معاشرے کا تانا بانا اگر خود نہ بنا جائے تو ایسا ہی غلیظ ہوتا ہے۔ کب تک سیاست اور مذہب کو ہم معاشرے کے بدترین عناصر کے سپرد کیے رکھیں گے؟
شریف خاندان اگر بے قصور ہے تو اپنے ہی قائم کردہ کمیشن کی رپورٹ مرتب ہونے سے پہلے ہی ایف آئی آر اس نے کیسے درج کرا دی؟ وہی پولیس مدعی ہے‘ قتلِ عام کا جس نے ارتکاب کیا۔
پولیس نہیں‘ اقدام کا فیصلہ کرنے والے ذمہ دار ہیں۔ ذمہ دار ذرائع یہ کہتے ہیں کہ فیصلہ جناب شہباز شریف‘ حمزہ شریف نے کیا۔ باہم مشاورت کے بعد۔ میاں محمد نواز شریف سے اجازت لی گئی۔ اور رانا ثناء اللہ۔ ہدف یہ تھا کہ علامہ طاہر القادری‘ ان کے صاحبزادوں اور منہاج القرآن کی سرکردہ شخصیات کو سبق سکھایا جائے۔ پہلی یلغار ناکام ہونے کے بعد‘ شب تین بجے رانا ثناء اللہ کے سیکرٹریٹ والے دفتر میں ایک اجلاس ہوا‘ جس میں حکمت عملی پہ دوبارہ غور ہوا۔ کمشنر لاہور ڈویژن نے مخالفت کی۔ کہا کہ یہ تباہ کن ہوگا۔ جتلایا کہ وہ اس مہم کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں۔ آئی جی مشتاق سکھیرا سے بات نہ ہو سکی۔ ان کے بارے میں اطلاعات متضاد ہیں۔ وہ ایک نامور اور ہوش مند افسر ہیں۔ ماضی ان کا داغدار نہیں مگر اب اکثر انہیں ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا‘ اگر وہ قصوروار ثابت ہوئے تو اقتدار سے الگ ہو جائیں گے۔ ان کے خلاف رانا ثناء اللہ کی شہادت موجود ہے۔ ٹھیک اس وقت جب وزیراعلیٰ اخبار نویسوں کے سامنے شرمسار کھڑے تھے۔ رانا صاحب علامہ طاہرالقادری اور ان کے ساتھیوں سے نمٹنے کا اعلان کرتے رہے۔ بدھ کی شام تک ان کے طرزِ عمل میں تبدیلی کے آثار نہیں تھے۔
اگر ان کی گواہی کافی نہیں تو میاں شہباز شریف کے پسندیدہ کارکن گلو بٹ۔ اس افسانوی کردار کے حوالے سے‘ جو پاکستان کی تاریخ میں زندہ رہے گا۔ وہ شریف اقتدار کے مہ و سال کی کہانی کا کبھی نہ الگ ہونے والا قصہ بن چکا‘ اس کے سوا اور کیا عرض کیا جائے کہ
شرم تم کو مگر نہیں آتی؟
زمین کے اس خطے پر ہم آباد ہیں‘ جہاں غیر ملکی فاتحین تک کو ہمیشہ کمک ملتی رہی۔ ایک ہزار سال پہلے لاہور میں آنند پال کی حکومت ختم ہونے کے بعد‘ ترکوں‘ پشتونوں‘ مغلوں‘ انگریزوں‘ حتیٰ کہ اس سے پہلے سکھوں کو خوش دل رفیق عطا ہوئے۔ انسانی ذہن سوال کرتا ہے کہ کس قماش کے وہ لوگ تھے‘ اہلِ بیت کے مقابل کھڑے ہونے کی جنہوں نے جسارت کی؟ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں‘ جو فقط آج کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ان کے سرخیل ابن زیاد نے کہا تھا: دنیا نقد ہے اور آخرت ادھار۔ آخرت کو الگ رکھیے۔ تمام اصولوں اور اقدار پر ایمان چلا جاتا ہے‘ آدمی جب بے حیا ہو جائے۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: بے شرم اپنی مرضی کرے۔
