تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     21-06-2014

دشمنوں کا اتحاد

نام نہاد مسلمانوں کا ایک لڑاکا گروہ دنیا کا نقشہ از سر نو کھینچنے کی کوشش کر رہا ہے مگر اسے نہیں معلوم کہ دنیا آگے بڑھ چکی ہے‘ قبائلی دور سے آ گے‘ عالمی جنگوں سے آ گے‘ نو آبادیاتی دور سے آگے‘ یہاں تک کہ سرمایہ داری دور سے بھی آ گے۔ یہ لوگ‘ مذہبی‘ نسلی‘ لسانی‘ علاقائی اور دوسری عصبیتوں کی بنا پر دنیا کودوبارہ تقسیم کرنے کی سعی میں مصروف ہیں ۔تقسیم کا ایک خط پاکستان کے دو صوبوں سے گزرتا ہے اور ڈیورنڈ لائن کہلاتا ہے ۔سولہ سو چالیس میل لمبا یہ خیالی خط ایک انگریز مہم جو نے کھینچا تھا اور اس کا مقصد افغا نستان اور برطانوی ہند کی سرحد کا تعین کرنا تھا۔ پاکستان جسے یہ بٹوارہ ورثے میں ملا‘ اسے قبول کرتا ہے مگر افغانستان کی کسی حکومت‘ خواہ وہ بادشاہ کی ہو‘ کمیونسٹوں کی‘ طالبان کی یا پھر موجودہ جمہوریت‘ نے صدق دل سے اس لائن کو منظور نہیں کیا۔ اس کا نتیجہ ان لاکھوں افغانوں کی ہجرت کی صورت میں نکلا جنہوں نے اپنے ملک میں خانہ جنگی سے بھاگ کر پاکستان میں پناہ لی۔ لائن کے دونوں جانب آج اپنے ملکوں سے نکالے ہوئے ہزاروں مسلم شدت پسند پڑے ہیں اور پاکستان کی فوجی اور سول تنصیبات پر حملے کر رہے ہیں۔ وہ ان سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ انہیں مقامی انتہا پسندوں کی حمایت حاصل ہے جو سمجھتے ہیں کہ ان کے نصب العین کی تائید کرنا عین ایمان ہے۔ ایسے ہی گروہوں نے کرا چی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر حملہ کیا اور ایران سے واپس آنے والے زائرین کی ایک بس کو تشدد کا نشانہ بنا یا ۔
جیسا کہ اس کالم میں توجہ دلائی جا چکی ہے شدت پسندی کوئی مسلک نہیں بلکہ ایک ذہنیت کا نام ہے جو اب ہر طرف پھیل چکی ہے۔ وہ ممالک جن کا ظہور دوسری بڑی لڑائی کے خاتمے پر ہوا اور جن میں مسلمان اکثریت میں یا بڑی تعداد میں آباد ہیں مثلاً پاکستان‘ افغانستان‘ انڈونیشیا‘ مصر‘ بھارت‘ نائیجیریا اور چین وغیرہ اس کی لپیٹ میں ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اتوار کو جب ایک طولانی اتمام حجت کے بعد پاکستان میں دہشت پسندی کے خلاف فوجی کارروائی شروع ہوئی تو ڈیورنڈ لائن سر بمہر کر دی گئی اور افغانستان سے درخواست کی گئی کہ اپنی جانب سرحد کی‘ بالخصوص پکتیا کے پہاڑوں کی نگرانی سخت کر دے تا کہ شمالی وزیر ستان سے بھاگ کر کوئی دہشت کار اس کے ہاں پناہ نہ لینے پائے ۔پہلے چوبیس گھنٹے میں ایک سو سے زیادہ دہشتگرد‘ جن میں کراچی حملے کا سرغنہ ایک ازبک مجاہد بھی شامل تھا‘ مارے گئے۔ پاکستان کو امریکی تعاون بدستور حاصل ہے اور وزیراعظم نواز شریف کے عہد میں تیسرا ڈرون حملہ اس تعاون کا ایک ثبوت ہے ۔ ایک مسام دار خیالی خط کو کس حد تک آمد و رفت کے قواعد کے تابع کیا جاسکتا ہے اس سوال کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا مگر افغانستان کو جیسا کہ وزیر اعظم نوازشریف نے صدر حامد کر زئی کو فون کیا اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے جس کی تائید کی‘ بہر حال تعاون کرنا چاہیے کیونکہ اول تو افغانستان کو نو زائد ہ جمہوری نظام کے خلاف ایک تحریک مزاحمت کا سامنا ہے اور دوم دو جولائی کو وہاں بھی حکومت کی پُر امن تبدیلی کا امکان ہے ۔
انہی دنوں عراق کے حصے بخرے کرنے کی ایک تحریک زور پکڑ رہی ہے جسے اسلامی ریاست شام و عراق (آئی ایس آئی ایس) کا نام دیا گیا ہے اور جس نے سب سے پہلے شام اور عراق کی سرحد پامال کی ہے۔ یہ لوگ‘ افغان طالبان کی طرح تیزی سے موصل‘ تل افار اور باقوبہ پر قبضہ کرنے کے بعد شمالاً جنوباً بڑھ رہے ہیں اور سات میل دُور بغداد پر اپنا تسلط جمانے کی امید رکھتے ہیں مگر انہیں وزیر اعظم نوری المالکی کی فوج اور اس کی حمایت میں اٹھنے والے رضا کاروں کی مزاحمت درپیش ہے ۔شام‘ عراق‘ مصر اور باقی مشرق وسطیٰ کو متحد کرنے اور پورے خطے کو ایک خلیفہ کی تولیت میں دینے کا خواب نیا نہیں ۔ گزشتہ صدی کے شروع تک جب خلافت سکڑ کر استنبول تک محدود ہوگئی تھی اور ترکی کو یورپ کا مرد بیمار کہا جاتا تھا مصطفی کمال پاشا نے ترک انقلاب برپا کرکے اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا تھا ۔پنجاب کے مسلم گھرانوں کا یہ گیت اسی زمانے کی یادگار ہے ۔ غازی مصطفی پاشا کمال وے تیریاں دُور بلائیاں‘ تینوں روندے سمرنا دے بال وے تیریاں دُور بلائیاں۔ جمال الدین افغانی کو خلافت کے حق میں تحریک چلانے کی غرض سے بر صغیر بھیجا گیا ۔گاندھی جی اور کانگرسی مسلمانوں نے اس تحریک کی پذیرائی کی مگر قائد اعظم نے اسے رد کر دیا۔
اس نئی تحریک کا بانی ان ''مجاہدین‘‘ میں سے ایک تھا جنہیں افغانستان پر سوویت یونین کی فوج کشی کے خلاف امریکہ نے جنگ کی تربیت دی تھی اور جو 2006ء میں عراق پر امریکی بمباری کے دوران ہلاک ہو گیا تھا ۔وہ ابو مصعب الزرقاوی تھا جو اردن کے شہر زرقہ میں احمد فضیل الخلیلہ کے نام سے پیدا ہوا تھا۔ سکول ادھورا چھوڑ کر چوبیس سال کی عمر میں وہ گھر سے نکلا۔ کچھ عرصہ افغانستان میں کمیونسٹوں سے لڑتا رہا۔ مقامی جہادیوں سے تال میل بنانے پر اسے پانچ سال قید کی سزا دی گئی۔1999ء میں رہائی ہوئی اور وہ افغانستان واپس چلا گیامگر بن لادن نے اس پر اعتماد نہ کیا ۔ اس نے ہرات میں اپنا تربیتی کیمپ قائم کیا جو قندھار میں بن لادن کے کیمپ سے کو سوں دور تھا ۔دو سال بعد امریکہ نے افغانستان پر بم باری شروع کی تو اس نے عراق واپس جا کر کردستان کے خود مختار پہاڑی علاقے میں پناہ لی ۔
زرقاوی کا عراقی کیمپ بالآخر جارج بش کی حکومت کی توجہ کا مرکز بنا اور اس نے القاعدہ سے صدام حسین کے تعلقات کے ثبوت میں اسے استعمال کیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ وزیر خارجہ کولن پاول نے عراق پر غیر قانونی امریکی جارحیت کے جواز میں جو تقریر 2003ء میں اقوام متحدہ میں کی اس میں بیس دفعہ زرقاوی کا نام لیا گیا تھا ۔ پاول اور ان کے بعد ڈیموکریٹک صدارتی امیدوارجان ایڈورڈ‘ ہلیری راڈم کلنٹن اور کئی دوسرے سینیٹر اس موقف سے تائب ہو گئے مگر مشرق و سطی اور یورپ میں زرقاوی کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ آئی ایس آئی ایس کی ویب سائٹس سرتابی کرنے والوں کے لیے وحشیانہ سزاؤں کے مناظر کے علاوہ معاشرتی انصاف کے وعدوں سے بھری ہوئی ہیں جو حالا ت حاضرہ سے نئی تنظیم کی باخبری کا پتہ دیتے ہیں ۔
عراق سے امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد جو فرقہ وارانہ خون خرابہ شروع ہوا‘ آئی ایس آئی ایس اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ امریکہ المالکی کو اس کا ذمہ دار سمجھتا ہے اور اسے بغداد میں فرقہ واریت پر مبنی حکومت چلانے کی بجائے ایک ہمہ گیر کابینہ بنانے کی تلقین کر رہا ہے مگر ہمسایہ ایران کی طرح اسے بھی عراق کو ساقط ہوتے دیکھ کر خوشی نہ ہوگی ۔ ایرانی صدر حسن روحانی کہتے ہیں کہ ان کی حکومت القا عدہ سے ولولہ پانے والے عسکریت پسندوں سے لڑائی میں بغداد کی امداد کرنے کے لئے تیار ہے اور اس سلسلے میں امریکہ اور ایران میں تعاون خارج از امکان نہیں۔ کیری اس خیال کی تائید کرتے ہیں مگر محکمہ دفاع کا بیان ہے کہ اگر امریکہ اور ایران میں کوئی تعاون ہوا تو وہ محدود ہوگا۔ اس کی نوعیت سفارتی ہوگی فوجی نہیں ۔ امریکہ کو ایران کے جوہری منصوبے سے اختلاف ہے اور اس نے تہران پر تعزیریں لگا ر کھیں ہیں۔ محاذ جنگ پر اگر ان میں اتحاد ہوا تو وہ دو دشمنوں کا اتحاد ہو گا۔ حال ہی میں امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنے دو دوستوں کی ناراضگی مول لے کر ایران پر بمباری نہیں کی اور نہ شام کی خانہ جنگی میں ہاتھ ڈالا۔ امریکہ نے دوسری جنگ عظیم سوویت یونین کے ساتھ مل کر لڑی تھی۔سوال یہ ہے کی اگر دو دشمن ایک جنگ مل کر لڑ سکتے ہیں تو ایک اللہ اور ایک نبیﷺ کو ماننے والے امن چین کے ساتھ زندگی بسر کیوں نہیں کرسکتے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved