تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     20-06-2014

افسوس

اس قوم پر افسوس ، جو گزرے کل کاماتم کرتی او ر فقط آج کے دن میں جینا چاہتی ہے ۔ جسے طلوع ہونے والے کل کے سورج کی کوئی پروا نہیں ۔ 
دوست یہ کہتا ہے : تمہارے ذاتی احوال سے قاری کو کیا غرض۔ ارے بھائی! لکھنے والا بھی گوشت پوست کا آدمی ہے۔ دل ایبٹ آباد میں اٹکا ہے ۔بڑے شاہ جی دنیا سے چلے گئے ۔ ان کی موہنی صورت، ان کی دائمی شفقت اورہمیشہ برقرار تحمل۔ خلیل جبران نے کہا : کیوڑے کا درخت اپنی خوشبو لٹاتا ہے اور اسے اس کی خبر تک نہیں ہوتی۔ دوسرے موضوعات بھی۔ سانحۂ لاہور کے پسِ منظر میں ضربِ عضب اور اس پر الزام تراشی کا مقابلہ ۔ وزیرِ خزانہ کا بیان کہ ''سود‘‘ کے نام سے خوف آتاہے۔ بجٹ میں اس لفظ سے اغماض برتا اور ''منافع‘‘ لکھا۔ ہم سب کی کم تر ترجیحات میں الجھی ہوئی زندگیاں ۔
آئی ایس پی آر کے بریگیڈئیر مجتبیٰ ،ان کے بھائی کرنل مرتضیٰ اورقلندر،جس کا نام ہی حافظے سے اترگیا ۔ ان کے گرامی قدر والد بڑے شاہ جی ۔ 2009ء میں ان کے ساتھ حج کی سعادت نصیب ہوئی ۔ ان ایام کی منور یادیں۔ تکان میں بریگیڈئیر مجتبیٰ پر بے سبب مجھے غصہ آتا، اسے قلندر پر۔ شاہ جی حلم کی تصویر۔ ماحول ان کی وجہ سے آسودہ رہتا۔ اس طرح شاہ جی خرچ کرتے کہ دیکھنے والے دنگ ۔ کوئی مطالبہ نہ تقاضا، کوئی حکم نہ آرزو۔ اللہ کی یاد اور اس کے بندوں سے محبت۔ سادگی واقعی ایما ن کی نشانی ہے ۔ اللہ نے انہیں بہت دیا اور انہوں نے بہت لٹایا۔ فرزند بھی ایسے ہی ۔ ایک کام وہ ایسا کرتے کہ کم ہی مثال ہوتی ہے ۔ ہر ایک سے شفقت، ہر ایک پر عنایت اور ہمیشہ ۔ واقعات لکھنے چاہئیں مگر ان کے ہاں حاضری دیے بغیر؟ ان سے معافی مانگے بغیر ؟ آخری دنوں میں وہ یاد کرتے رہے اور ایک بار کے بعد حاضر نہ ہو سکا۔ محبوب لوگوں سے یہ دنیا ہمیں جدا رکھتی ہے اور ادنیٰ میں مبتلا۔ 
سودکے نام سے وزیرِ خزانہ کو خوف آیا تو خرابے میں کہیں نمی ہے ، صحرا میں کوئی شاخِ سبز باقی ہے ۔ افسوس کہ علماء نے غور و خوض ترک ہی کردیا ۔ رٹے ہوئے سبق ہیں اور دعوے ہیں ۔تحصیلِ علم سے انکار ہے۔ سرکارؐ نے فرمایا تھا:وقت آئے گا کہ سود نہیں تو اس کا دھواں ہر ایک کو پہنچے گا۔ یہ وہی زمانہ ہے ۔ قرآن کی آیت نازل ہوئی : سود کو اللہ گھٹاتا اور صدقے کو بڑھاتا ہے ۔ صوفی محمد کے کمانڈر مسلم خاں نے ٹی وی پہ دھمکی دی کہ بینکوں کو کام کی اجازت وہ نہ دیں گے ۔ پوچھا: ختم المرسلینؐ نے سو د پر پابندی کب لگائی تھی؟ وہ بے چارہ بے خبر۔ آیات نازل ہونے کے بہت بعد خطبہ حجتہ الوداع میں ارشاد ہوا : آج سے سارے سود میں باطل قرار دیتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے چچا عباس بن عبد المطلب کا۔عالی جنابؐ جانتے تھے اور دنیا کو سکھانا تھا کہ زندگی تدریج کا مطالبہ کرتی ہے ، صحت مندانہ انداز فکر اور علم کا۔ دولت سے محبت کرنے والو ں کو آپؐ نے سکھایاکہ صدقہ حیات کی کیسی شاخِ ثمر دار ہے ۔ زکوٰۃ ، عطیات اور قرضِ حسنہ ۔ خیرات کی دس نیکیاں ہیں تو قرضِ حسنہ کی اٹھارہ۔ سکھایا کہ توکل کیا ہے اور اپنی مثال سے سکھایا۔ پھر عمرؓ ابنِ 
خطاب کہا کرتے: اگرتم توکل کرو تو پرندوں کی طرح رزق دیے جائو۔ اسحٰق ڈار صاحب! عارف سے ہم نے سیکھا ،سود ختم نہ ہوگا ، اگر صدقات کانظام نہ ابھرے۔ متبادل ادارے اگر تعمیر نہ ہوں۔ عالمی سودی نظام سے ہم جڑے ہیں ۔ رفتہ رفتہ ہی شاخ‘ شجر بن سکتی ہے۔ فتوے یا عدالتی فیصلے سے ہرگز نہیں ۔وزیرِ خزانہ اگر سیکھنا چاہیں تو اہلِ علم سے التجا کی جا سکتی ہے ۔ یہ کارنامہ اگر آپ انجام دے سکیں تو تاریخ میں نام رہے گا۔ اللہ کی بارگاہ اور اپنے ضمیر کی عدالت میں آپ سرخرو ہوںگے۔ باقی رہنے والی فضیلت مگر کم تر ترجیح پہ حاصل نہیں ہوتی۔ باقی وہ چیز رہتی ہے، جس کی اصل خالص اور جڑ مضبوط ہو۔ فرمایا: ایک پاکیزہ کلمہ، جس کی جڑیں گہری اور ٹہنیاں آسمان تک ہیں ۔ اقبالؔ نے مسجدِ قرطبہ کو دیکھا تو کہا : اس نقش کو دوام ہے ، جسے کسی مردِ خدا نے تمام کیا ہو ۔ سپین میں اموی بادشاہوں کے خیمے اجڑ گئے ۔ مسلمانو ں کی اقلیتی حکومت ختم ہوئی کہ وہ شان و شوکت اور تعصبات کے اسیر ہوئے۔ مسجدِ قرطبہ مگر باقی ہے ۔ اس پر لکھی گئی اقبالؔ کی نظم بھی باقی رہے گی ۔ کبھی کسی شاعر نے ایک عمارت کی تعمیر میں کارفرما سچائی کو اس طرح داری سے بیان نہ کیا تھا۔ 60برس سے سری نگر کے مقتل میں پورے قد سے کھڑے سیّد علی گیلانی نے لکھا ہے کہ جب وہ بچّے تھے اور فکرِ اقبالؔ سے نا آشنا ، تب بھی اس کی قبر پر انہیں سکونِ قلب میسّر آتا۔ کیوں نہ آتا ؎ 
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں 
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں 
طاہر القادری کا قافلہ اسلام آباد میں اترا تو فساد کا اندیشہ تھا۔ وزیرِ داخلہ رحمن ملک تھے۔ آئی جی کے ذریعے انہوں نے علامہ کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ شہر خون میں نہا جاتا۔ کمشنر طارق پیرزادہ مگرڈٹ گئے۔ راتیں جاگ جاگ کر کاٹیںاور وزیراعظم سمیت سبھی کو سمجھایا کہ انسانی خون کی حرمت کیا ہے۔ خون جما دینے والی ٹھنڈ میں ، ایک سحر خواجہ مہر علی شاہ کے مرقد پرگئے ۔ اللہ سے دعا کی کہ فساد ٹال دے۔ ایک معصوم بچّے کی طرح کہا : یا رب جس کی موت لکھی ہے ، وہ اس کے گھر میں آئے۔ لاہور کے کمشنر نے بھی اختلاف کیا مگر سننے والا کوئی نہ تھا۔ 
اب ایک دوسرے کو دشنام ہے ۔ ڈاکٹر طاہر القادری کہتے ہیں کہ شریف خاندان نے وزیرستان آپریشن کوناکام بنانے کے لیے سازش کی۔ پرویز رشید نے فرمایا: عمران خان اور طاہر القادری ملک میں بے چینی پھیلا کر فوج کی کاوش و قربانی کو برباد کرنے پر تلے ہیں۔ بھائی لوگو! ان غازیوں کو گندی سیاست میں کیوں گھسیٹتے ہو، جانیں ہتھیلیوں پر رکھے،تپتے کوہساروں میں قوم کے لیے جو زندگی ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ یہ فوجی اور غیر فوجی حکمرانوں کا کارنامہ ہے کہ 67سال میں بھی قوم کو ایک قابلِ اعتبارنظامِ عدل نہ دے سکے ۔ اپنی انائوں کو گنّے کا رس پلاتے ، اقتدار کی بھوک میں مرے جاتے، دولتِ دنیا سمیٹتے رہے ۔ علّامہ صاحب اور ان کے مدّاح مظلوم ہیں مگر انقلاب اس طرح نہیں آیا کرتے ۔ ایک فیصد آبادی کو منظم کر کے لاشوں کے بل پر نہیں ۔زورِخطابت سے نہیںبلکہ تعلیم،فکری تطہیر، تزکیۂ نفس ،ایثار اور بے ریا جدوجہد سے۔سرکارؐ کا قرینہ یہی تھا۔اس کے سوا ہر قرینہ ناکام رہے گا۔ مالی معاملات میں کپتان کا دامن پاک ہے مگر اقتدار کے لیے بے تاب۔ اصلاح عزیز ہے تو اپنی پارٹی کو منظم کریں ۔ اہل اور شائستہ لوگوں کو زمام سونپیں ۔ کیا فقط احتجا ج سے قوموں کی تقدیریں بدلتی ہیں ؟ ان سے عرض کیا تھا : کارکنوں کی تربیت کیجیے ، پولیس ، پٹوار ، سول سروس، ٹیکس وصولی، تعلیم اور صحت کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی‘ وگرنہ آپ ایک اور وزیراعظم، آپ کی حکومت محض ایک اور حکومت۔ 
رہا شریف خاندان تو وہ رخصت ہوا۔ اب فقط گنتی باقی ہے اور وہ اللہ جانتاہے ۔ بھٹو خانوادے کی طرح اس کا عہد تمام ہوا۔ سوال صرف یہ ہے کہ آنے والے کل کے لیے بندوبست کیا ہے؟ چیونٹیوں جتنی عقل بھی کیا ہم میں نہیں کہ آئندہ موسم کے لیے غور وفکر ہو ،منصو بہ بندی کریں ؟ 
اس قوم پر افسوس ، جو گزرے کل کاماتم کرتی او ر فقط آج کے دن میں جینا چاہتی ہے ۔ جسے طلوع ہونے والے کل کے سورج کی کوئی پروا نہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved