تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     20-06-2014

خود سے برسر پیکار سماج

اتوار 15جون کی صبح شمالی وزیرستان میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن میں سینکڑوں دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ کارروائی کا آغاز فضائی حملوں سے کیا گیا۔ 18جون کو آنے والی خبروں کے مطابق عسکریت پسندوں کے 60فیصد ٹھکانے تباہ کر دئیے گئے ہیں جبکہ علاقے کے 40فیصد حصے پر فوج نے کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔آپریشن کی فوری وجہ کراچی ایئرپورٹ پر ازبک دہشت گردوںکے حملے کو قرار دیا جارہا ہے۔ اس حملے کے بعد ریاست کے بااختیار حلقوں کی جانب سے راست اقدام کا فیصلہ کیا گیا۔ 
ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی مکمل عدم موجودگی میں آپریشن میں ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ فوج کے اپنے بیانات کے مطابق اب تک ہلاک ہونے والوں میں کراچی ایئرپورٹ حملے کے ازبک ماسٹر مائنڈ سمیت ملکی اور غیر ملکی گروہوں کے جنگجو شامل ہیں۔ امریکی ڈرون حملے بھی جاری ہیں۔ 18جون کو میران شاہ میں ایک گاڑی پر ہونے والے حملے میں 6جبکہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ہونے والے تین ڈرون حملوں میں مجموعی طور پر22ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ شمالی وزیرستان کے باقاعدہ میدان جنگ بننے کے بعد علاقے سے بڑے پیمانے پر ہجرت شروع ہوگئی ہے۔ 
سیاسی فرنٹ پر دیکھا جائے تو حکمران سیاسی جماعت سمیت تمام پارٹیاں کھل کر فوج کی حمایت کر رہی ہیں۔ واحد استثنا 'فی الوقت‘ جماعت اسلامی کو حاصل ہے جس کی وجوہ ہمیشہ کی طرح 'پراسرار‘ ہیں۔ پختونخوا میں جماعت اسلامی کی 'اتحادی‘ تحریک انصاف نے بھی اپنی 'کور کمیٹی‘ کے اجلاس میںروایتی یو ٹرن لیتے ہوئے آپریشن کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔پیپلزپارٹی کے رہنما آپریشن کے سب سے بڑے اور پرجوش حمایتی بنے ہوئے ہیں۔ یہ حضرات شاید فوج کے ساتھ پارٹی کے تلخ تعلقات کی لمبی تاریخ بالکل ہی بھلا بیٹھے ہیں۔مذہبی دایاں بازو اور ''کالعدم‘‘ تنظیمیں بھی آپریشن اور فوج کی حمایت میں دوسروں پر بازی لے جانے کی پوری کوشش کررہی ہیں۔2007ء میں عدلیہ بحالی کی ''تحریک‘‘ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ قدامت پرستوں، مذہبی جماعتوں اور انتہائی دائیں بازو سے لے کر لبرل، سیکولر، نام نہاد بائیں بازو اور 'سول سوسائٹی‘ تک، ''ملک و قوم‘‘ کی بقا کے لئے سب یکجا ہوگئے ہیں۔ ایئر کنڈیشنڈ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر سیاست کرنے والے ان خواتین و حضرات کی اکثریت سنجیدگی سے سمجھتی ہے کہ فوجی آپریشن سے ملک میں دہشت گردی کا نیٹ ورک ٹوٹ جائے گا اور پھر راوی چین ہی چین لکھے گا۔ 
حکمرانوں کی ٹانگیں محافظین کی فوج ظفر موج کے سائے میں بھی کانپ رہی ہیں۔شیروں کے حفاظت کے لئے لاکھوں روپے کے 'امپورٹڈ‘کتے خریدے جارہے ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی پنجاب کے نڈر وزیر اعلیٰ شہبار شریف نے لاہور گیریژن کے کور کمانڈر سے فوجی سکیورٹی فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔پنجاب کے کل بجٹ کا 12فیصد ہڑپ کرنے والی ایک لاکھ چھیانوے ہزار کی پولیس فورس اپنے ''خادم اعلیٰ‘‘ کی حفاظت سے قاصر ہے۔ پنجاب پولیس ویسے بھی نہتے شہریوں پر نشانہ بازی کرنے اور اپنی نگرانی میں گاڑیوں کو شیشوں سے پاک کروانے کی ماہر ہے۔
