مظہر شاہ‘سلطان راہی‘ ساون‘ مصطفی قریشی بے شک اپنے اپنے دور میں نامور ولن رہے ہوں لیکن گلو بٹ ‘گلوبٹ ہے۔ اسحاق ڈار اسے پیار سے الو بٹ کہتے ہیں۔ کیا نصیب پایا ہے اس شخص نے؟ جو شہرت بڑے بڑے بدمعاش اور بڑے بڑے لیڈر کئی کئی سال کی محنت کے بعد بھی حاصل نہیں کر سکے‘ گلو بٹ نے ایک ہی دن میں سٹوری چک دی۔ قدرت کی دین ہے‘ سترہ جون کی صبح تک گلو بٹ ایک گمنام آدمی تھا۔ صرف چند گھنٹوں کی کارروائی نے اسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ دنیا کا ہر ٹی وی چینل اس کے کارنامے نشر کر رہا تھا۔ ہر جگہ اس کے نام کے چرچے ہو گئے۔ کسی ٹی وی چینل کا نیوز بلیٹن گلو بٹ کے بغیر مکمل نہیں ہو رہا تھا۔ ہر چینل ایک دوسرے سے بڑھ کر گلو بٹ کو کوریج دے رہاتھا۔ پنجاب پولیس خصوصاً لاہور کی‘ دنیا بھر میں مشہور ہے۔ بڑے سے بڑے غنڈے کو خاطر میں نہیں لاتی۔ بڑے سے بڑا لیڈر اگر محروم اقتدار ہے تو لاہور کی پولیس کے سامنے اسے جھک کے رہنا پڑتا ہے‘ ورنہ لاہور کی پولیس سب کے نخرے توڑ دیتی ہے۔ بدمعاشوں کی تو مجال نہیں کہ لاہور کی پولیس کے سامنے سر اٹھا کر چل سکیں۔ جو ایسا کرتا ہے اگلے دن اس کا سر تھانیدار کے پیروں میں‘ دونوں بازو چھوٹے تھانیداروں کے ہاتھوں میں اور ٹانگیں سپاہیوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں۔ وہ گڑگڑا کر نہیں‘ بلبلا کر دعائیں مانگتا ہے لیکن یہی پولیس گلو بٹ کے لئے ریموٹ کنٹرول کھلونوں کی طرح نقل و حرکت کر رہی تھی۔ وہ منظر ٹی وی کے ناظرین کبھی نہیں بھولیں گے کہ گلو بٹ پولیس کے ایک بہت بڑے دستے کی قیادت کر رہا ہے۔ اس کا شہرہ آفاق ڈنڈا اس کے ہاتھ میں ہے۔ چلتے چلتے اچانک وہ افسرانہ انداز میں دوڑنا شروع کرتا ہے اور اس کے پیچھے پولیس کا بھاری دستہ چشم زدن میں اس کی نقل کرتے ہوئے دوڑنے لگتا ہے۔ پولیس کی یہ دوڑ بالکل ایسی تھی جیسے اعلیٰ تربیت یافتہ ایلیٹ فورس کے گوریلے دستے دشمن پر حملہ کرنے کی تیاری میں ہوں۔ یہ منظر طالبان کے میڈیا مین کو اتنا پسند آیا کہ وہ اپنے کالم میں خراج تحسین پیش کئے بغیرنہیں رہ سکا۔گلو بٹ ہمارے ملک کے شاہی خاندان کا لاڈلا فدائی ہے۔ ہر انتخابی مہم میں پیش پیش ہوتا ہے۔ شاہی خاندان کے افراد ووٹ ڈالنے جائیں تو ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ جس مہارت‘ پھرتی اور ضرب کاری سے اس نے کاروں کے شیشے توڑے‘ وہ اس کی ہنر مندی اور زور بازو کا مثالی مظاہرہ تھا۔ پنجاب حکومت نے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے صفحات پر قبضہ کرنے کا جو پروگرام شروع کیا ہے‘ گلو بٹ نے ثابت کیا کہ وہ نا صرف اس میں شامل ہونے کا حقدار ہے بلکہ وہ سارے حریفوں پر سبقت حاصل کر کے دنیا کا اعلیٰ ترین شیشہ توڑ یا گلاس بریکر بننے کا اعزاز بھی حاصل کر سکتا ہے۔ امید ہے خادم اعلیٰ اسے آئندہ مقابلوں
میں خصوصی دعوت دے کر شریک کریں گے اور وہ آزمائشی مقابلوں میں کامیاب ہو کر ‘پاکستان اور پنجاب کے خادم اعلیٰ کا نام پوری دنیا میں روشن کرے گا۔ ویسے یہ بات میں نے تکلفاً ہی لکھی ہے۔ حقیقت میں گلو بٹ دو دن کے اندر اندر دنیا کا عظیم سٹار بن چکا ہے۔
پولیس والوں کو گلو بٹ کی یہ شہرت ایک آنکھ نہیں بھائی۔وہ دو دن تک نہتے لوگوں کو لاٹھیاں مارتے مارتے تھک گئی۔ 81مردوزن کو گولیوں کا نشانہ بنا کر ہسپتال پہنچا دیا۔ گیارہ مردو ں اور عورتوں کو کڑاکے دار نشانے باندھ کر گولیاں ماریں اور انہیں دوسری دنیا میں پہنچا دیا۔ درجنوں بچوں‘ عورتوں‘ جوانوں اور بوڑھوں کو ایسے غائب کر دیا جیسے یہ لاہور نہیں کراچی ہے۔ بے گناہ شہریوں کو اغوا کرنے کے معاملے میں لاہور کا نام بھی کراچی کے برابر لکھا جانے لگا ہے۔ اس کا اعزاز ہماری پولیس کو ملنا چاہئے تھا لیکن میڈیا میں کسی نے بھی ماڈل ٹائون او روحدت روڈ پولیس کو پروجیکشن نہیں دی۔ ہر طرف گلو بٹ‘ گلو بٹ چھا گیا۔ پولیس اپنی یہ سبکی کیسے برداشت کرتی۔ اس نے تائو میں آکر گلو بٹ کو گرفتار کر لیا مگر جلد ہی ایک ایسا ٹیلی فون آیا جسے کان سے لگاتے ہی ایس ایچ او نے ایک جھٹکے سے کھڑا ہو کر یوں سلیوٹ مارا ‘جیسے اسے کرنٹ لگ گیا ہو۔ٹیلی فون پر وہ صرف جی سر‘ جی سر کہتا سنائی دیا۔ فون بند کرتے ہی اس نے گلو بٹ کو اپنے کمرے میں عزت سے کرسی پربٹھایا اور اصرار کرنے لگا کہ وہ ایک چرغہ ضرور تناول کر لیں۔ گلو بٹ نے نخرے دکھائے لیکن ایس ایچ او نے اصرار جاری رکھا اور اسے پورا چرغہ چباجانے پر مجبور کر دیا۔رات بھر گلو بٹ کی ٹہل سیوا ہوتی رہی۔ صبح اس کا منہ ڈھکنے کے لئے ایک تولیہ منگوایا۔ گلو بٹ نے اسے نا پسند کر دیا۔ چنانچہ بطور خاص ایک پولیس افسر کو تحفے میں آئی ہوئی سندھی اجرک تھانے منگوا کر گلو بٹ کو پیش کی گئی۔ پولیس کے ایک تجربہ کار اور ماہر محرر نے اسے سبق یاد کرانا شروع کیا کہ '' آپ عدالت میں جا کر وکیل کی اس بات پر کوئی احتجاج نہ کریں کہ آپ ایک نیم پاگل انسان ہیں۔ آپ کو کبھی کبھی دورہ پڑتا ہے اور اس حالت میں آپ توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں۔آپ کو اس بات کا ذرا ہوش نہیں رہتا کہ آپ کیا کر رہے ہیں‘‘۔گلو بٹ نے جواب دیا '' لیکن مجھے تو سب کچھ یاد ہے۔ میں نے کتنی گاڑیاں توڑیں؟ میں نے تمام گاڑیوں کی فہرست بنا کر رکھی ہوئی ہے جن کی میں نے ونڈ سکرینیں اور کھڑکیوں کے شیشے توڑے ہوئے ہیں۔ صاحب نے مجھے فی گاڑی دو سو روپے معاوضہ بھی دیا تھا‘‘۔ اس پر پولیس والے بہت سٹپٹا ئے اور ایک نے التجائیہ انداز میں کہا '' بٹ صاحب! کیوں سانوں مروانا ایں‘‘۔ بٹ صاحب کو آمادئہ بغاوت دیکھ کر پولیس والے ترلے منتوں پر اتر آئے اور بڑی مشکل سے وعدہ لیا کہ وہ عدالت میں خاموش رہے گا۔ جو کہنا ہے‘ ہمارا وکیل کہے گا۔
پولیس بٹ صاحب کو لے کر ماڈل ٹائون کچہری میں گئی۔ قبل اس کے کہ بٹ صاحب کو عدالت میں پیش کیا جاتا۔ گلو بٹ کے کسی ہرکارے نے آواز لگائی ''گلو بٹ صاحب آگئے ہیں‘‘۔ یہ سننا تھا کہ بٹ صاحب کے شیدائی بے قابو ہو کر ان پر جھپٹ پڑے۔ ڈنڈا تو کسی کے پاس نہیں تھا لیکن جس کو مکے‘ گھونسے‘ ٹھڈے اور تھپڑ کی توفیق ہوئی اس نے حسب توفیق وہی بٹ صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا۔ جب تواضع ذرا زیادہ ہونے لگی تو جس سپاہی نے ہتھکڑی پکڑ رکھی تھی‘ اس نے گلو بٹ کے کان میں کہا کہ جلدی سے زمین پر گر کے ظاہر کرو ‘جیسے تم بے ہوش ہو گئے ہو۔ ہدایت کے مطابق گلو بٹ فوراً زمین پر لیٹ گیا اور شائقین نے بٹ صاحب کو بے ہوش سمجھ کر چھوڑ دیا۔ پولیس نے '' بے ہوش‘‘ بٹ صاحب کو ڈنڈا ڈوری کرتے ہوئے رکشے میں لٹا دیا اور جیسے ہی رکشہ چلا‘ بٹ صاحب کندھے جھاڑ کے رکشے کی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ واپس پولیس سٹیشن پہنچے تو ایک مالشیا بٹ صاحب کے انتظار میں بیٹھا تھا۔اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ بٹ صاحب کو آج بھی مالش کے ایک مزید سیشن کی ضرورت پڑ چکی ہے۔ آج اسے پھر سے نئی چوٹوں پر مالش کرنا پڑے گی۔ اس سے فارغ ہو کر پرانی چوٹوں کی مالش کی۔ بٹ صاحب نے نہانے کی خواہش ظاہر کی تو پولیس و الوں نے بتایا کہ آپ کو ترو تازہ دیکھ کر‘ لوگ یہی سمجھیں گے کہ آپ جھوٹ موٹ کے بے ہوش ہو کر‘ مار سے بچ گئے تھے۔ ہو سکتا ہے وہ آپ کا باقی ماندہ راشن بھی آپ کے حوالے کرنے پر تل جائیں۔ بہتر ہے کہ اسی حالت میں واپس کچہری جائیں۔ اب بٹ صاحب پر ایک بہت بڑا حفاظتی دستہ مامور کیا گیا اور وہ بڑی شان سے چاروں طرف فاتحانہ انداز میں دیکھتے ہوئے عدالت میں داخل ہوئے۔ پولیس نے ان کے لئے چھ دن کا جوڈیشل ریمانڈ مانگا لیکن جیل والوں کو چھ کے بجائے چودہ دن بٹ صاحب کی خدمت کا موقع مل گیا۔میں عام طور پر ذہن کو حاضر و ناظر سمجھتے ہوئے کالم لکھتا ہوں لیکن بٹ صاحب کے واقعات پڑھتے پڑھتے مجھے بھی اچانک دورہ سا پڑ گیا ہے۔کچھ یاد نہیں‘ کیا لکھا گیا۔ کل اخبار میں پڑھوں گا‘ تو پتہ چلے گا کہ لکھ دیا تھا جنوں میں کیا کیا کچھ؟ احتیاطاً وضاحت کر دی ہے کہ گلو بٹ اگلے چند روز میں وزیر بن جائیں گے ۔ چوہدری نثار کی طبیعت بھی ان دنوں کچھ خراب سی رہتی ہے۔ شرمیلا فاروقی نے تو گزشتہ کل سندھ اسمبلی میں انہیں خادم اعلیٰ قرار دے دیا تھا۔