کیسی ہولناک ڈھٹائی اور بے حسی کے ساتھ بدنام گلو بٹ راہ میں آنے والی ہر گاڑی اور ہر دکان مسمار کرتا چلا گیا۔ ایک سے زیادہ چینلوں پر اس کے بارے میں بدترین الفاظ برتے گئے مگر تردید کرنے کی ضرورت کسی نے محسوس نہ کی۔ اپنے جرائم اس نے قبول کر لیے۔ پولیس افسروں اور حکمران جماعت نے بھی۔ میاں شہباز شریف کی طرف سے بھی اب تک ہرگز کوئی وضاحت نہیں۔
کیا ابھی تک رنجیت سنگھ کا عہد باقی ہے؟ اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ فرق یہ ہے کہ معلوم اسباب کی بنا پر‘ ظاہری سطح پر کسی قدر احتیاط برتی جاتی ہے‘ حکمران طبقات وگرنہ وہی سفاک ہیں۔ وہی اندازِ جہانِ گزراں ہے کہ جو تھا۔ پولیس کے سائے میں دکانوں پر حملہ آور ہو کر‘ مشروبات کی بوتلیں افسران گرامی کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت وہ کیسے کرتا رہا؟ وزیراعلیٰ نے کیا ابھی تک ڈی سی او لاہور کے خلاف اقدام کیا ہے؟ چیف سیکرٹری صاحب نے جو ڈاکٹر توقیر شاہ کے سامنے بے بس ہیں؟ کیا آئی جی مشتاق سکھیرا نے حلق ٹھنڈا کرنے والے افسروں میں سے کسی کو برطرف کیا ہے؟
گلو بٹ اگر حملہ آوروں کا لیڈر ہے اور اعلانیہ لیڈر ہے۔ اگر وہ حکمران جماعت کا کارندہ ہے اور مسلمہ طور پر کارندہ ہے تو سرپرستوں کے بارے میں کیا کہا جائے؟ کیا وہ گلو بٹ سے مختلف ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ ملک کے اکثر لیڈر اور ان کے ثنا خوان دانشور‘ اسی قماش کے ہیں۔ اور یہ این جی اوز والے؟ انکل سام کے دستر خوان پر ریزہ چینی کرنے والے؟ بھارتیوں کے گن گانے والے؟ وہ سب کے سب گلو بٹ ہیں۔ ان کا رزاق اللہ نہیں ہے‘ بندے ہیں۔ عہدِ قدیم کے وہ مزارعے جو جاگیرداروں کی جنگیں لڑا کرتے۔
تحریک انصاف کا کوئی گلو بٹ اگر بے نقاب ہو گیا ہوتا؟ کیسے کیسے شاہکار پڑھنے میں آتے۔ اگر پیپلز پارٹی یا جماعت اسلامی کی صفوں سے ایسا کوئی کردار ابھرتا؟ حیرت ہوئی کہ بدھ کے اخبارات میں کوئی فیچر نہ تھا۔ قوت متخیلہ رکھنے والے وہ نیوز ایڈیٹر کیا ہوئے۔ میرا خیال ہے کہ ایک فلم اس موضوع پر بننی چاہیے۔ نون لیگ کے دانشوروں سے درخواست کی جانی چاہیے کہ موضوع پہ وہ اظہار خیال فرمائیں۔ خاص طور پر جناب احسن اقبال سے۔
شریف خاندان قدرت کے عتاب میں ہے۔ نیک نامی کے وہ خریدار نہیں۔ بدنامی کا ہر روز نیا بندوبست۔ اقتدار اب ان کا باقی نہ رہے گا۔
جل بھی چکے پروانے ہو بھی چکی رسوائی
اب خاک اڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
جناب مشتاق سکھیرا سے ہمدردی ہے۔ بلوچستان میں ان کی کارکردگی قابل رشک تھی۔ وہ ایک نظام کا حصہ تھے‘ جہاں وزیراعلیٰ‘ کور کمانڈر‘ آئی جی‘ ایف سی اور چیف سیکرٹری ان سے مشورہ کیا کرتے۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ختم ہو گئیں۔ ڈکیتی کم ہوئی۔ کوئٹہ شہر میں امن بحال ہونے لگا‘ حتیٰ کہ پولیس کے ناکے نصف کردیے گئے۔ یہاں آئے تو سر منڈتے ہی اولے پڑے۔ ان کے تقرر پہ حیرت ہوئی کہ شریف خاندان تو کسی نیک نام افسر کو گوارا کرنے کا عادی نہیں۔ ایک قابل اعتبار عینی شاہد نے بتایا کہ ایک سابق آئی جی سے وزیراعلیٰ نے کہا: آپ کو شرم آنی چاہیے۔ بعد میں خادمِ پنجاب اس جملے پر فخر کرتے پائے گئے۔ ایک اور سابق آئی جی یاد آئے‘ تقرر سے قبل جو رائے ونڈ تشریف لے گئے اور میاں محمد نوازشریف سے عرض کیا: اگر مجھ پر عنایت کی جائے تو عمر بھر شریف خاندان کا وفادار رہوں گا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کہا تھا: مارکیٹ میں وہی جنس لائی جاتی ہے‘ جس کی مانگ ہو،۔ منڈی کی معیشت۔
زندہ رہنے والے معاشروں کا وصف یہ ہوتا ہے کہ عدل پہ وہ اصرار کیا کرتے ہیں۔ رانا ثناء اللہ اور گلو بٹ ایسے کردار جب گوارا کر لیے جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ معاشرہ بے حس ہے‘ تب و تاب سے محروم‘ جو فروغ اور ارتقا کے لیے لازم ہوتی ہے۔ فقط علامہ طاہر القادری اور ان کے حامیوں کو نہیں‘ رانا ثناء اللہ پورے ملک کو دھمکی دیتے نظر آتے ہیں۔ احمد رضا خان قصوری نے انہیں ڈرایا کہ خلقِ خدا برہم ہوئی ا ور ملک خوں ریزی کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ رانا صاحب نے اس پر انہیں للکارا کہ وہ میدان میں نکلیں۔ وہ ان کا مقابلہ کریں گے۔ انقلاب تو خیر ایک مفروضہ ہے لیکن اگر برپا ہو تو رانا صاحب اور ان کا قبیلہ کیا مقابلہ کرے گا؟ مفادات کے بندوں کے لیے میدانِ جنگ نہیں ہوتے۔ شکست اور رسوائی ہوتی ہے۔
رات گئے عمران خان کو ٹی وی پر دیکھا کہ وزیراعلیٰ‘ وزیر قانون کے استعفیٰ اور آئی جی کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ بجا ارشاد مگر ان کے عقب میں ایک گلو بٹ براجمان تھا۔ وہ سود پر روپیہ دیتا اور غنڈوں کے ذریعے وصول کرتا ہے۔ ان کے دائیں ہاتھ بھی ایک مبینہ گلو بٹ کہ اس پر ٹکٹ بیچنے کا الزام ہے۔
تاریخ کے سامنے‘ خدا اور بندگانِ خدا کے سامنے جواب دہی کا ذرا سا احساس بھی ہوتا تو حکمران خود مستعفی ہو جاتے۔ وہ نہیں ہوں گے اور اٹھا کر پھینک دیئے جائیں گے۔ یہ تو آشکار ہے‘ مگر کیا اس کے بعد بھی گلو بٹ ہی آئیں گے؟
معاشرے کا تانا بانا اگر خود نہ بنا جائے تو ایسا ہی غلیظ ہوتا ہے۔ کب تک سیاست اور مذہب کو ہم معاشرے کے بدترین عناصر کے سپرد کیے رکھیں گے؟