیعہ افراد کو گرفتار کرکے گولیوںسے چھلنی کیا اور اس قتل عام کی ویڈیو بھی جاری کی۔ اس ساری صورتحال میں سامراجیوں کا ردِعمل شکست خوردہ نفسیات کا غماز ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرز فوگھ راسموسن نے کہا کہ ''عراق میں اب نیٹو کا کوئی کردار نہیں بنتا‘‘۔ صدر اوباما نے امریکہ کے سب سے اعلیٰ فوجی ادارے ''ویسٹ پوائنٹ‘‘ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ عراق یا کسی اور مقام پر فوجی مداخلت یا فوجیں بھیجنے کے مخالف ہیں۔ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ اور مستقبل میں ممکنہ امریکی صدر ہلیری کلنٹن نے بیان دیا ہے کہ ''اب ہم ان کی لڑائی نہیں لڑ سکتے کیونکہ ایک ناکارہ، بدعنوان، غیرنمائندہ اور جابرانہ (نورالمالکی کی) حکومت کے لیے ہم ایک امریکی فوجی کی زندگی بھی قربان نہیں کریں گے‘‘۔ اوباما کی تقریر پر برطانوی اخبار گارڈین نے یہ تبصرہ کیا کہ ''واشنگٹن نے لاغر اور لاچار نورالمالکی حکومت اور شام کی مغرب نواز دہشت گرد تنظیموں کو اصل پیغام یہ دیا ہے کہ جب پسپائی شکست فاش بننے لگے گی تو وہ اکیلے ہی ہوں گے‘‘۔ ان بیانات کے بعد امریکہ کی باتونی وزیر خارجہ (جس کی بات کو کوئی سنجیدہ نہیں لیتا) کا عراق پر ''دور‘‘ سے فضائی حملے کرنے کا عندیہ بڑا مضحکہ خیز ہے۔
''جمہوریت‘‘ ''آزادی‘‘ اور ''انسانی حقوق‘‘ کے نام پر جارحیت کرکے بستیوں کی بستیاں اجاڑنے والے امریکی سامراج کو آج مکافاتِ عمل کا سامنا ہے۔ 2003ء سے پہلے عراق میں القاعدہ اور اسلامی بنیاد پرستی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ان سامراجی درندوں نے جن ''وسیع تباہی کے ہتھیاروں‘‘ (WMD) کی موجودگی کا الزام لگا کرعراق کو تاراج کیا‘ ان کا بھی سرے سے کوئی وجود نہیں تھا۔ اس ملک میں صدیوں سے ایک خاندان کی طرح رہنے والے شیعہ، سنی اور مذہبی اقلیتوں میں نفرت کے بیج بھی امریکہ نے ہی اپنے تسلط کو مضبوط کرنے کے لئے بوئے تھے۔ پھر عراق اور افغانستان کی ''قومی‘‘ افواج کی تشکیل کا بہت شور مچایا گیا لیکن 20 ارب ڈالر کی مالیت سے عراق میں جو '' قومی فوج‘‘ کھڑی کی گئی وہ مذہبی جنونیوں کے پہلے ہلے میں ہی ریت کے پہاڑ کی طرح ڈھیر ہو گئی۔ 2008ء کے بعد جب امریکی سرمایہ داری شدید بحران کا شکار ہو گئی تو امریکیوں نے عراق سے بھاگنے کا راستہ اختیار کیا۔ پورے ملک کو برباد کر کے، لاکھوں بے گناہ شہریوں اور اپنے ہزاروں فوجیوں کا خون بہا کر 2011ء میں پسپائی اختیار کی گئی لیکن عراق میں لوٹ مار جاری رکھی گئی۔ ایک طرف امریکی اجارہ داریاں تیل چوستی رہیں تو دوسری طرف ''عراق کے تحفظ‘‘ کے لیے انتہائی مہنگے داموں امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا اسلحہ فروخت کیا جاتا رہا۔ پچھلے ہفتے ''وائٹ ہائوس‘‘ کے ترجمان نے ایک پریس بریفنگ میں تسلیم کیا کہ ''ہمارے اسلحے کی ترسیل کے دوران 300 ہیل فائر (Hellfire) میزائل، چھوٹے اسلحے کے لاکھوں رائونڈ، ٹینکوں کے ہزاروںگولے، ہیلی کاپٹروں سے فائر کیے جانے والے راکٹ، مشین گنیں، گرنیڈ، سنائپر رائفلیں، M16 اور M4 رائفلیں عراقی سکیورٹی ایجنسی کو بھیجی گئیں۔‘‘ اس سال جنوری میں امریکی کانگریس نے 24 اپاچی ہیلی کاپٹروں کے ایک سودے کی منظوری دی جس سے 6.2 ارب ڈالر منافع کمایا گیا۔ آج جب ضرورت پڑی ہے تو وہ سارا اسلحہ کہاں گیا ہے؟
بنیاد پرستوں کی یلغار کو مقامی آبادی کی کچھ پرتوں کی حمایت بھی نورالمالکی کی جابرانہ اور فرقہ وارانہ پالیسیوں کی وجہ سے ملی ہے۔ عراق کے بہت سے شہریوں کے نزدیک مذہبی جنونیوں اور امریکہ کی قائم کردہ ''جمہوری‘‘ حکومت میں کوئی فرق نہیں۔ انبار صوبے میں 2013ء میں مالکی حکومت نے ایک شیعہ یونٹ کے 8,300 سنیوں کو قتل کروایا تھا۔ آج مالکی کو ظالم، جابر اور فرقہ پرست کہنے والی ہلیری کلنٹن اور دوسرے سامراجی حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ شخص امریکی ''جمہوریت‘‘ کی پیداوار اور انہی کا بغل بچہ ہے۔ سامراجی سنگینوں کے سائے تلے ہونے والے انتخابات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان سمیت پسماندہ ممالک میں مالیاتی سرمائے کی نہ نظر آنے والی سنگین انسانوں کے دل و دماغ کو چھلنی کرتی چلی جا رہی ہے۔ یہ انتخابات اور جمہوریتیں عوام کے لیے نہیں ہیں۔ ان کے لبادے میں سرمائے کی وحشیانہ آمریت لپٹی ہوئی ہے۔
آئی ایس آئی ایل کے نام میں ''لیوانت‘‘ سے مراد عراق، اردن، قبرص، جنوبی ترکی، شام، اسرائیل اور دوسری خلیجی ریاستیں اور بادشاہتیں ہیں‘ جنہیں پہلی جنگ عظیم کے بعد سامراج نے اپنے سٹریٹجک مفادات کے تحت مصنوعی طور پر تخلیق کیا تھا۔ 1918ء سے پیشتر لیوانت سلطنت عثمانیہ کا ایک حصہ تھا۔ آج یہ قومی ریاستیں اور سرحدیں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ جعلی، مصنوعی اور بے معنی بن چکی ہیں لیکن عرب بادشاہتوں کی مالی حمایت سے چلنے والی یہ رجعتی کالی آندھی اس خطے کو خوشحال بنانے کی بجائے مزید برباد کر دے گی۔ یہ مذہبی جنونی اور فرقہ پرست عناصر انسانی سماج کو ماضی بعید کے اندھیروں میں غرق کرنے کے درپے ہیں لیکن عوام مردہ نہیں۔ 60 لاکھ کی آبادی والے بغداد پر قبضہ کرنا ان کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔
موصل اور تکریت وغیرہ پر قبضہ آئی ایس آئی ایل کی فتح نہیں بلکہ امریکہ کی کٹھ پتلی عراقی حکومت کی شکست ہے۔ مالکی حکومت اس قدر کرپٹ اور نااہل ہے کہ کوئی سپاہی اس کے لیے لڑنے کو تیار نہیں۔ اب آیت اللہ علی سیستانی اور مالکی فرقہ وارانہ بنیادوں پر جو شیعہ ملیشیا (عراق میں موجود ایران کے''پاسداران انقلاب‘‘ کے ذریعے) منظم اور متحرک کر رہے ہیں اس سے آئی ایس آئی ایل اور بھی مضبوط ہو گی۔ فرقہ وارانہ منافرتیں بھڑکیں گی اور آئی ایس آئی ایل کو سنی آبادی کے مزید حصوں کی حمایت ملے گی۔
سامراجی کھیل میں دشمن دوست اور دوست دشمن ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے میں ایران اور امریکی سامراج کا خفیہ تعاون بڑھا ہے۔ آئی ایس آئی ایل ان دہشت گرد گروہوں میں سے برآمد ہوئی ہے جنہیں امریکہ، شام میں امداد دیتا رہا ہے۔ قطری حکمران مصر میں اپنی ہزیمت کا انتقام شام میں لے سکتے ہیں۔ قطری دولت اور گیس کا رخ بشارالاسد کی طرف بھی مڑ سکتا ہے۔
حکمرانوں کی ان ریشہ دوانیوں میں غریب عوام ہی برباد ہو رہے ہیں۔ عراق، شام، یمن اور خطے کے دوسرے ممالک میں 1950ء، 60ء اور 70ء کی دہائیوں میں بائیں بازو کے کئی انقلاب برپا ہوئے۔ مسخ شدہ بنیادوں پر ہی سہی لیکن سوشلسٹ بعث پارٹیوں اور بائیں بازو کی حکومتوں نے سرمایہ داری کو ختم کر کے منصوبہ بند معیشتیں قائم کیں جس سے عوام کو مفت علاج، تعلیم، رہائش اور روزگار جیسی بنیادیں سہولیات میسر آئیں۔ یہ سب کچھ سرمایہ داری کے تحت کبھی ممکن نہ تھا۔ ان حکومتوں کے انہدام کے بعد آج سرمایہ داری اور سامراج پورے خطے کو بربریت کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ اس بربادی، سامراجی استحصال اور معاشی محرومیوں سے نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔ پورے خطے کو ایک سوشلسٹ فیڈریشن میں یکجا کرکے ہی فرقہ وارانہ، قومی، مذہبی اور نسلی تعصبات سے آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