حالیہ آپریشن سے پہلے بھی اس خطے میں فوجی آپریشنوں کی ایک تاریخ ہے۔ ان میں سے بیشتر ادھورے کیوں چھوڑے گئے؟ یہ آپریشن کرنے اور کروانے والے ہی بہتر جانتے ہیں۔1990ء کے بعد سے کراچی مسلسل ملٹری اور پیرا ملٹری آپریشنوں کی زد میں رہا ہے۔موجودہ حکومت نے بھی برسر اقتدار آنے کے بعد ایک آپریشن کا آغاز کیا تھاجو میڈیا کی بدلتی ہوئی شہ سرخیوں میں کہیں کھو گیا۔روشنیوں کے اس شہر پر آج ماضی کی نسبت کہیں گہری تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ بلوچستان میں کئی سالوں سے فوجی آپریشن جاری ہے۔درجنوں ریاستی، نیم ریاستی اور غیر ریاستی مسلح گروہوں کی موجودگی میں زندگیاں برباد ہورہی ہیں۔ فرقہ وارانہ ، معاشی اور اسٹریٹجک بنیادوں پر علاقائی اور عالمی طاقتوں کی پراکسی جنگ بلا روک ٹوک جاری ہے جس کا ایندھن عوام بن رہے ہیں۔ 
سکیورٹی کے معاملات ہوں یا سیلاب اور زلزلوں جیسی قدرتی آفات پر امدادی کاروائیاں، فوج کو ہر غیر معمولی صورتحال میں 
طلب کرنے کا رواج سا پڑ گیا ہے۔ جوں جوں سماجی خلفشار بڑھ رہا ہے، معاشی بحران گہرا ہورہا ہے اور انفراسٹرکچر ٹوٹ کر بکھر رہا ہے یہ غیر معمولی صورتحال اس ملک کا معمول بنتی جارہی ہے۔ فوجی کارروائیوں یا آپریشن کے نتائج کتنے ہی غیر واضح یا منفی کیوں نہ ہوں،شہری دفاع اور ریسکیو وغیرہ کے باقاعدہ اداروں کی ناکامی یا سرے سے عدم موجودگی کے پیش نظر سویلین حکمران فوج کی مددطلب کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ فوج نے بھارت سے تین جنگیں لڑی ہیں اور ملک میں چار آمریتیں نافذ کی ہیں۔ مارشل لائوں نے بھی عوام کو محرومیوں اور ذلتوںکے سوا کچھ نہیں دیا۔ ڈکٹیٹر اگر ملک کے حکمران طبقے کے لئے مایوس کن ثابت ہوئے ہیں‘ تو جمہوری حکومتیں سرے سے ہی نااہل نظر آتی ہیں۔ایک جدید اور مستحکم سماج کی تعمیر میں حکمران طبقے کی ناکامی کی بنیادی وجہ اس معاشی نظام کی متروکیت ہے جس کی بنیاد پرریاست اور سیاست کے بالائی طبقے تعمیر ہوتے ہیں۔ 
شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں اور بنیاد پرستوں کے چھ بڑے گروہ سرگرم ہیں۔ ان میں گل بہادر گروپ، حقانی نیٹ ورک، ازبک جنگجوئوں کی مشرقی ترکستان اسلامی تحریک، القاعدہ کی باقیات اور عرب جنگجو شامل ہیں۔ان گروہوں کے پاکستانی ریاست، امریکی سامراج اور دوسری علاقائی قوتوں کے ساتھ تعلقات غیردیرپا اور متضاد نوعیت کے ہیں۔وفاداریاں اور اتحاد مسلسل بنتے بگڑتے رہتے ہیں۔ انتہا پسندوں کابڑا ذریعہ آمدن منشیات کا کاروبار، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری جیسے جرائم ہیں۔کچھ گروہوں کی جڑیں کراچی تک پھیلی ہوئی ہیں۔خوف ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کی بنیاد پر بھتہ اور تاوان لیا جاتا ہے۔ یہ گروہ ریاست کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے بھی مسلسل برسر پیکار رہتے ہیں۔
کالا دھن اور بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کے ذریعے یہ گروہ رفتہ رفتہ جدید ہتھیاروں سے لیس وسیع جنگی مشینری اور ملک گیر نیٹ ورک قائم کرچکے ہیں۔دہشت کا یہ کاروبار اتنا پھیل چکا ہے کہ ملٹی نیشنل اجارہ داریاں اور سامراجی قوتیں اپنے مفادات کے تحت مختلف دہشت گرد گروہوں کی خدمات کرائے پر حاصل کرتی ہیں۔ تمام چیزیں بلیک اینڈ وائٹ نہیں ہیں اور کھیل بڑا پُرفریب ہے۔اس سارے معاملے کو سیدھا سمجھنے والے کسی اور دنیا میں رہتے ہیں۔ آگے چل کر ''اچھے‘‘ اور ''برے‘‘ طالبان کا معاملہ زیادہ پیچیدہ ہوجائے گا۔ حکمت عملی کے تحت ساز باز بھی ہوگی۔''اسٹریٹجک گہرائی‘‘ کی پالیسی بھی جاری ہے۔یہ ایک طویل، پرپیچ اور خونی جنگ ہے۔ 
سکیورٹی کے حصار در حصار میں تعمیر عالیشان محلات میں بیٹھے ان ارب پتیوں کو شاید مغز ماری کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ مرنا تو غریب نے ہے ۔ اسے اگر کالے دھن پر پلنے والے جنونی نہیں ماریں گے تو بھوک مار دے گی۔جہاں ہر روز غذائی قلت اور قابل علاج بیماریوں سے 1184بچے مرتے ہوں وہاں بم دھماکے بھی بے معنی ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب کھونے کو کچھ نہ بچے تو محرومی بھی طاقت بن جاتی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved