تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     18-06-2014

توبہ کی حقیقت…(آخری قسط)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:(1):''صرف ان لوگوں کے لئے توبہ کی قبولیت کو اللہ نے اپنے ذمۂ کرم پر لے رکھا ہے، جو نادانی سے گناہ کربیٹھیں ، پھر (گناہ کا احساس ہونے پر) جلد ہی توبہ کرلیں، تو یہ وہ لوگ ہیں، جن کی توبہ اللہ (اپنے فضل سے یقینا) قبول فرماتاہے ۔اور ان لوگوں کی توبہ( اللہ کے ہاں) مقبول نہیں ہے ، جو مسلسل گناہ کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی شخص کی موت سر پر آجاتی ہے، تو وہ کہتاہے میں نے اب توبہ کی اور نہ ان لوگوں کی توبہ قبول ہے جو حالتِ کفر میں مرتے ہیں ‘‘ (النساء:17-18)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :''اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ قبول فرماتاہے جب تک کہ سکراتِ موت (agony)نہ طاری ہوجائے‘‘(سنن ترمذی:3537)۔(2):''ہر گز نہیں!بلکہ ان کے کرتوتوں نے ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے‘‘(المطففین :14)۔ 
توبہ کا ایک مقصد یہ ہوتاہے کہ آئینۂ قلب جو گناہوں سے آلودہ ہوچکا ہے، پہلے اسے پاک وصاف کیا جائے تاکہ اس پر اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول مکرم ﷺ کی محبت کا رنگ چڑھ سکے ،یعنی اس کا نقش ثبت ہوسکے، جس طرح دیوار پر رنگ کرنے والا پہلے مرحلے پر سابق رنگ کو کھرچ کر صاف کرتاہے اور اس کے بعد نیا رنگ کرتاہے تاکہ وہ دیر پاثابت ہو۔ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے:''(تم ان سے کہو:) ہم نے خود کو اللہ کے رنگ میں رنگ لیااور اللہ کے رنگ سے اور کس کا رنگ بہتر ہوگااور ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں‘‘(البقرہ:138)۔اور قلب وذہن کی یہ تطہیر توبہ سے ہوتی ہے، اس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:''گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے، جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں‘‘(سنن ابن ماجہ:4250)۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(1): ''میرے دل پر اَبر سا چھا جاتاہے اور میں دن میں سو بار اللہ سے استغفار کرتا ہوں،(مسلم:41)‘‘۔ اس حدیث کی محدثینِ کرام نے کئی توجیہات بیان فرمائی ہیں، مگران کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے قلب پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انوار وتجلیّات کا نزول ہوتاہے اور آپ اس کے تشکر کے طور پر استغفار فرماتے ہیں ۔ (2):''رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''بندہ جب گناہ کرتاہے، تواس کے دل پر سیاہ دھبہ پڑ جاتاہے، پس اگر وہ گناہ کی کیفیت سے نکل آئے اور اِستِغفار کرے اور توبہ کرے تواس کا دل صاف ہوجاتاہے اور اگر وہ اُس گناہ کا اعادہ کرے تو یہ دھبہ پھیلتا چلا جاتاہے، یہاں تک اس کے قلب کو گھیر لیتاہے اور یہی وہ ''رین ‘‘ ہے ، جس کاذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ المطففین :14میں فرمایا ہے‘‘(سنن ترمذی:3334)۔
سید علی ہجویری ؒلکھتے ہیں :''حجاب دو قسم کا ہوتاہے:ایک''رینی ‘‘ یہ کبھی نہیں اٹھتا ۔ جب بندے کی ذات خود اُس کے لئے حق سے حجاب کا سبب بن جائے ، تو اس کے نزدیک حق وباطل ایک سا ہوجاتاہے اور اسی کو قرآن نے رَین ، خَتم ، طَبع ، قَسَاوت ، کفر ، اِغفال ، قُفل اورکِنَّہ سے تعبیر فرمایا ہے اور اس آیت میں یہی معنی مرادہیں اور دوسرا ''غینی‘‘ ، اس سے مراد یہ ہے کہ بندے کی صفت حق سے حجاب بن جائے ، یہ توبہ اور ندامت سے اٹھ جاتاہے۔ حضرت جنید بغدادی ؒفرماتے ہیں: ''رین‘‘ کی مثال وطن کی سی ہے اور وطن میں استقلال ہوتاہے اور''غین‘‘ کی مثال دل پر وارد ہونے والے خیالات ہیں ، جو ندامت اور توبہ سے زائل ہو جاتے ہیں اور قلب صاف ہوجاتاہے‘‘(کشف المحجوب، ص:79-80)‘‘ ۔ صحیح بخاری: 5827میں ہے:''جس بندے نے بھی لا الٰہ الا اﷲ کہا ، پھر اسی کلمۂ توحید پر اس کی موت واقع ہوگئی، تو وہ جنت میں جائے گا‘‘۔اس کی شرح میں امام بخاری کہتے ہیں:''یہ بشارت اس کے لئے ہے ، جو موت سے پہلے اپنے گناہوں پر نادم ہوکر توبہ کرے اور کلمۂ اسلام پڑھے تو اسے بخش دیا جائے گا‘‘۔
اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ سے اتنا زیادہ خوش ہوتاہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:''جب بندہ اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتاہے تواللہ اس سے اتنا زیادہ خوش ہوتاہے ، جیسے ایک مسافر کی سواری کسی بیابان میںزادِ راہ یعنی ساز وسامان سمیت گم ہوجاتی ہے، وہ (اس کی تلاش سے تھک ہار کر) ناامید ہوجاتاہے اور ایک درخت کے سائے میں ٹیک لگا کر بیٹھ جاتاہے(ایک روایت میں ہے کہ اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اب تو موت یقینی ہے)اسی ناامید ی کی کیفیت میں وہ اچانک نظر اٹھا کر دیکھتاہے، تو اس کی سواری سازوسامان سمیت اس کے سامنے موجود ہے،وہ اس کی لگام پکڑتاہے اور خوشی کے غلبے کی وجہ سے غلطی سے اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل جاتے ہیں ، اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں‘‘(مسلم:2747)۔اس حدیث کا منشا یہ ہے کہ غیرمعمولی خوشی کے غلبے کی وجہ سے بندہ اَز خود رَفتہ ہوجاتاہے اور کہنا تو یہ چاہتاہے کہ :''اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں اور تو میرا رب ہے‘‘ ، مگر اس کی زبان سے سبقتِ لسانی کی بنا پر یہ کلمات نکل جاتے ہیں جو اوپر مذکور ہوئے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا دامانِ رحمت اُس کے بندوں کے لئے اتنا وسیع ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:''ایک بندہ گناہ کرتاہے ، پھر (نادم ہوکر) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتاہے : اے میرے پروردگار!میں نے گناہ کیا ہے ، تو اس کی مغفرت فرما ۔ اس کا رب فرماتاہے : کیا میرے بندے کو یہ معلوم ہے کہ اس کا ایک رب ہے ، جو گناہ کو بخش بھی دیتاہے اور(اگر وہ چاہے تو)مواخذہ بھی فرمالیتاہے؟، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا ۔ پھر کچھ عرصہ اطاعت کی زندگی گزارنے کے بعد (بشری تقاضے کے تحت) وہ پھر گناہ کر بیٹھتا ہے اور پھر(نادم ہوکر) عرض کرتاہے : اے میرے پروردگار! میں گناہ کر بیٹھا ہوں، تواسے بخش دے، اللہ عزّ وجلّ فرماتاہے ، کیا میرے بندے کو یقین ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو (کسی پر کرم فرمائے تو ) اس کے گناہوں کو بخش دیتاہے اور (وہ چاہے تو ) مواخذہ فرما لیتاہے؟، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ پھر کچھ عرصہ اطاعت کی زندگی گزارنے کے بعد(بشری کمزوری کے سبب) وہ گناہ کربیٹھتا ہے(اور احساس ہونے پر) عرض کرتاہے : اے میرے پروردگار! میں نے گناہ کرلیاہے، تو مجھے بخش دے۔ اللہ عزّوجلّ فرماتاہے: کیا میرے بندے کو یقین ہے اس کا ایک پروردگار ہے، جو(اپنے بندے پر مہربان ہوجائے تواس کے) گناہوں کو بخش دیتا ہے اور (چاہے تو) مواخذہ فرما لیتاہے،میں نے اپنے بندے کو بخش دیا ، وہ جو چاہے کرے‘‘(صحیح بخاری:7507)۔ یہ آخری کلمات اس لئے نہیں ہیں کہ بندے کو گناہوں کی کھلی چھوٹ دے دی ہے، بلکہ اس لئے ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا عفووکرم بندے کو اپنی آغوش میں لے لے ، تو پھر وہ گناہوں سے اس کی حفاظت فرماتاہے ۔ گناہوں سے اسے فطری طور پر نفرت ہوجاتی ہے اور نیکیاں اس کی فطرت کا مطلوب ومقصود بن جاتی ہیں۔ اب نیکی اسے بار نہیں معلوم ہوتی بلکہ نیکی سے اسے قرار وسکون نصیب ہوتاہے ۔ اسی کیفیت کو رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں بیان فرمایا: ''آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ ایمان کیا ہے؟،آپ ﷺ نے فرمایا:''جب تمہاری نیکی سے تمہیں روحانی سرور ملے اور تمہارے گناہ سے تمہیں روحانی طور پر نفرت ہوتو (درحقیقت ) تم مومن ہو،صحابی نے عرض کی: یارسول اللہ! گناہ کیا ہے ؟،آپ ﷺ نے فرمایا:جو تمہارے دل میں کھٹکے اسے چھوڑ دو‘‘(مسند احمد:22166)۔
اللہ تعالیٰ کی مغفرت وعافیت کا سمندر تو اس سے بھی زیادہ جولانی کے ساتھ موجزن رہتاہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:(میرے خاص بندے وہ ہیں ) جو اللہ کے ساتھ کسی اورمعبود کی عبادت نہیں کرتے اورنہ وہ کسی ایسے شخص کو قتل کرتے ہیں جس کے ناحق قتل کرنے کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو ایسے کام کرے گا وہ اپنے گناہوں کی سزا پائے گا، قیامت کے دن اس کو دوگناعذاب دیا جائے گااور وہ اس میں ذلت کے ساتھ ہمیشہ رہے گا، سوائے اس کے جس نے توبہ کر لی اور ایمان لایا اور( اس کے بعد )نیک اعمال انجام دیتارہا ، تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا بے حد رحم فرمانے والا ہے‘‘(الفرقان:68-70)۔یہ آیت اللہ تعالیٰ کی بے انتہارحمت وشفقت پر دلالت کرتی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مائل بہ کرم ہوجائے تو گناہوں کی معافی تو اس کے کرم کے مقابلے میں معمولی بات ہے، وہ چاہے تو گناہوں کے بدلے میں نیکیاں بھی عطا فرمادیتا ہے۔اور اسی مفہوم کی تائید میں احادیث موجود ہیں، یہاں اُن کے تفصیلی بیان کی گنجائش نہیں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved