کائنات بہت وسیع ہے۔ سوچیے تو ذہن کی طُنابیں کھنچتی جاتی ہیں۔ نظر دم توڑنے لگتی ہے، سوچیں ہانپنے لگتی ہیں۔ مگر جناب، کائنات وسیع ہوگی تو اپنے لیے ہوگی۔ ہم کیا کائنات سے کم وسیع ہیں؟ اور سچ تو یہ ہے کہ اپنی وُسعت کے سامنے کائنات بھی پانی بھرتی دکھائی دیتی ہے! کبھی کبھی تو فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کائنات ہم میں ہے یا ہم پھیل کر کائنات پر محیط ہوگئے ہیں۔
اپنی ذات کا پھیلاؤ بھی ایک عجیب ہی مخمصہ ہے۔ ایک بار یہ سلسلہ چل نکلے تو پھر روکنا مشکل، اور کبھی کبھی تو ناممکن ہو جاتا ہے۔ ہر شے میں اپنا ہی عکس دکھائی دیتا ہے۔ یہ دُنیا بلکہ پوری کائنات نگار خانہ بن جاتی ہے جس میں ہر طرف اپنے ہی جلوے فروزاں نظر آتے ہیں۔ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں اُس میں ہر شخص خود کو کائنات سمجھ بیٹھا ہے۔ بیشتر معاملات خود پرستی سے شروع ہوکر خود پرستی پر ختم ہوتے ہیں۔ ہر شخص اپنے اندر اور اپنے باہر یعنی چاروں طرف اپنے ہی وجود کو دیکھنا چاہتا ہے۔ ذہن میں ایک شیش محل ہے جس میں ہزاروں شیشے جَڑے ہیں۔ اور ہر شیشہ ایک ہی چہرہ پیش کر رہا ہے۔
اپنی ذات کا پھیلاؤ ایسی بُری بات بھی نہیں مگر سِتم یہ ہے کہ اپنی ذات کے پھیلاؤ میں باقی سبھی کچھ سُکڑ کر رہ گیا ہے! ایک تو ہے ہمارے اطراف پھیلی ہوئی کائنات۔ پھر جتنے انسان ہیں اُتنی ہی کائناتیں مزید ہیں کیونکہ ہر اِنسان اپنے آپ میں ایک کائنات ہے۔
روزانہ آئینے میں خود کو دیکھنا کیسا بھلا لگتا ہے! آئینہ بہت ظالم ہے، اِنسان کے لیے روز ایک نیا خبط دریافت یا ایجاد کرتا ہے۔ یہ وہ داستان گو ہے جو روز ایک نئی کہانی سُناتا ہے اور آپ کو یقین دلاتا ہے کہ کوئی مدِمقابل نہیں ہے دور تک، بلکہ بہت دور تک!
آئینے نے کتنوں کو بگاڑا ہے، کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ بال سنوارنے کی خاطر چند لمحوں کیلئے آئینے کے سامنے کھڑا ہونے والا اپنا آپ دیکھ کر کہیں سے کہیں جا نکلتا ہے۔ خود کو محض ایک جھلک دیکھنے پر بھی تصورات کی ایک انوکھی دُنیا ذہن کے پردوں پر فلم کی طرح چلنے لگتی ہے۔ پورے وجود میں کوئی نمایاں خوبی نہ ہو تب بھی آئینہ باور کراتا ہے کہ میاں، تم ہی تو ہو! اگر عقل یا دانش ساتھ دے رہی ہو یعنی حقیقت پر نظر رکھنے کی تلقین کر رہی ہو تب بھی اِنسان چند لمحوں کے لیے تو آئینے کی بات مان ہی لیتا ہے۔ کوئی لاکھ انکار کرنا چاہے مگر آئینہ اِتنی نرمی اور پیار سے اِصرار کرتا ہے کہ اُس کی بات ماننا ہی پڑتی ہے!
اپنی ذات کی منزل میں ٹھہر جانا ضروری بھی ہے اور خطرناک بھی۔ ضروری اِس اعتبار سے کہ اپنا جائزہ لیے بغیر تو آگے بڑھا ہی نہیں جاسکتا۔ اور خطرناک اِس لحاظ سے کہ اِس منزل ہی میں پھنس کر رہ گئے تو سمجھ لیجیے گئے کام سے۔ ہم میں سے بیشتر کا یہی افسانہ ہے۔
تین چار عشروں کے دوران اہلِ پاکستان جس خلجان اور ہیجان سے گزرے ہیں اُس نے نَفسی ساخت کا تیا پانچہ کردیا ہے۔ کسی زمانے میں احساسِ کمتری اور احساسِ برتری کا بڑا غلغلہ تھا۔ اب کوئی تفریق نہیں رہی۔ شدید ترین احساسِ کمتری کی کوکھ سے احساسِ برتری جنم لے رہا ہے۔ جن کے پاس کوئی ہُنر نہیں وہ پہلے تو شرمندہ رہتے ہیں اور پھر اپنے بے ہُنری کو بھی ہُنر اور وصف سمجھنے لگتے ہیں! ہم زمانے سے نرالے ہیں۔ دُنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ nothing سے something جنم لے۔ اور جو something جنم لے وہ خود کو ''از خود نوٹس‘‘ کے تحت everything کے منصب پر فائز کرے!
فریبِ ذات کا عالم یہ ہے کہ جس نے زندگی میں پہلی بار گیند کرائی ہو وہ بھی ''چشمِ تصور کی آنکھ‘‘ سے خود کو وسیم اکرم یا عمران خان کے روپے میں دیکھنے لگتا ہے! جس نے پہلی بار کیمرے کا سامنا کیا ہو وہ بھی فوری طور پر طے کرلیتا ہے کہ دلیپ کمار، امیتابھ بچن یا شاہ رُخ خان پتہ نہیں کیا بیچتے ہیں! جس نے پہلی بار مائیکروفون پر کچھ گایا ہو وہ خود کو محمد رفیع یا مہدی حسن سے ذرّہ برابر کم سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جو ذرا سا تِھرکنا سیکھ لے وہ ''رقّاصِ اعظم‘‘ بن بیٹھتا ہے۔ کسی بھی موضوع پر بلا تکان، بلا ضرورت اور بلا جواز بولنے والوں کا شمار خطیبوں میں ہونے لگتا ہے! یہی حال سیاست کا ہے۔
''میں ہوں نا‘‘ وہ بیماری ہے جس نے کروڑوں، بلکہ اربوں انسانوں کو بربادی سے دوچار کیا ہے۔ اپنی حد سے گزر کر کچھ دیکھنا بڑے دِل گردے کا کام ہے۔ اپنے ہی وجود میں گم ہوکر رہ جانا ہر اعتبار سے نَفسی اور حِسّی مرض ہے۔ کبھی اِس منزل سے گزر کر دیکھیے تو اندازہ ہو کہ اِس دنیا میں، اِس کائنات میں کیا کیا ہے جو منکشف اور مَسخّر ہونے کو بے تاب ہے۔
اپنی ذات سے آگے دیکھنے میں کیا ہرج ہے؟ لوگ کیوں ڈرتے ہیں؟ مرزا تنقید بیگ کہتے ہیں۔ ''اپنے آپ پر مر مٹنے سے زیادہ اور بہتر آپشن کون سا ہوسکتا ہے؟ جب جی میں آئے اپنے آپ پر مر مِٹیے، کس نے روکا ہے؟ خود کو ہر اعتبار سے بہترین سمجھنے میں اپنی جیب سے کچھ خرچ تو کرنا نہیں پڑتا۔ اور اپنے کو برتر تسلیم کرنے میں کون سے زمانے لگتے ہیں؟ ہاں، دوسروں کو قبول کرنے کے لیے دل پر بڑا پتھر رکھنا پڑتا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے ایثار درکار ہے۔‘‘
مرزا کی بات سُن کر دل کو تسلی ہوئی کہ شدید اختلافی مزاج کا حامل ہونے کے باوجود آخرِ کار اُنہوں نے بھی کوئی تو ایسی بات کہی جو ہمارے خیالات سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے!
ہر معاملے میں خود کو عقلِ کُل سمجھ لینا شدید ترین نَفسی مرض ہے۔ اگر بر وقت علاج نہ ہو تو یہ مرض پھیل کر پورے وجود پر محیط ہو جاتا ہے، ہر معاملے کو اپنے شکنجے میں کَس لیتا ہے۔ ایسے لوگوں کا شمار مشکل نہیں جو اپنی ذات کی حد سے آگے بڑھ کر معاملات کو دیکھتے ہیں اور وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے کچھ کرنے کا سوچتے ہیں۔
خود کو ہر مرض کی دوا سمجھ لینا محض فریبِ ذات ہے۔ جو اِس طِلسم میں گیا وہ پَتّھر کا ہوگیا۔ اِس منزل سے گزریے گا تو جان پائیے گا کہ اپنی ذات سے آگے بھی ایک کائنات ہے جس میں امکانات ہی امکانات ہی ہیں۔ یہ جُھوٹی انا ہے جو ہمیں اپنی حد سے آگے دیکھنے نہیں دیتی۔ جس طور برق رفتار طیارے آواز کی حد توڑتے ہیں بالکل اُسی طور آپ کو بھی اپنی ذات کا حِصار توڑنا ہوگا تاکہ اپنے دائرے سے نکل کر کائنات کو نِہاریں، نئی دُنیائیں تلاش کریں اور خواہشات کو عملی شکل دینے کے قابل ہوں۔ ایسا سب کچھ جس قدر جلد ہو اُتنا ہی آپ کے حق میں بہتر ہے۔ ایسا ہوگا تو آپ پر منکشف ہوگا کہ ؎
اَنا کے بُت جو گِرے ہیں تو ہم نے جانا ہے
فریبِ ذات سے آگے بھی ایک دُنیا ہے!