تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     18-06-2014

اڑھائی کروڑ بچے اور میٹرو بس

پاکستان سے باہر پاکستان کے بارے میں اتنے سوالات اور انکوائریاں ہوتی ہیں کہ بندہ تنگ آ جاتا ہے۔ بعض ستم ظریف سوالات نہیں کرتے بلکہ چارج شیٹ پکڑاتے ہیں۔ تقریباً ہر خرابی کا ملبہ دستیاب مخاطب کے سر پر ڈالتے ہیں۔ اس عاجز کے ساتھ بھی اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہر بار سوالات کی صرف نوعیت تبدیل ہوتی ہے ،سوالات ختم نہیں ہوتے۔ اس بار زیادہ تر سوالات میاں نوازشریف کی حکومت‘ اقدامات اور حماقتوں کے بارے میں تھے۔ 
ایک دوست میرے گزشتہ سے پیوستہ کالم کے حوالے سے چڑھائی پر آمادہ تھا۔ وہ میٹرو بس کے سخت خلاف تھا۔ خاص طور پر راولپنڈی اور ملتان کے حوالے سے۔ اس کا کہنا تھا کہ ملک عزیز میں اور بے شمار کام اس سے کہیں زیادہ اہم اور ضروری ہیں۔ ترجیحات میں من مانی ایک ایسی خرابی ہے جو ناقابل اصلاح و مرمت ہوتی ہے۔ جن گاڑیوں میں کوئی مینوفیکچرنگ فالٹ ہو‘ کمپنی اسے ٹھیک نہیں کرتی بلکہ اس ماڈل کی ساری گاڑیاں مارکیٹ سے واپس منگوا لیتی ہے اور جس حصے میں وہ خرابی ہو ،اسے پورا کا پورا تبدیل کر دیتی ہے۔ اب انسان کا کیا کیا جائے۔ 
میرے اس دوست کا تعلق ملتان سے ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ملتان میں میٹرو پر تیس ارب لگانے سے کہیں بہتر ہے کہ یہ تیس ارب روپے پورے ملتان پر لگا دیئے جائیں‘ ملتان کی حالت ہی بدل جائے گی۔ سڑکیں کھلی کردی جائیں۔ تجاوزات ختم کردی جائیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں اچھے ٹرانسپورٹ نظام کو فروغ دیا جائے اللہ اللہ خیرسلا۔ لاہور میں چلنے والی میٹرو نے بلاشبہ لاہور میں پبلک ٹرانسپورٹ کی شکل تبدیل کردی ہے اور عام آدمی کے لیے آسانی پیدا کی ہے مگر آپ ان ساری خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کے دوسرے پہلوئوں پر بھی غور کریں۔ سب سے اہم بات تو 
یہ ہے کہ ہربس کو فی کلو میٹر دو سو نوے روپے کی سبسڈی دی جا رہی ہے۔ ممکن ہے یہ رقم کچھ اور نیچے ہو مگر کم از کم میرے علم کے مطابق یہ رقم اتنی ہی ہے۔ ستائیس کلو میٹر کا کل ٹریک ہے۔ اس طرح ایک بس کو صرف ایک یکطرفہ پھیرے پر سات ہزار آٹھ سو تیس روپے ادا کیے جاتے ہیں۔ ایک دن میں صرف بارہ گھنٹے کی سروس کا تخمینہ لگائیں اور تصور کریں کہ ہر پندرہ منٹ بعد ایک بس دونوں اطراف سے چلتی ہے تو شاہدرہ سے گجومتہ کی طرف اڑتالیس بسیں اور اسی طرح گجومتہ سے شاہدرہ کی جانب بھی اتنی ہی بسیں چلتی ہیں۔ یہ کل چھیانوے بسیں ہو گئیں۔ اس طرح کل سبسڈی جو متعلقہ کمپنی کو مل رہی ہے وہ تقریباً ساڑھے سات لاکھ روپے یومیہ سے زیادہ ہے۔ یہ معاملہ کب تک چلے گا؟ کسی دن اس مد میں بھی ''سرکلر ڈیٹ‘‘ حکومتی پہنچ سے باہر ہو جائے گا اور سارا معاملہ گڑ بڑ ہو جائے گا۔ حکومت اپنی نیک نامی کے لیے بلکہ یوں کہیں میاں صاحبان اپنی کمپنی کی مشہوری کے لیے سرکاری خزانے کو کس بری طرح لٹا رہے ہیں۔ 
اب بات آ گئی راولپنڈی اور ملتان کی۔ جیسا کہ تم نے اپنے کالم میں لکھا ہے ملتان میں سڑکوں کو اور راولپنڈی میں مری روڈ کو کتنی بار کھلا کیا جائے گا؟ کتنی بار لوگوں کا روزگار برباد کیا جائے گا؟ کتنی بار سرکاری خزانے سے الٹی سیدھی ادائیگیاں کی جائیں گی اور کتنی بار پٹواری بادشاہ فیض یاب ہوں گے؟ میاں صاحبان ہر بار ایک ہی پروجیکٹ لے کر آتے ہیں۔ پیلی ٹیکسیاں اور موٹروے۔ اب کی بار اس میں اضافہ یہ ہوا ہے کہ میٹرو بس اور بجلی گھر۔ بجلی گھروں کی حد تک معاملہ سمجھ میں آتا ہے کہ ملک میں بجلی کا بحران ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی بجلی اس وقت پیدا ہو رہی ہے۔ شارٹ فال اس سے کہیں کم ہو سکتا ہے جتنا اس وقت حقیقتاً ہے۔ ہائیڈل پاور جنریشن میں کمی زیادتی ہوتی رہتی ہے اور اس کی وجوہ ایسی ہیں جن پر قابو پانا ممکن نہیں۔ فصلوں کے لیے پانی کب چھوڑنا ہے اور کب بند کرنا ہے۔ دریائوں میں پانی کا اخراج کتنا رکھنا ہے اور ڈیڈلیول پر کیا کرنا ہے۔ یہ سب مجبوریاں ہیں۔ اس لیے ہائیڈل کو چھوڑ دیں۔ لیکن تھرمل پاور جنریشن جو اس وقت ملک میں بجلی پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اس کو کیا ہوا ہے؟ تھرمل کی بجلی میں کم پیداوار کی کیا وجہ ہے؟ وجہ صرف یہی ہے کہ بجلی مہنگی بن رہی ہے اور سستی بک رہی ہے۔ درمیانی فرق روز بروز بڑھ رہا ہے۔ پچھلے سال جولائی میں چار سو اسی ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ ادا کیا گیاتھا۔ اب جون 2014ء میں یہ سرکلر ڈیٹ ،دوبارہ تین سو ارب تک پہنچ چکا ہے۔ ابھی دو سو ارب روپے کی ایک رقم ایسی بھی ہے جو فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ کی مد میں نیپرا کے پاس التوا میں پڑی ہے اور اگر یہ نیپرا سے منظور نہ ہوئی تو پاور سیکٹر کے ذمے واجب الادا رقم پانچ سو ارب سے زیادہ ہو جائے گی۔ تھرمل بجلی کی پیداواری استعداد بارہ ہزار آٹھ سو میگاواٹ سے زیادہ ہے۔ پن بجلی کی پیداواری استعداد چھ ہزار چار سو میگاواٹ سے زیادہ ہے۔ نیوکلیئر بجلی کی استعداد چار سو میگاواٹ سے زیادہ ہے۔ یہ کل 19600 میگاواٹ بنتی ہے۔ اب اس میں سے ہائیڈل آدھی بھی کردیں تو یہ پیداوار سولہ ہزار چار سو میگاواٹ بنتی ہے۔ یہ بجلی کہاں ہے؟ 
اب لے دے کے سارا زور سولر انرجی اور کول پاور پروجیکٹس پر ہے۔ کول پاور پروجیکٹس یعنی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر تو دو تین سال بعد پیداوار شروع کریں گے تب تک کیا ہوگا؟ تب تک سولر انرجی پلانٹ لگیں گے، جن کی حقیقی پیداوار ان کی بتائی گئی یا لگائی گئی پیداواری استعداد کا تیس فیصد ہوتی ہے۔ تیرہ ارب روپے سے بہاولپور میں لگنے والا سو میگاواٹ کا سولر پلانٹ اگر چالیس میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا کردے تو آپ میرا نام بدل دینا۔ صحرا کے کنارے پر لگنے والے اس پلانٹ میں چار لاکھ سولر پینل ہیں۔ ان پر جب آندھیوں سے ریت گرے گی تو پتہ چل جائے گا کہ کس عقلمند نے یہ پلانٹ یہاں لگانے کا مشورہ دیا تھا۔ چار لاکھ سولر پینلوں کی صفائی کسی سے ہونی نہیں اور پیداواری صلاحیت شاید تیس فیصد سے بھی کم ہو جائے۔ فی الحال اشتہاری ترقی کی مہم زوروں پر ہے۔ نندی پور پلانٹ کا چند روز پہلے افتتاح ہوا ہے۔ پہلی ٹربائن جو کہ پچانوے میگاواٹ تھی وزیراعظم صاحب نے چلا کر اس پلانٹ کا افتتاح کیا تھا۔ شنید ہے اس پلانٹ کے ا فتتاح پر کروڑوں روپے لگے ہیں۔ دیگر خرچے اس کے علاوہ ہیں۔ اسی طرح ساہیوال والے کول پروجیکٹ کے افتتاح پر بھی تقریباً اتنا ہی خرچہ ہوا ہے اور کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ نندی پور کی افتتاح والی پہلی ٹربائن دوسرے یا تیسرے دن بند ہو گئی ہے۔ اب خدا جانے اصل معاملہ کیا ہے مگر ایک معقول آدمی بتا رہا تھا کہ یہ ٹربائن ڈیزل پر چلائی گئی تھی اور اس پرانی آئوٹ ڈیٹڈ اور متروک قسم کی مشینری پر فی یونٹ تیس روپے کے قریب خرچہ آ رہا تھا۔ لہٰذا فی الحال یہ والی ٹربائن بھی بند کردی گئی ہے۔ خدا جانے یہ بجلی کے نئے یونٹ ہمارا کیا حشر کریں گے۔ ابھی تو زرداری صاحب والے پلانٹ ہی سانس نہیں لینے دیتے۔ 
نندی پور پروجیکٹ میں قوم کے تین سال اور چونتیس ارب روپے کو جو چونا لگا ہے اس پر موجودہ حکمران خاموش ہیں۔ خادم اعلیٰ علی بابا اور چالیس چوروں کو چوک میں لٹکانے کے نعرے لگاتے تھے مگر اب چین اور ترکی کے دوروں کے علاوہ انہیں باقی کچھ یاد نہیں۔ نندی پور کے علاوہ نیلم جہلم پاور پراجیکٹ میں جو کمائی اور کمیشن کی کہانیاں ہیں وہ نندی پور سے بھی خوفناک ہیں مگر پاکستان میں چور اور ''سپاہی‘‘ آپس میں ملے ہوئے ہیں،کیا ہو سکتا ہے؟ لوگ فاقوں سے خودکشیاں کر رہے ہیں، دھماکوں میں مر رہے ہیں‘ مہنگائی سے پس رہے ہیں، گرمی سے بے حال ہو رہے ہیں اور حکمرانوں کو اپنی تشہیری مہم سے فرصت نہیں مل رہی۔ جو باقی وقت ان کے پاس ہے اس میں وہ سارا پیسہ میٹرو بس پر لگانا چاہتے ہیں۔ یہ عجیب بس ہے، حکمرانوں اور مخالفوں کو اس کی حمایت اور مخالفت سے ہی فرصت نہیں مل رہی۔ بہت سی چیزیں میٹرو بس کے منصوبوں سے زیادہ اہم ہیں۔ جیسے تعلیم اور صحت۔ اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جا رہے اور ہم چلے ہیں میٹرو بسیں چلانے۔ شاباش ہے میاں صاحبان پر۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved