مہذب معاشروں میں سیاسی جماعتیں اور غیر سیاسی گروہ اپنے مطالبات کے حق میں جلسے ،جلوسوں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔ جدید سیاسی نظام کا سب سے مثبت پہلو یہی سمجھا جاتا ہے کہ عصری سیاسی اور جمہوری نظام میں ہر شخص کو اپنے نظریات بیان کرنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے اور کسی شخص ،ادارے یا جماعت کو اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ۔
اسلام بھی اپنے ماننے والوں کو جبر وتشدد سے روکتا ہے۔ کسی کو جبراً اسلام میں داخل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی؛ چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 256میں ارشاد ہوا ''دین میں کوئی جبر نہیں‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد مبارک میں دلیل کی روشنی میں لوگوں کو اللہ کے دین کی دعوت دی اور دعوت و تبلیغ کے راستے میں آنے والی تمام پریشانیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا ۔طائف کی وادی میں جب آپﷺ کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو آپ ﷺ نے اہل طائف کے لیے بددُعا نہیں بلکہ ان کی ہدایت کی دعا کی۔ اہل مکہ‘ رسول اللہ ﷺ کو برسوں تشدد کا نشانہ بناتے رہے، آپﷺ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، آپ ﷺ کے جسم اطہرپرپتھر برسائے گئے، آپﷺ کو لہو رنگ بنایا گیا، آپ ﷺ کو وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ مدینہ منورہ میں بھی نبی کریم ﷺ اور آپﷺ کے رفقاء پر جنگ کو مسلط کیا گیا۔ آپ ﷺ نے ہر طرح کی اذیتوں کو پورے حوصلے سے برداشت کیا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی غیبی مدد اور تائید سے آپﷺ کو غلبہ عطا فرما دیا۔ جب رسول اللہﷺ کو غلبہ حاصل ہوا تو اس وقت بھی آپﷺ نے انتقام کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ عفوو درگزر سے کام لیتے ہوئے اپنے تمام دشمنوں کو معاف فرما دیا ۔
خلفائے راشدین نے آپﷺ کے طرز عمل کو اختیار کیے رکھا اور رعایاکے ساتھ حسن سلوک فرماتے رہے۔ خلفائے راشدین کے بعد بھی بہت سے عادل حکمرانوںنے لوگوں کے ساتھ رواداری اور انصاف پر مبنی طرز عمل کو جاری و ساری رکھا۔ان عادل حکمرانوں کے ساتھ ساتھ بعض ایسے حکمرانوں کو بھی حکومت کرنے کا موقع ملا جنہوں نے جبرو استبداد کی نئی تاریخ رقم کی۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد امت اوطان میں تقسیم ہو گئی۔ جمہوریت، شخصی آزادی اور حریت فکر کے دلفریب نعرے مسلمان معاشروں میں بھی گونجنے لگے ۔ ان دلفریب نعرے لگانے والوں کی غالب اکثریت نے ان نعروں کو ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ حقیقی معنوں میں شخصی آزادی ، حریت فکر اور آزادی اظہار پرمبنی معاشرے قائم نہیں ہو سکے ۔جمہوری نظام کے متعارف ہونے سے قبل اقتدار کے لیے اتنی زبردست رسہ کشی کبھی بھی نہیں ہوئی جتنی جمہوریت کے متعارف ہونے کے بعد شروع ہوئی۔پاکستان میں بھی گزشتہ67برسوں کے دوران حکمرانوںکی غالب اکثریت آمرانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرتی رہی ۔ جسے اقتدار حاصل ہوا‘ اس نے اپنے مخالف کو دبانے کاکوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا ۔سقوط ڈھاکہ کی بنیادی وجہ عوام کی رائے کو تسلیم نہ کرنا تھا ۔
پیپلز پارٹی کے بانی رہنما ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں تحریک نظام مصطفی کوبزورطاقت روکنے کی تمام تدابیر کی گئیں۔ ملک کے تمام نمایاں سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا۔ مقدمات قائم کیے گئے اور بہت سے رہنماؤںکو ریاستی جبر کا نشانہ بننا پڑا۔ذوالفقار علی بھٹو مرحوم پرتشدد تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں انہیں قتل کیس میں پھانسی پرلٹکا دیا گیا ۔پیپلز پارٹی کے کارکن تاحال اس پھانسی کو ظلم سے تعبیر کرتے اور اسے عدالتی قتل سے تعبیر کرتے ہیں ۔جنر ل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران ایم آر ڈی کے کارکنوں کو بھی ریاستی تشدد کا سامناکرنا پڑااور ملک بھر میں بالعموم اور صوبہ سندھ میں بالخصوص بہت سے سیاسی کارکنان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔میاں محمد نواز شریف کے سابق دور اقتدار میں جب بھارتی وزیراعظم واجپائی پاکستان کے دورے پر آئے تو جماعت اسلامی نے دیگر مذہبی جماعتوں کے ہمراہ احتجاج کی کال دی۔ اس موقع پر قاضی حسین احمد مرحوم کو کارکنان کے ہمراہ زبردست تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی ریاستی جبرو تشدد کا سلسلہ جاری وساری رہا ۔اسلام آباد کی لال مسجد لہو سے رنگین ہوگئی۔ سینکڑوں معصوم طلبہ اور طالبات جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جنرل پرویز مشرف ہی کے دور میںتحریک حرمت رسول بھی چلی‘ جس میں ملک بھر سے شمع رسالتﷺ کے پروانوں نے گستاخانہ خاکوں کے خلاف احتجاج کیا۔ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں،گرفتار ہونے والوں میں راقم الحروف بھی شامل تھا ۔انہی ایام میں مال روڈپر ایک جلوس نکالا گیا۔ جلوس کے شرکاء پر توڑ پھوڑ کا الزام لگا کرجہاں بہت سے مذہبی کارکنان کو گرفتار کیا گیا وہیں پر مسلم لیگ کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور زعیم قادری کو بھی گرفتار کیا گیا ۔جلوس کے شرکاء پر الزام تھا کہ انہوں نے جان بوجھ کر پر تشدد رویے کو اپنایا تھا۔ حکومت کو شک تھا کہ مذہبی جلوس کو مسلم لیگ (ن)اپنے سیاسی مقاصدکے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی۔ میاں محمد نواز شریف سیاسی کشمکش کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہو کر طویل عرصے تک جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ بعد ازاں وطن واپسی پر آپ نے دوبارہ احتجاجی سیاست کو برقرار کھا ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لیے نکالے جانے والے لانگ مارچ کی خود قیادت کی۔ میاں محمد نواز شریف سیاست کے نشیب و فراز کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور احتجاج کرنے اور جلسے جلوس نکالنے کا پورا تجربہ رکھتے ہیں اس لیے ان جیسے رہنما اور ان کی جماعت کا غیر سیاسی طرزِ عمل باشعور سیاسی کارکنان کے لیے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے ۔
پچھلے دنوںلا پتہ افراد کی بازیابی کے لیے نکالنے جانے والے جلوس کو جس طریقے سے روکا گیا وہ ہر اعتبار سے قابل افسوس تھا۔ محترمہ آمنہ مسعود جنجوعہ کی پرتشدد گرفتاری پر ہر حساس اور درد مند دل دکھ سے لبریز ہو گیا ۔بدامنی ،مہنگائی اور دھاندلی کے خلاف اُٹھائی جانے والی آوازیں گو حکومت کے لیے ناپسندیدہ ہو سکتی ہیں لیکن حکومت کو ان آوازوں کو بہرکیف برداشت کرنا چاہیے۔
حکومت جس طرح اپوزیشن رہنماؤں کے رویوں پر جزبز ہو ر ہی ہے اور خوامخواہ اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنا رہی ہے یہ کسی بھی طور پر حکومت کی ساکھ کے لیے بہتر نہیں ۔گو میں طاہر القادری صاحب کے سیاسی نظریات سے اتفاق نہیں کرتا لیکن ان کی جماعت کے کارکنوں پر جس انداز میں تشدد کیا گیا‘ وہ ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے۔ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے مخالفوں کا کریک ڈاؤن اور ان کا قتل و قتال اچھی اور صحت مند روایت نہیں ۔اگرسیاست میں اسی طرح تشددکا عنصر غالب رہا تو ملک میں کبھی بھی پرامن طریقے سے تبدیلی نہیں آسکے گی بلکہ خونی انقلاب کے حامیوں کے نقطہ نظر کو بتدریج پزیرائی حاصل ہوتی چلی جائے گی ۔جب معاملات افہام و تفہیم اور جلسے جلوسوں سے حل نہیں ہوتے تو پھر بندوق اور گولی کے فلسفے رواج پاتے ہیں۔ کاش! یہ بات ہمارے اور ان کے بہی خواہوں کی سمجھ میں آجائے۔ اللہ ہمارے حکمرانوں اور ان کے مشیروں کو ہوش کے ناخن لینے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین !