پیارے دکاندارو!
آپ کے مسلسل اصرار بلکہ دھمکیوں پر جو نوبت پہنچ چکی تھی‘ اس صفحے کا اجراء کیا جا رہا ہے جبکہ ہمارے محلے کے کریانہ فروش نے تو ادھار دینا ہی بند کر رکھا ہے۔ یہ تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ تنخواہ تو پہلے پندرہ دن میں ہی ختم ہو جاتی ہے اور مہینے کے باقی دن اُدھار پر ہی چلتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے ذمے ادھار کی رقم بھی کافی ہو گئی تھی اور اس کے الٹی میٹم کے باوجود ہم ادائی نہیں کر سکے تھے لیکن کم از کم اسے اتنا تو خیال کرنا چاہیے تھا کہ آخر ہم صحافی لوگ ہیں اور صحافیوں کے ایسے درجے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں بالائی آمدن کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ امید ہے کہ اس صفحے کے اجراء کے بعد ہمارے دکاندار سمیت جملہ دیگر دکاندار حضرات بھی ادھار دینے کے معاملے میں رحمدلی اور فراخدلی سے کام لیں گے کیونکہ ہمارے درمیان بھی کئی ایسے پہنچے ہوئے لوگ موجود ہیں جن کی دعا اگر نہ بھی لگے تو بددعا ضرور لگتی ہے۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔ براہ کرم اپنی قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کیجیے گا کہ یہ کاوش آپ کو کیسی لگی۔
سبق آموز واقعات
٭... کریانے کی دو دکانیں ساتھ ساتھ تھیں۔ ایک دن ایک دکاندار نے دیکھا کہ دوسرے دکاندار کا ملازم لڑکا اس کی بوری میں سے آٹا نکال کر اپنی بوری میں ڈال رہا ہے۔ اس نے دوسرے دکاندار سے شکایت کی تو وہ بولا کہ لڑکا پاگل ہے‘ اسے کیا کہا جائے۔ چند روز بعد اس دکاندار نے پھر دیکھا کہ وہی لڑکا اس کی بوری میں سے آٹا نکال نکال کر اپنی بوری میں ڈال رہا ہے۔ اس نے پھر شکایت کی تو دوسرا دکاندار بولا: ''تمہیں کہا تھا نا کہ لڑکا پاگل ہے!‘‘
''اگر یہ واقعی پاگل ہے تو کبھی یہ اپنی بوری میں سے آٹا نکال کر میری بوری میں بھی ڈالے‘‘ دکاندار نے جواب دیا۔
٭... دو آدمیوں نے مشترکہ دکان کر رکھی تھی۔ ایک دن انہیں دکان بند کر کے اکٹھے کہیں سفر پر جانا پڑا کہ راستے میں ایک دکاندار بولا: ''مجھ سے بڑی بھول ہوئی‘ میں تو سیف کو تالا لگانا ہی بھول آیا ہوں‘‘ ''تو اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے۔ ہم تو دونوں ہی باہر ہیں!‘‘ دوسرا بولا۔
٭... ایک آدمی ایک دکان میں داخل ہوا اور ایک اوون کی طرف اشارہ کر کے اس کی قیمت پوچھی۔ دکاندار نے قیمت بتائی تو وہ شخص بولا: ''ساتھ والی دکان والا تو اس سے دو سو روپے سستا دے رہا ہے!‘‘ ''تو آپ وہاں سے کیوں نہیں لے لیتے؟‘‘ دکاندار بولا: ''اس کے پاس سٹاک ختم ہے‘‘ گاہک نے جواب دیا۔ ''جب ہمارے ہاں سٹاک ختم ہوتا ہے تو ہم اسے مفت بیچتے ہیں!‘‘ دکاندار نے جواب دیا۔
٭... ایک سکھ ایک سٹور میں گیا اور دکاندار سے پوچھا‘ یہ فریج کتنے کا ہے؟ ''یہ ہم نے فروخت نہیں کرنا‘‘ دکاندار بولا۔ سکھ نے سوچا کہ شاید اس نے اسے سکھ سمجھ کر چلتا کردیا ہے۔ دوسرے دن وہ سوٹ بوٹ پہن کر اور بن ٹھن کر سٹور پر پہنچا اور وہی سوال کیا جس پر دکاندار نے پھر وہی جواب دیا۔ اب سکھ نے سوچا کہ یقینا اس نے سکھ سمجھ کر اسے لفٹ نہیں کرائی؛ چنانچہ دوسرے دن وہ حجامت کروا کر پھر وہاں پر پہنچا اور جب دکاندار نے پھر وہی جواب دیا تو وہ بولا: ''اگر آپ نے یہ فریج فروخت نہیں کرنی تو رکھی کس لیے ہوئی ہے‘‘ سکھ نے پوچھا۔ ''اس لیے کہ یہ فریج نہیں بلکہ واشنگ مشین ہے!‘‘ دکاندار بولا۔
٭... ایک شخص جعلی نوٹ بنایا کرتا تھا کہ ایک بار ایک نوٹ پر غلطی سے 15 روپے کا ہندسہ چھپ گیا۔ وہ نوٹ کو ضائع بھی نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے وہ قریبی گائوں میں گیا جہاں ایک دکان پر ایک بزرگ خاتون بیٹھی تھی۔ اس نے اس سے کہا: ''مائی جی ایک نوٹ توڑ دیں گی؟‘‘ ''کتنے کا ہے‘‘ مائی نے پوچھا۔ ''پندرہ روپے کا‘‘ اس نے جواب دیا۔ مائی نے وہ نوٹ لیا اور اندر جا کر ساڑھے سات سات روپے کے دو نوٹ لا کر اس کے حوالے کر دیئے!
٭... ایک دکاندار مٹھائی کی دکان سجائے بیٹھا تھا کہ ایک دیہاتی جو وہاں سے گزر رہا تھا‘ رُک گیا اور اپنا سوا اس کی آنکھوں میں چبھونے لگا‘ جس پر دکاندار بولا: ''ارے‘ ارے‘ یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘ ''میں دیکھ رہا ہوں کہ تم کہیں اندھے تو نہیں ہو‘ تمہارے سامنے اتنی مٹھائی پڑی ہے اور اسے کھا نہیں رہے ہو!‘‘ دیہاتی بولا: ''ارے بھائی‘ خود کھاتے رہیں تو مر نہ جائیں!‘‘ دکاندار بولا: ''تو پھر مجھے مر جانے دو!‘‘ دیہاتی نے یہ کہہ کر مٹھائی سمیٹنا شروع کردی۔
پسندیدہ غزل
ویسے تو راستے میں ہی پڑتی دکان ہے
آیا کرو کہ آپ کی اپنی دکان ہے
سیدھی طرف سے آئیں تو ہے سب سے آخری
اور‘ اُلٹے ہاتھ آئیں تو پہلی دکان ہے
نقشے میں ہی رکھائی گئی تھی اسی طرح
آدھا ہمارا گھر ہے تو آدھی دکان ہے
ہر چیز دستیاب ہے‘ اندر تو آیئے
باہر سے لگ رہی ہے کہ چھوٹی دکان ہے
آ جائیں آج اگر رُخِ روشن سمیت آپ
بتی گئی ہوئی ہے‘ اندھیری دکان ہے
پھیکا ہمارا کیوں نہ ہو پکوان اس قدر
سب سے زیادہ شہر کی اونچی دکان ہے
اب کیا بُرے بھلے کا تفاوت روا رکھیں
گاہک بھی اُس طرح کے ہیں جیسی دکان ہے
اک ساکھ ہے بنائی ہوئی اہلِ شہر میں
ہر شخص جانتا ہے‘ پرانی دکان ہے
سودا سلف کہیں نظر آتا نہیں، ظفرؔ
کیسے دکاندار ہو، کیسی دکان ہے
آج کا مقطع
اب وہ کیوں جھانکتا ہے دل کے دریچے سے، ظفرؔ
راستہ اس نے اگر ہم سے جدا کر لیا ہے