وہ حکم جسے خان بیگ نے پورا کرنے سے معذرت کر لی تھی‘ وہ ان کے چارج چھوڑنے کے ایک گھنٹے بعد ہی ٹھیک ٹھاک طریقے سے انجام دے دیا گیا...اگر گزشتہ چھ سالوں پر نظر ڈالی جائے تو دیکھنے اور خبر رکھنے والے جانتے ہوں گے کہ پنجاب کے کسی دور دراز مقام پر اگر کوئی بھی واقعہ ہوتا تھا تو اس بارے ٹی وی چینلز کی خبر نشر ہونے کے ایک گھنٹے کے اندر اندر اعلان ہو جاتا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس کا فوری نوٹس لے لیا ہے اور واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے بلکہ یہاں تک ہوا کہ رات کو کسی پروگرام میں کسی اینکر کی طرف سے اگر کسی بچے بچی کی شدید بیماری کا ذکر کیا جاتا یا کسی ذہین اور لائق ترین بچے کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کی اپیل کی جاتی تو چند منٹ بعد خبر آ جاتی تھی کہ خادم اعلیٰ پنجاب نے اس کے علاج کی مکمل ذمہ داری اٹھا لی ہے اور اس بیمار کے علاج کا تمام خرچہ حکومت پنجاب برداشت کرے گی‘ پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ جناب شہباز شریف رات دو بجے منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے سامنے گرائی جانے والی رکاوٹوں سے بے خبر تھے!
لاہور میں تعینات ہونے والے ایک نیک نام اور انتہائی میرٹ پسند سرکاری افسر ڈی سی او نسیم صادق نے مال روڈ پر جب تجاوزات گرانا شروع کیں تو ایک گھنٹے میں انہیں وزیر اعلیٰ ہائوس سے فون آ گیا کہ بند کریں یہ سب کچھ اور چپ چاپ اپنے گھر چلے جائیں کیونکہ آپ کو او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ آج بھی سارا لاہور تجاوزات کی بد ترین شکل میں سب کے سامنے ہے اور پنجاب کے حکمرانوں کی جانب سے مال روڈ کی سڑکوں پر مسلم لیگ نواز کے ورکروں کو دیے گئے قبضے وہاں آنے جانے والوں کیلئے وبال جان بنے ہوئے ہیں اور آج کی سنگین صورت حال میں اﷲ نہ کرے کسی واقعہ کا با عث بن سکتے ہیں تو پھر کیا وجہ تھی کہ پورے لاہور شہر میں پھیلی ہوئی تجاوزات کی بھر مار تو کسی کو نظر نہیں آئی لیکن فیصل ٹائون کے ایک گھر کے سامنے والی تجاوزات نے 8 قیمتی جانیں نگل لیں اور ان میں23 سال کا وہ نوجوان بھی شامل ہے جس کے سر پر سہرے دیکھنے کیلئے اس کے ماں باپ اور بہنیں ایک ایک کر کے دن گن رہی تھیں اور کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ تین دوسرے نوجوان جو پولیس کی براہ راست گولیاں لگنے سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں (ان میںسے ایک کل اﷲ کو پیارا ہو گیا ہے)‘ ان کو جنم دینے والی مائیں ان کے سرہانے بیٹھی کس کرب سے گزر رہی ہیں؟
گولی چلانے والے اور گولی چلانے کا حکم دینے والے شاید نہیں جانتے کہ اس23 سالہ نوجوان‘ جس کو آئی جی پنجاب کی بھیجی ہوئی پولیس نے نشانہ باندھ کر قتل کر دیا ہے‘ کی ماں نے 8395 دن لمحہ لمحہ اپنے جوان ہوتے بیٹے کو دیکھتے ہوئے گزار ے اور وہ جو ماں کے پیٹ میں تھا آئی جی پنجاب کی بھیجی ہوئی پولیس کی وحشیانہ گولیوں سے اس دنیا میں آئے بغیر بے نام مارا گیا۔ اس کا قصور شاید صرف اتنا سا تھا کہ وہ ایک ایسی ماں کے گھر جنم لینے والا تھا جس نے ایک جونیئر افسر کو اپنے سے سینئر افسروں کو نظر انداز کرتے ہوئے آئی جی پنجاب بنانے والے آج کے حکمرانوں کی شان میں زندہ باد کے نعرے نہیں لگانے تھے‘ جس نے اس دنیا میں آ کر ناحق اعلیٰ ترین پوسٹنگ دینے والے حکمرانوں کی تعریفوں کے ڈھول نہیں پیٹنے تھے اور اﷲ کی وحدانیت کا پرچار کرنے والی اس ننھی سی معصوم روح کو دنیامیں لانے والی اس ماں کا قصور یہ تھا کہ وہ حکمران جماعت کی کوئی ایم پی اے نہیں تھی جو۔ سرعام ہر راہ چلتے کو تھپڑ مارنا اپنا حق سمجھتی ہو ۔جن لوگوں نے اس قتل عام کا براہ راست مشاہدہ کیا ہے‘ منہاج القرآن کے ارد گرد رہنے والے وہ خاندان جنہوں نے پنجاب پولیس کی اس سفاکیت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے‘ وہ گھر جن کے کمروں اور صحنوں میں آنسو گیس کے شیل گرے ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ ایسا لگ رہاتھا‘ پولیس جنگلے گرانے نہیں بلکہ رقص ابلیس کا مکروہ ترین مظاہرہ کرنے آئی ہے۔ بات کسی کم تعلیم یافتہ پولیس کانسٹیبل کی نہیں بلکہ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر دکھائی جانے والی فوٹیج میں ایک پی ایس پی افسر کو صاف دیکھا جا سکتا ہے جو ایک خاتون کو دھکے دیتے ہوئے اس کے جسم سے کھیلنے کی غلیظ کوشش کر رہا ہے۔ جس طرح دینی تعلیم حاصل کرنے والی بچیوں سے شرمناک اور گھٹیا ترین سلوک پولیس کے ان اہلکاروں کی طرف سے کیا گیا‘ اسے ہماری تاریخ کی بد ترین مثال کہا جا سکتا ہے۔ مگر کہیں سے سوموٹو بھی نظر نہیں آ یا ۔شاید موسم گرما کی چھٹیوں کا آغاز ہو گیا ہے؟
لاہور ہائیکورٹ کے باہر جب اس قوم کی ایک بد نصیب بیٹی فرزانہ کو اس کے اہلخانہ نے اینٹیں مار کر ہلاک کیا تو وہائٹ ہائوس امریکہ کی سرکاری ترجمان اس کی مذمت کرتے ہوئے اس کے ذمہ داروں کو سخت ترین سزا دینے کی اپیل کرتی نظر آئی لیکن کل جب وزیر اعلیٰ ہائوس اور وزیر اعظم کے گھر سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ایک حاملہ عورت کو گولیوں سے بھون دیا گیا تو دنیا بھر کی ان تمام ''مہذب قوموں‘‘ کی زبانیں بند رہیں۔ جب اسی پاکستان میں مختاراں مائی نامی ایک عورت سے مقامی لوگوں نے زیا دتی کی تو پوری دنیا کا میڈیا اور امریکہ‘ یورپ‘ جاپان اور برطانیہ کی تمام انسانی اور خواتین کے حقوق کی تنظیمیں دس سال تک گلے پھاڑ پھاڑ کر چیختی رہیں۔ مختاراں مائی کو دنیا بھر کے اعزازات دیے گئے۔ جب ملالہ نامی لڑکی کو ایک گولی لگی تو ملکہ برطانیہ سے لے کر اوباما تک اس کے قدموں میں بچھ گئے لیکن یہاں دو عورتیں درندگی کا نشانہ بنیں اور کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا۔اسی پاکستان میں جب ایک معصوم روح کو دنیا میں لانے والی ماں کو نشانہ باندھ کر کلاشنکوف سے ادھیڑ دیا گیا تو ایسے لگا کہ سوائے پاکستان کے میڈیا کے ،دنیا بھر کی سب تنظیمیں اندھی‘ گونگی اور بہری ہو گئی ہیں۔ جو کچھ سی سی پی او کی پولیس نے ایس پی طارق عزیز کی سربراہی میں کیاہے‘ شاید آج تک کسی نے نہیں کیا۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ دس سے پندرہ سال تک کے بچوں کے جسموں کے نا زک حصوں کو بھاری بوٹوں کے ٹھڈوں سے نشانہ بنایا گیا؟ قوم کی پندرہ سولہ سال کی بیٹیوں کے ساتھ پولیس افسران کی نگرانی میں جو شرمناک حرکات کی گئیں اس پر فرشتے بھی رو پڑے ہوں گے۔ اگر کوئی نہیں رویا تو گلو بٹ اور سلمیٰ بٹ کی پرورش کرنے والے حکمران نہیں روئے ۔
جرم کا اعتراف کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ ایک جرم کو چھپانے کیلئے انسان کئی اور جرم کرتا اور جھوٹ پر جھوٹ بولتا ہے جو سب سے بڑا گناہ ہے۔ آپ یہ نہ کہیں کہ مجھے تو جنگلے گرائے جانے کا علم نہیں تھا اور نہ ہی پولیس فورس کو بھیجنے کا۔ اگر آپ کہنا ہی چاہتے ہیں تو کھل کر کہہ دیں کہ یہ آپریشن آپ سے با لا بالا کیا گیا کیونکہ با خبر لوگوں کا کہنا ہے کہ منہاج القرآن پر حملے کا فیصلہ اسی شام ہو گیا تھا جب لندن میں ڈاکٹر طاہر القادری نے ''نیوزی لینڈ ‘‘کے سابق وزیر اعظم کے حوالے سے وہاں کی ایک سٹیل مل کی ملکیت بارے اہم انکشاف کیا تھا۔
گزشتہ روز گلو بٹ کو عدالت لے جایا جا رہا تھا تو وہاں موجود لوگوں نے اس کی پٹائی کر دی۔ جس پر پولیس نے اسے بے ہوش ہو جانے کا مشورہ دیا تاکہ اسے یہاں سے بچا کر آسانی سے نکال سکے۔ آپریشن والے روز ایس پی ماڈل ٹائون اور پولیس کی دیگر نفری گلو بٹ کو شاباش دے رہی تھی تو عدالت لے جانے والی پولیس نے بھی اسے بچانے کی کوشش کی ۔ سوال یہ ہے کہ کیا گلو بٹ اصل مجرم ہے۔ کیا ایک عام آدمی اپنی مرضی سے پولیس کے سامنے گاڑیاں توڑ سکتا ہے اور اگر نہیں تو پھر ایس پی ماڈل ٹائون کو ابھی تک گرفتار کیوں نہیں کیا گیا۔ایسا لگتا ہے کہ اس مرتبہ بھی گلو بٹ ہی قابو آئیں گے اور اصل ماسٹر مائنڈ آزاد پھریں گے۔ یہ لوگ تو اوپر والوں کے حکم سے کام کرتے ہیں اور ایسے ہزاروں ٹائوٹ اب بھی ن لیگ کے کارکنوں کی شکل میں سرکار کی خدمت کر رہے ہیں اور اس کے عوض معقول انعام بھی پاتے ہیں۔ اس سانحے کے ڈیزائنر بھی یہی چاہتے ہیں کہ توجہ گلو بٹ تک ہی محدود رہے اور وہ ایک مرتبہ پھر صاف بچ جائیں۔
خدا کے بندو!پکڑنا ہے تو اصل گلو بٹ کو پکڑو ...ورنہ باقی سب کہانیاں ہیںبابا!